کالمزناصر خان خٹک

جیش العدل سے منسوب اکاؤنٹس آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلیجنس خود چلا رہی ہے…….ناصر خان خٹک

ایران کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان پر جیش العدل نامی اس جہادی تنظیم کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے

ایران کا پاکستانی حدود میں حملہ پاکستان قطعی طور پر عراق اور شام جیسا طرز عمل نہیں اپنائے گا اور اپنی قومی سلامتی اور سالمیت کے لیے ہر وہ قدم اٹھائے گا جو پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرے گا پاکستان ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بقاء باہمی کے اصول کو ترجیح دیتا ہے لیکن اپنی ملکی سلامتی کے تقاضوں سے قطعاً غافل نہیں ہے اور ایران کی اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے ایرانی دہشت گردی کے کھیل سے کون واقف نہیں ہے، ایران کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان پر جیش العدل نامی اس جہادی تنظیم کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، جس کے شدت پسند ماضی میں ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں کئی خونریز حملے کر چکے تھے، پاکستان کے ساتھ سرحد سے متصل ایران کا یہ صوبہ کافی زیادہ غربت کا شکار ہے اور وہاں کی زیادہ تر مقامی آبادی کا تعلق بلوچ نسلی اقلیت سے ہے۔ اسی طرح ملکی سطح پر اگر ایران کی آبادی میں سے 90 فیصد شہریوں کا تعلق شیعہ اسلام سے ہے تو ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں زیادہ تر مقامی باشندے اسلام کے سنی مسلک کے پیروکار ہیں۔ 2005ء سے لے کر 2010ء تک ایران کے اسی سرحدی صوبے کو ایرانی بلوچ سنی جہادی گروہ جنداللہ کی طرف سے طویل مسلح بغاوت کا سامنا رہا تھا۔ دو ہزار دس کے وسط میں اس گروپ کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد سے اس تنظیم کی طرف سے خونریزی ختم چکی تھی۔ جس کے بعد سے ایرانی حکام نے اس تنظیم کے نام سے خود ساختہ نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جو خود ایران کے خفیہ ادارے اس کو خفیہ طریقے سے چلاتے ہیں اور پھر الزام جان بھوج کر پاکستان پر لگاتے ہیں ایرانی حکام کا الزام ہوتا ہے کہ اسی صوبے میں جیش العدل کے ’دہشت گرد‘ وقفے وقفے سے مسلح حملے کرتے رہتے ہیں، جو مبینہ طور پر سرحد پار پاکستان سے آ کر یہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے اس تنظیم کو خود ایران، ایرانی صوبے سیستان سے چلاتا ہے اور کھیل کھیلنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں پر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ بھارتی جاسوس کل بھوشن خود ایران کے شہر زیورات کے تاجر کے بھیس میں رہتا رہا جس کے پاس ایرانی پاسپورٹ اور ویزہ تھا کل بھوشن کو ایران سے ہی بلوچستان کے علاقے ماشکیل میں داخلے پر گرفتار کیا گیا تھا،عین اسی وقت کل بھوشن جو نیٹ ورک ایران سے چلا رہا تھا اس کا نائب راکیش بھی ایران میں موجود تھا جس کےلیے پاکستان نے زمہ دار ریاست اور پڑوسی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے معلومات ایرانی حکومت اور ایرانی اداروں کے ساتھ شیئر کئے تھے نا کہ خود ایرانی سرزمین پر حملہ کیا، ایران میں ہی ایرانی بارڈرز پر بھارت دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہا ہے لیکن ایران نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، ایرانی دہشت گردی کے ثبوت پوری دنیا دکھا چکا ہے لیکن پاکستان نے کبھی بھی ایران کے خلاف بیان بازی تک نا کی، حالانکہ ایرانی مدد سے ایران کے راستوں سے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی ایجنسی را کے دہشت گردوں نے پاکستان شہریوں پر حملے کئے، تین دن قبل ایران کے شہر تہران میں بھارتی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبد اللہیان سے بات چیت کے بعد ایک مشترکہ کانفرنس کی، جس میں خطے کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا لیکن مجھے بھارتی وزیر خارجہ کا دورہ ایران پر بھی تشویش ہے جس کے دورے کے تین دن بعد ہی ایران نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کیا اور ڈرامہ رچایا، ایران کی جانب سے فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر ایک گھناونا وار ہے۔ جس کے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں, اس خلاف ورزی کے نتیجے میں دو معصوم بچے جانبحق جبکہ تین بچیاں زخمی ہوگئی ہیں۔ جو ایران کے اس دعوی کی تردید ہے کہ یہ حملہ کسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف کیا گیا ہے, اس حملے کی ساری ذمہ داری ایرانی حکومت ، آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلیجنس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے متعدد چینلز ہونے کے باجود بین الاقوامی قوانین کے برعکس کارروائی عمل میں لائی گئی جو کہ صریحاً پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہے, اس واقعے کا جواز پیدا کرنے کے لیے جیش العدل نامی تنظیم سے ایک جعلی پریس ریلیز بھی جاری کروائی گئی ۔ پاکستان کا ری ایکشن دیکھ کر ایران کو اپنے اِس غلط اور بے تکی حرکت کا اندازہ ہو گیا, جیش العدل جسے آئی آر جی سی خود چلا رہی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کے کسی طرح اِس مسئلے سے جان چھڑائی جائے اِسی لئیے جیش العدل سے دوبارہ جھوٹا بیان دلوایا گیا کے یہ راکٹس غلطی سے بارڈر کے پار چلے گئے جبکہ اصل میں نشانہ سستان، ایران کے اندر ہی واقع جیش العدل کے اپنے کیمپ تھے, یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کے ایک دہشت گرد تنظیم خُود آئی آر جی سی کی طرف سے فائر کئے جانے والے راکٹس غلطی سے بارڈر کراس کرنے کی وضاحتیں دے رہی ہے۔ اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کے یہ جیش العدل سے منسوب اکاؤنٹس آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلیجنس خود چلا رہی ہے, ایران کی اس کارروائی پر پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کیمپس ایران میں موجود ہیں- کلبوشن یادیو بھی ایران سے آپریٹ کرتا رہا ہے۔ ایران کا یہ خیال کے پاکستان اِس واقع کو کسی بھی صورت نظر انداز کرے گا اُسکی بہت بڑی بھول ہے، اس کارووائی کے نتیجے میں پوری پاکستانی قوم اس وقت ریاست سے ایک شدید اور اسی طرز کا ردعمل کی متقاضی ہیں۔ پاکستان ہر طرح کا ردعمل دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے دفتر خارجہ کی طرف سے ایرانی ناظم الامور کی طلبی اور شدید احتجاج ریکارڈ کروایا جا چکا ہے۔ ایرانی سفیر کو واپس نہ آنے کا عندیہ اور ایران میں موجود پاکستانی سفیر کو واپس بلانا پاکستان کی طرف سے ایک انتہائی سخت ردعمل کے طور پہ آیا ہے، اس سے پہلے بھی دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات ایران کی سرزمین پر رونما ہو رہے ہیں جنوری 2023 میں ضلع پنجگور میں ایرانی سرحد کے باہر ایران کی جانب دہشت گردانہ سرگرمی کے دوران چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے اور جبکہ اپریل 2023 میں ایران کی طرف سے دہشت گردوں نے کیچ میں پاکستان فورسز پر حملہ کیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایران کے سیکورٹی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایرانی حکومت کو سفارتی سطح پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے،اس کارروائی کے دوران مخصوص سیاسی عناصر نے بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا انتہائی گھناونا استعمال کیا اورافواج پاکستان کو بد نام کرنے کی مذموم سعی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اس سوشل میڈیا مہم میں ہندوستانی اکاونٹس نے بھی بھر پور حصہ لیا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں پاکستان کی مخصوص سیاسی ٹولے کی معاونت کی، ایران کے حملے کا پاکستان کو اب جواب دینا بھی لازم ہوچکا ہے پاکستان ہمیشہ ذمہ دار پڑوسی ملک ہونے کی ذمہ داری سے تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا ہے پاکستان کے اندر پاکستان شہریوں کی دہشت گردی سے اموات کا ذمہ داری ایران پر بھی آتی تھی لیکن پاکستان نے ایرانی سرزمین پر حملہ نہیں کیا حالانکہ پاکستان اتنی