اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

انتخابات 2024: انتخابی عمل میں معروف رہنماؤں کی واپسی

کچھ معروف چہروں کو پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی لہر نے شکست سے دوچار کیا۔ یوں کئی اہم سیاسی رہنما 2018 سے 2023 کی قومی اسمبلی میں نہ پہنچ سکے تھے۔

پانچ سال قبل 2018 میں جب انتخابات کا بگل بجا تو نواز شریف سمیت کئی اہم سیاسی رہنما نااہلی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
کچھ معروف چہروں کو پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی لہر نے شکست سے دوچار کیا۔ یوں کئی اہم سیاسی رہنما 2018 سے 2023 کی قومی اسمبلی میں نہ پہنچ سکے تھے۔
آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے لیے نہ صرف وہ رہنما جو نااہل کر دیے گئے تھے اب سیاسی میدان میں موجود ہیں بلکہ 2018 میں شکست کھانے والے کئی بڑے نام بھی انتخابی معرکے میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے کئی مقبول اور معروف چہروں کو پہلی بار سیاسی میدان میں اُتارا ہے۔
پانچ سال بعد انتخابی سیاست میں جن رہنماؤں کی واپسی ہوئی ہے ان میں سب سے اہم نام نواز شریف، جہانگیر ترین، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور اس فہرست میں کچھ دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔
نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں جب بھی سیاسی عمل سے باہر کیا جاتا ہے کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ انتخابی اور سیاسی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔
سنہ 1999 میں جب پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد نواز شریف کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے 20 سال کے لیے نااہل کر دیا گیا۔
نواز شریف بعدازاں ملک بدر کر دیے گئے اور سات سال ملک سے باہر رہنے کے بعد جب وطن واپس لوٹے تو سپریم کورٹ نے اُن کی نااہلی ختم کر دی اور یوں 2013 کے عام انتخابات جیت کر نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بن گئے۔
سنہ 2017 میں سپریم کورٹ نے اُنہیں پانامہ کیس میں اقامہ رکھنے پر تاحیات نااہل قرار دیا، جس کے بعد نواز شریف کو ایک بار پھر جیل یاترا کرنا پڑی۔
تاہم نواز شریف جلد ہی جیل سے نکل کر لندن پہنچ گئے، جہاں تقریباً چار سال قیام کے بعد نواز شریف وطن واپس لوٹے تو ان کی نااہلی ایک بار پھر ختم ہو چکی ہے اور وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں پنچہ آزمائی کے لیے تیار ہیں۔
سنہ 2011 کے بعد جب تحریک انصاف کا عروج شروع ہوا تو جہانگیر ترین عمران خان کے قریبی ترین ساتھی قرار پائے۔
پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازی میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔
سنہ 2011 میں تحریک انصاف کا حصہ بننے کے بعد جہانگیر ترین صرف دو سال کے لیے رکن قومی اسمبلی رہے، تاہم پارٹی کی فیصلہ سازی میں ان کا کردار کلیدی رہا۔
سنہ 2014 کا دھرنا ہو یا 2018 میں حکومت سازی، جہانگیر ترین نے اپنی پارٹی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے۔
وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے جہانگیر ترین آزاد امیدواروں کو اپنے جہاز میں بٹھا کر اسلام آباد لاتے اور عمران خان سے ملاقاتیں کروا کر اُنہیں تحریک انصاف میں شامل کراتے۔
سنہ 2017 میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا، تاہم پی ڈی ایم حکومت کی قانون سازی اور سپریم کورٹ کے تاحیات نااہلی سے متعلق فیصلے کے بعد وہ سیاسی میدان میں حصہ لینے کے لیے اہل ہو چکے ہیں اور قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے انتخابی میدان میں موجود ہیں۔
طویل سیاسی کیریئر رکھنے والے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 2002 اور 2013 میں بھی قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
وہ اس سے قبل 1988 اور 1993 میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان 1993 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ بنائے گئے تھے۔
سنہ 2002 کے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ 2013 سے 2018 تک مولانا فضل الرحمان پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہوئے۔
اپنے مخصوص لب و لہجے اور وضع قطع کی وجہ سے پارلیمان کے اندر مولانا فضل الرحمن کا اندازِ خطابت کافی مشہور ہے اور پسند بھی کیا جاتا ہے، تاہم 2018 کے انتخابات میں انہیں تحریک انصاف کے علی امین گنڈاپور نے شکست سے دوچار کیا جس کے بعد وہ قومی اسمبلی کے رکن نہ بن سکے۔
