حیات عبداللہکالمز

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں…… ( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

بھارت، کشمیریوں کی آہوں اور سسکیوں کو دبانا چاہتا ہے، وہ اہلِ کشمیر کے آنسوؤں کو دنیا سے چُھپانے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے

اگرچہ ان کا درد سمجھنا چنداں دشوار نہ تھا مگر ہم ان سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں، ہم بے مروتی کی ہر حد سے گزر چکے ہیں، ہم بے حسی کے ہر درجے سے تجاوز کر چکے، اگر ہم ذرا سی بھی دُور اندیشی اور عقل و دانش کے ساتھ غور سے اہلِ کشمیر کے نالے اور آہ و زاریاں دیکھتے تو ان کے عقب میں چُھپے ہوئے ہمارے ہی دکھ درد ہمیں ضرور نظر آ جاتے، یقیناً کشمیر کو بھارت کی گود میں ڈالنے کی سزائیں اور مصائب ہم سے زیادہ ہماری آیندہ نسلوں کو بھگتنا پڑیں گے۔بھارت، کشمیریوں کی آہوں اور سسکیوں کو دبانا چاہتا ہے، وہ اہلِ کشمیر کے آنسوؤں کو دنیا سے چُھپانے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے۔حریت پسندوں کی کارروائیوں کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا اس کی فطرت بن چکی ہے, کیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاکیت اور درندگی میں کوئی کمی یا کجی باقی رہ گئی تھی کہ اس کسر کو پورا کرنے کے لیے ” آپریشن شکتی “ کے نام سے بھارت نے شوپیاں، راجوری، پونچھ اور پلواما کے اضلاع میں کشمیریوں پر ظلم کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے، وادیِ کشمیر کو جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں سے ملانے والے پہاڑی سلسلے پیر پنجال کے دونوں اطراف آپریشن کو ’’ شکتی ‘‘ کا نام دیا گیا۔” شکتی “ کا مطلب ” طاقت، قوت اور قدرت “ ہے۔” شکتی “ ہندوؤں کی دیوی کا نام ہے، ہندوؤں کی دیوی جو مختلف ناموں سے ہوتی ہے مثلاً بھوانی، کالی، مہاکالی، درگا جس کی پوجا کی جاتی ہے۔یعنی اس فوجی آپریشن کو وہ اپنی دیوی سے منسوب کر رہے ہیں جو یقیناً اپنے أپ کو سیکولر کہلوانے والے بھارت کے نام پر کلنک کا ٹیکا ہے۔حریت پسندوں کے عزائم کو دبانے اور دنیا کے سامنے انھیں دہشت گرد کے طور پیش کرنے کے لیے بھارت نئے نئے ڈھونگ رچاتا رہتا ہے۔کمزوروں پر ظلم کرنا بھارتی ہندو کی فطرت ہے، سوال یہ کہ ہم مسئلہ ء کشمیر سے بالکل الگ تھلگ ہو کر اور اتنے مطمئن اور مسرور ہو کر کیوں بیٹھ گئے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری یہ بے رخی کشمیریوں کا دل کس طرح چیر کر رکھ دیتی ہو گی؟کیا ہم نے کبھی فکر و تدبر کرنے کی زحمت گوارا کی کہ ہماری اس تساہل پسندی کی سزا آنے والی نسلوں کو کتنے بھونڈے انداز میں سہنا پڑے گی، حقیقت یہ کہ ہم کشمیریوں کا درد بھلا چکے ہیں، وہی کشمیر جسے ہم صبح سے شام تک اپنی شاہ رگ کہتے نہیں تھکتے تھے، آج ہم یک دَم ہی ان کا دل توڑ بیٹھے ہیں، ہم نے اچانک ہی کشمیریوں سے ناتا توڑ لیا ہے۔مہتاب عالم نے کہا ہے:-
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
ہمارے سیاست دان اقتدار حاصل کرنے اور پھر اسے طول دینے کے لیے اپنی ساری توانائیاں وقف کر چکے ہیں۔مسلم دنیا نے کشمیری اور فلسطینیوں سے جس طرح بے وفائی برت رکھی ہے، اس کا خمیازہ ان کشمیری اور فلسطینیوں کو بھیانک ظلم کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے
” آپریشن شکتی “ کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے، ان کارروائیوں کا مقصد معصوم مظلوم عوام پر دہشت گردی کا الزام لگانا اور ان کے بنیادی حقوق کو لتاڑ ڈالنا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز اور ایجنسیوں نے پورے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کے نام پر گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔بھارتی فورسز کی یہ کارروائیاں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے خلاف ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ بھی ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں،اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود بھارت نے آج تک کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت نہیں دیا۔آج ساری دنیا نے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں سے منہ موڑ لیا ہے، داغؔ دہلوی کا شعر ہے:-
اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
مودی سرکار نے 5 اگست 2019 ء سے پوری مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کیا ہوا ہے، مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دینے والے مودی نے انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں کی ہیں۔اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم بین الاقوامی اور عالمی ادارے اس بھارتی سفاکیت پر محض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، مسلم امہ کی بے حسی اور عالمی برادری کی بے مروتی ہی وہ وجوہ ہیں، جن سے بھارت کو مزید ظلم و جبر کرنے کا حوصلہ مل رہا ہے، جب سے مودی نے کرفیو نافذ کیا ہے، تب سے ہم نے بھی کشمیر کو اپنے اذہان سے محو کر دیا ہے۔بہادر شاہ ظفر کے بہ قول:-
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمھاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
حقیقت یہی ہے کہ دنیا قیامِ امن کے لیے بالکل سنجیدہ نہیں ہے، اگر عالمی برادری کو انسانی حقوق کا ذرا بھی خیال ہوتا تو مسئلہ ء کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس اقدام ضرور کیے جاتے، اقوامِ متحدہ کو علم ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ہیں اور مسئلہ ء کشمیر کی وجہ سے کبھی نہ کبھی ان دونوں کے مابین مسلسل بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی انتہائی سنگین اور بے حد خطرناک صورتِ حال کو جنم دے سکتی ہے اور اگر کبھی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو یہ پوری دنیا کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔کشمیریوں کی زیست کسی مفلس کی ایسی قبا بن کر رہ گئی ہے، جس میں جا بہ جا درد اور کرب کے پیوند لگے ہیں، فیض احمد فیض کیا خوب کہا ہے:-
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button