اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

شہباز شریف انتخابی مہم سے ’غائب‘کیوں ہیں

دوسری جانب لاہور ہی کے حلقہ 119 سے امیدوار حمزہ شہباز نے ابھی تک اپنی انتخابی مہم شروع بھی نہیں کی ہے۔

عام انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کی مہم بھر پور طریقے سے شروع ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں تیسرے جلسے کا انعقاد پیر کو مانسہرہ میں کیا گیا۔ نئی روایت کے مطابق اس جلسے میں بھی مریم نواز نے ترتیب کے برعکس پارٹی قائد نواز شریف کے بعد خطاب کیا۔ اس نئی روایت کا سلسلہ حافظ آباد جلسے سے شروع ہوا تھا۔
جس وقت خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں مسلم لیگ ن کا جلسہ جاری تھا، عین اسی وقت سابق وزیراعظم شہباز شریف لاہور کے حلقہ 123 میں اپنے حلقے میں انتخابی مہم پر نکلے ہوئے تھے، اور انہوں نے چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز سے خطاب کیا۔
دوسری جانب لاہور ہی کے حلقہ 119 سے امیدوار حمزہ شہباز نے ابھی تک اپنی انتخابی مہم شروع بھی نہیں کی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق نواز شریف نے ان انتخابات سے قبل ہی پارٹی لائنز اور پارٹی پالیسی واضح کر دی ہے۔ اب اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں رہا کہ نواز شریف پارٹی کی باگ دوڑ مریم نواز کے ہاتھوں میں دینا چاہ رہے ہیں۔
اگر گذشتہ دو انتخابات پر نظر دوڑائیں تو سنہ 2013 کے انتخابات میں الیکشن مہم میں نواز شریف اور شہباز شریف نے ملک بھر میں جلسے کیے تھے۔ اس وقت مریم نواز نے ابھی سیاست میں قدم نہیں رکھا تھا تو پنجاب کی ن لیگ کی سیاست حمزہ شہباز کے ہاتھ میں تھی۔ البتہ سنہ 2018 کے انتخابات میں صورت حال یکسر بدل گئی۔ نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے تو انتخابی مہم شہباز شریف کے ہاتھ میں تھی۔
تاہم 2024 کے عام انتخابات میں اب شریف خاندان کی سیاسی سمت بھی واضح ہو چکی ہے جس میں پارٹی کی ڈرائیونگ اور فرنٹ سیٹ پر نواز شریف اور مریم نواز ہیں۔
پارٹی کی جانب سے دستیاب شیڈول کے مطابق صرف قصور کے جلسے میں شہباز شریف بھی ہوں گے جو خود اس ضلع کے ایک حلقے سے امیدوار بھی ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کی نواز شریف کے بعد تقاریر کرنے کی صرف ایک ہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی وراثت ان کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
’میرے خیال میں وہ چاہتے ہیں کہ مریم نواز جلد اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کر لیں۔ جہاں تک شہباز شریف کا آج کے جلسے یا مرکزی مہم میں نہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ آج اگر شہباز شریف اپنے حلقے میں مہم چلا رہے تھے تو مانسہرہ میں نواز شریف بھی اپنے ہی حلقے میں تھے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ذمہ داریاں تقسیم ہیں، الیکشن میں وقت کم ہے تو یہ معاملہ بھی حکمت عملی معلوم ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ سیاسی حالات میں اندرونی اختلافات کو اخذ کرنا درست نہیں، میرے خیال میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صلاح مشورے اور حکمت عملی سے ہو رہا ہے۔‘
سیاسی مبصرین مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست پر ان خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست کے حامی رہنماؤں اور شہباز شریف کی سیاست کے حامیوں میں واضع تفریق رہی ہے۔
سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق ’موجودہ انتخابی مہم میں یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ نواز شریف گروپ ہی راستے کا تعین کرے گا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز ہی ان کی جائز سیاسی وراثت کی حق دار ہیں۔ جب نواز شریف پر کڑا وقت آیا تو مریم نواز نے اپنا لوہا منوایا اور بالکل ایسی ہی پذیرائی کارکنوں میں حاصل کی جو نواز شریف کے حصے میں تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدرتی امر ہے۔ اور اس پر پارٹی کے اندر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ جیسے نواز شریف اپنی تقریر کے بعد مریم سے تقریر کروا رہے ہیں ہو سکتا کے کہ وہ پنجاب میں ن لیگ کی وزارت اعلیٰ کی امیدوار بھی ہوں۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button