پاکستاناہم خبریں

جیل سے چلائی گئی تحریک پی ٹی آئی کو دوبارہ طاقت دے گی؟

خان نے پارٹی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ آنے والی احتجاجی تحریک فیصلہ کن ہونی چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ملک گیر احتجاجی تحریک کی کال کامیاب نہیں ہو سکتی اور موجودہ حالات میں مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔ تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ گوریلا وار ہو گی اور یہی واحد راستہ بچا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے موجودہ حکومتی اتحاد (مسلم لیگ ن) کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ جیل میں قید سابق وزیر اعظم کے بقول وہ اس احتجاج کی قیادت خود جیل سے ہی کریں گے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر، جنہوں نے عمران خان کا فیصلہ میڈیا کو بتایا، کا کہنا ہے کہ خان نے پارٹی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ آنے والی احتجاجی تحریک فیصلہ کن ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی نے انتخابات کے دن سے ہی عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی قیادت کا ماننا ہے کہ جب بھی کوئی کیس پی ٹی آئی، اس کی قیادت یا خاص طور پر عمران خان سے متعلق ہوتا ہے، عدالتیں انصاف فراہم نہیں کرتی ہیں۔

پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ حالیہ ضمنی انتخاب، جو ضلع سیالکوٹ کے شہر سمبڑیال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہوا، بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی زدہ تھا۔ پارٹی کا الزام ہے کہ پولیس اور انتظامیہ نے انتخابی عمل میں کھلم کھلا مداخلت کی، جس کے غیر سرکاری نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار حنا ارشد وڑائچ کامیاب ہوئیں، جنہوں نے 78,702 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار فاخر نشاط گھمن کو 39,018 ووٹ ملے۔

پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کی کیا حکمت عملی ہے؟

اگرچہ یہ تمام عوامل بظاہر پی ٹی آئی کو ملک گیر احتجاج کی طرف دھکیل رہے ہیں لیکن سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاجی تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت کا مؤقف ہے کہ حکومت اُس وقت تک مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گی جب تک اُس کو دباؤ محسوس نہ ہو۔

پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

’عمران خان نہیں چاہتے کہ فوج اور عوام کے درمیان دوری ہو‘

احتجاج کی ممکنہ کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بار پارٹی ایک مختلف حکمت عملی اپنائے گی اور اسلام آباد مارچ کے بجائے احتجاج یونین کونسل کی سطح پر ہو گا، جہاں نچلی سطح کی قیادت چھوٹے شہروں، قصبوں اور یونین کونسلز کو بند کرنے میں کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا، "اس طریقے سے حکومت نہ تو ان پر فائرنگ کر سکتی ہے اور نہ ہی ہزاروں مقامات پر کنٹینر لگا سکتی ہے۔”

ڈاکٹر ہمایوں نے کہا کہ متوقع احتجاج صرف سمبڑیال کے الیکشن تک محدود نہیں بلکہ انتخابی دھاندلی ایک بڑی بیماری ہے اور یہ احتجاج حکومت کو مجبور کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ پورے انتخابی عمل کو درست کرے اور پی ٹی آئی کو وہ انصاف فراہم کرے جو اسے طویل عرصے سے نہیں دیا جا رہا۔

جیل سے احتجاج کی قیادت کے حوالے سے ڈاکٹر ہمایوں کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ بہ لمحہ احتجاج کی قیادت کرنے جیسا نہیں ہو گا بلکہ عمران خان ایک حکمتِ عملی بنائیں گے جسے وہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں تک پہنچائیں گے اور وہ اسی حکمتِ عملی پر عمل کریں گے۔

عمران خان
ناقدین کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہے

کیا پی ٹی آئی کو احتجاج کا کوئی فائدہ ہو گا؟

جہاں پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ "گوریلا جنگ” طرز کا احتجاج ہی واحد راستہ ہے تاکہ پی ٹی آئی اپنی شکایات درج کرا سکے اور انصاف حاصل کر سکے، وہیں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ طریقہ کار شاید مؤثر نہ ہو کیونکہ ماضی میں بھی اس سے پارٹی کو فائدہ نہیں ہوا۔

معروف اینکر اور تجزیہ کار نسیم زہرہ نے پی ٹی آئی کے ایک اور ملک گیر احتجاج کے خیال کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی آمنے سامنے آ چکے ہیں اور پی ٹی آئی کو احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حکومت سیکشن 144 نافذ کرکے احتجاج کو دبانے کی کوشش کرے گی، جس سے عوام کو سڑکوں پر لانا مشکل ہو جائے گا۔

نسیم زہرہ نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ موجودہ حالات میں احتجاج سے کچھ حاصل کر سکتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی اور "مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جو پارٹی اور اس کی قیادت کے لیے باقی بچا ہے۔”

ایسے وقت میں جب کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں اور احتجاج ایک غلط حکمتِ عملی ہے، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ احتجاج بظاہر کامیاب نہ بھی ہو، لیکن اس سے پارٹی کی عوامی حمایت کم نہیں ہو گی بلکہ یہ عمل پارٹی اور اس کے کارکنوں کو دوبارہ متحرک کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ احتجاج نتائج کے لحاظ سے کامیاب ہو گا، لیکن ممکن ہے کہ پارٹی نے اپنے کارکنوں اور صفوں کو منظم اور فعال کرنے کے لیے یہ راستہ چنا ہو۔

انہوں نے بتایا،  "پی ٹی آئی اب بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔” تاہم انہوں نے مزید کہا، "پی ٹی آئی اس وقت حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر احتجاج کے ذریعے دباؤ نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی احتجاج سے کوئی ریلیف حاصل کر سکتی ہے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button