طاقت بھی رکھتا تھا اور مضبوط ثبوت بھی جس کی بنیاد پر ایرانی علاقوں میں حملہ کرکے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے نیٹ ورک ختم کر سکتا تھا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا الٹا پاکستان نے بھارتی جاسوس کل بھوشن اور ’را‘ کے دیگر ایجنٹوں کی سرگرمیوں کے بارے میں پاکستان کا ایک چھ نکاتی خط کے ذریعے ایران سے معلومات مانگی پاکستان نے دونوں برادر اسلامی ملکوں کے درمیان باہمی تعاون جاری رکھا اس وقت کے وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں متعین ایرانی سفیر کی وساطت سے حکومت ایران کو جو خط بھیجا تھا اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت ریاستی سطح پر پاکستان میں دہشت گردی، سبوتاژ اور بغاوت کی کارروائیاں کرا رہاہے اور کل بھوشن نے اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں اس مقصد کیلئے ایران کے ساحلی شہر چابہار میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘کے نیٹ ورک کی تصدیق کرچکا ہے، بھارتی جاسوس کل بھوشن خود وہاں زیورات کے تاجر کے بھیس میں رہ رہا تھا اسے ایران سے بلوچستان کے علاقے ماشکیل میں داخلے پر گرفتار کیا گیا۔ اس کا نائب راکیش اب بھی ایران میں موجود ہے۔ خط میں اس کی گرفتاری اور پاکستان کے حوالے کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔ بھارت اور اس کی میڈیا لابی کل بھوشن کے واقعے کو پاک ایران تعلقات خراب کرنے کیلئے مختلف معانی پہنا رہی تھی جس کا نوٹس پاکستان میں ایرانی سفارتخانے نے بھی لیا تھا، سفارتخانے کے ترجمان نے خود ایک بیان میں کہا تھا کہ ایسی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں جن سے پاکستان اور ایران کے درمیان موجود دوستی اور اخوت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس وقت ترجمان کا کہنا تھا کہ جو لوگ دو اسلامی ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کے فروغ پانے والے تعلقات سے ناخوش ہیں وہ مختلف طریقوں سے غیرمہذب اور توہین آمیز مفہوم پر مبنی باتیں پھیلا کر ایران کے صدر حسن روحانی کے حالیہ دورہ پاکستان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی باتوں سے دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے متعلق مثبت اور مخلصانہ موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایرانی صدر نے اپنے دورہ میں ایران کی سلامتی کو پاکستان کی سلامتی اورپاکستان کی سلامتی کو ایران کی سلامتی قرار دیا تھا اور ایرانی ترجمان نے کہا تھا کہ ایران دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کو امن اور دوستی کی سرحد تصور کرتا ہے۔ ان کے اس بیان کی صداقت اس حقیقت سے واضح ہوتی رہی تھی کہ دونوں ملک اسٹرٹیجک معاملات میں ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد اور انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرتے آئے ہیں، ایران کو مطلوب ریگی برادران کی حوالگی باہمی تعاون کی بہت بڑی مثال ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ایران میں دہشت گردی کی مذمت کی اور ہرمشکل وقت میں ایران کا ساتھ دیا، کل بھوشن مسئلے پر ایران کا تعاون مجبوراً اس لئے لازمی ہو گیا تھا کہ اس کے پاس ایرانی ویزا اور پاسپورٹ تھا ۔ ایران کے نام خط میں پاکستان نے درخواست کی تھی کہ پاکستانی علاقوں میں بھارتی جاسوسوں کی دراندازی روکنے کیلئے موثر اور سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ اس سے باہمی تعلقات میں مزید بہتری کے علاوہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ ایران کا پاکستان پر حملہ پاکستان کی قومی سلامتی اور سالمیت پر حملہ ہے پاکستان نے بہت تحمل کا مظاہرہ کرلیا اب اس کھلے حملے کے بعد جواب دینا لازمی ہوچکا ہے پاکستانی عوام سکیورٹی فورسز سے ردعمل کا انتظار کر رہی ہے کہ کب ایران کے حملے پر سکیورٹی فورسز بھرپور ردعمل دے ریاست پاکستان اور سکیورٹی ادارے پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرے کریں گے.

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button