مولانا فضل الرحمان اب ایک بار پھر سیاسی قسمت آزمائی کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ بلوچستان کے ضلع پشین سے بھی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سنہ 1993، 2002 اور 2013 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے محمود خان اچکزئی جو کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، 2018 کے انتخابات ہار گئے تھے۔
سنہ 2013 سے 2018 کے دوران وہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اتحادی اور ان کی پالیسیوں کے حامی رہے۔
محمود خان اچکزئی کی اسٹیبلشمنٹ مخالف تقاریر کی بنیاد پر جہاں انہیں پسند کیا جاتا تھا وہیں ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ بالخصوص افغانستان سے متعلق ان کے موقف کو پسند نہیں کیا جاتا۔
سنہ 2024 میں محمود خان اچکزئی ایک بار پھر قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سابق ڈپٹی کنوینر اور معروف رہنما ڈاکٹر فاروق ستار گذشتہ دو دہائیوں سے قومی اسمبلی کے رکن اور ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایم کیو ایم کے اتحاد کی وجہ سے ڈاکٹر فاروق ستار وفاقی وزیر بھی رہے۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کے ایک اہم رکن کے طور پر بھی انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔
سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل ایم کیو ایم میں ہونے والی تقسیم کے باعث ڈاکٹر فاروق ستار انتخابی عمل سے تقریباً باہر ہو گئے تھے۔
آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کی اُن کی کوشش ناکام رہی اس لیے وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب نہیں ہو سکے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے دوبارہ اتحاد کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار ایک بار پھر اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے کراچی سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما قمر زمان کائرہ قومی اسمبلی کا حصہ نہ ہونے کے باوجود ملکی سیاست میں اپنی موجودگی ظاہر کرتے رہے ہیں۔
سنہ 2002 اور 2008 کے انتخابات جیتنے اور گورنر گلگت بلتستان اور وزارت اطلاعات سمیت کئی اہم وفاقی وزارتوں کے قلم دان ہونے کے بعد وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔
تاہم 2013 اور 2018 میں وہ انتخابی میدان میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے اور دونوں مرتبہ شکست اُن کا مقدر بنی۔
وہ ایک بار پھر اپنے حلقے سے قسمت آزمائی کرنے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔ گذشتہ دو انتخابات میں اُنہیں کو شکست سے دوچار کرنے والے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے دونوں امیدوار اس بار ان کے مدمقابل نہیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب سے جن نشستوں کے جیتنے کی اُمید ہے ان میں ایک سیٹ قمر زمان کائرہ کی بھی ہے۔
آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں جہاں مقبول سیاسی قیادت حصہ لے رہی ہے وہیں کچھ ایسے رہنما بھی پہلی بار انتخابی میدان میں اُتر رہے ہیں جو سیاسی میدان میں تو کئی برسوں سے اپنا لوہا منوا رہے ہیں لیکن انتخابات میں بطور امیدوار پہلی بار وارد ہو رہے ہیں۔
ان ناموں میں سب سے پہلا نام مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کا ہے جو گذشتہ ایک دہائی سے سیاسی میدان میں فعال ہیں۔
سنہ 2013 میں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد مریم نواز نے سوشل میڈیا پر ن لیگ کی پروموشن کے لیے بہت کام کیا۔
نواز شریف کی پانامہ میں نااہلی کے بعد مریم نواز نے اُن کے ساتھ مل کر ملک بھر میں جلسے کیے۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ (ن) میں عوامی لیڈر مریم نواز کو سمجھا جاتا ہے۔
سیاست کے میدان میں اتنی زیادہ شہرت ملنے کے باوجود مریم نواز پہلی بار انتخابی میدان میں اُتر رہی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں وہ حصہ لینے کی خواہش مند ضرور تھیں، تاہم اس سے قبل ہی انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنا دی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ نااہل ہو گئیں۔
مریم نواز کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے عطا تارڑ، بلال اظہر کیانی اور کچھ دیگر نئے چہروں کو بھی متعارف کروایا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے کئی اہم رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد متعدد نئے چہروں کو انتخابی میدان میں اُتارا ہے۔
نئے امیدواروں میں بیشتر وکلا شامل ہیں جن میں شیر افضل مروت، سلمان اکرم راجہ، علی بخاری، شعیب شاہین اور دیگر شامل ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button