انعام الحسن کاشمیریکالمز

بھارت کا یوم جمہوریہ۔۔۔دنیا کا سب سے بڑا فراڈ….انعام الحسن کاشمیری

اس دن بھارت کے تمام علاقوں، ریاستوں،میں خصوصی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ایک تہوار کے طور پر اس دن کو منایاجاتاہے

بھارت کے 26جنوری کو منائے جانے والے یوم جمہوریہ کی تاریخ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے برطانوی راج کے ایکٹ 1935کو منسوخ کرکے اس روز اپنے آئین کا نفاذ عمل میں لایا۔ دستور ساز اسمبلی نے بھارتی آئین کو 26نومبر1949ء کو اختیار کرنے کی منظوری دی جبکہ اس کا عملی نفاذ 26جنوری 1950ء کو عمل میں لایا گیا۔اس دن بھارت کے تمام علاقوں، ریاستوں،میں خصوصی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ایک تہوار کے طور پر اس دن کو منایاجاتاہے۔ باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب میں کسی ایک دوست ملک کے سربراہ کو مدعو کیاجاتاہے۔ ملک بھر میں ایک تہوار جیسا سماں دکھائی دیتاہے اور بھرپور خوشیوں کا اظہار کیاجاتاہے۔ کھیل، ادب، کوئز ودیگر کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، جلسہ گاہوں کو کاغذی جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے سجایاجاتاہے۔ یہی سمجھ لیجیے کہ جس طرح ہم اپنا یوم آزادی مناتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو جوش وخروش،14اگست کو ہوتاہے بھارت میں بالکل ویسا ہی 26جنوری کو منظرنامہ دکھائی دیتاہے۔ حکومت اس دن کی مناسبت سے ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی کے نت نئے منصوبوں کا اعلان کرتی ہے اور اس طرح یہ دن ایک پرانے سال کے منصوبوں کے اختتام اور نئے سال سے وابستہ توقعات اور اعلانات کے جوش و خروش سے بھری امیدوں کے ساتھ شروع ہوتاہے۔ کئی بڑی اقلیتوں کے حامل ملک بھارت میں اس تہوار کا انعقاد ایک روایت ہے، جس کی پاسداری کو حرزِ جاں سمجھاجاتاہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ ہرملک، ہر قوم کو اپنی خوشیاں، اپنے تہوار، اپنی رنگارنگ تقریبات منعقد کرنے اور ان میں اپنے ولولے، اپنے جذبے اور اپنے احساسات کا بھرپور اظہارکرنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت کو چونکہ یہ فخر و غرور بھی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں جن میں ہندوؤں کی غالب اکثریت کے ساتھ سب سے بڑی اقلیت مسلمان، عیسائی، شودر، دلت، سکھ وغیرہ شامل ہیں۔
بھارت کے اس بلند وبانگ دعوے کی زمینی حقائق سختی کے ساتھ مکمل نفی کرتے ہیں۔ دہلی اور چند دیگر ریاستوں کو چھوڑ کر تمام مشرقی ریاستوں میں یوم جمہوریہ کے موقع پر سرکاری دفاتر کے علاوہ عوامی یا نجی سطح پر تقریبات کے انعقاد کا کوئی سلسلہ موجود نہیں۔ وہ علاقے جہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہیں، اور خاص طور پر جہاں نکسل باری بڑے متحرک ہیں، وہاں ایسی تقریبات سرکاری اداروں میں بھی محض خانہ پری کی حد تک منائی جاتی ہیں۔ جن مقامات پر میڈیا کی رسائی زیاد ہے، یا دنیا کو دکھانے کے لیے تقریبات میں عوام کی نمائندگی لازم ہے، وہاں اس دن تقریب سیکورٹی اداروں کی کڑی نگرانی میں منعقد کی جاتی ہیں اور جن میں سرکاری ملازمین ہی کو مدعو کیاجاتاہے۔ انھیں باقاعدہ سیکورٹی پاسزجاری ہوتے ہیں۔ کئی کئی واک تھرو دروازوں، سیکورٹی حصاروں میں سے گزر کر شرکاء تقریب گاہ میں پہنچتے ہیں۔ اس کے علاوہ اطراف کے علاقوں میں سخت چیکنگ ہوتی ہے۔ کسی بھی مشکوک شخص کو فوری طور پر گرفتار کرکے جیل بھجوادیاجاتاہے۔ ذرائع مواصلات، انٹرنیٹ، موبائل فون کے سنگلز کی بندش کے لیے جگہ جگہ جیمر لگادیے جاتے ہیں۔ مکینوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور یہ سب کچھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ملک، صرف دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے کرتاہے۔
 مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت اپنا اثر رسوخ، عوام کی بھارت سے محبت، اور اس علاقے کو پرامن دکھانے کے لیے یوم جمہوریہ کی تقریب جس کڑے پہرے میں منعقد کی جاتی ہے، اس کی مثال نہایت شورش زدہ علاقے میں بھی نہیں ملتی۔  اس کا ایک واضح اور نمایاں مقصد دنیا بھر کو یہ پیغام دینا ہوتاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بالکل پرامن ہیں۔ لوگ تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں بھرپور جوش و خروش کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارت کے اس کھوکھلے دعوے کی نفی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مقبوضہ وادی کو مکمل طور پر فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے، ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے، لوگوں کو گھروں میں محصور کردینے، سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے، ذرائع مواصلات کو مکمل طور پرمعطل کردینے جیسے اقدامات خصوصی بروئے کار لائے جانے سے ہوتی ہے۔ اس دن کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پاکستان، آزادکشمیر اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے کاروبار مکمل طور پر بند رکھے جاتے ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیاجاتاہے اور بھارت کے خلاف سیاہ پرچم لہراتے ہوئے دنیا کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی جاتی ہے کہ کشمیری عوام نے پون صدی سے جاری بھارت کے غاصبانہ قبضہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔  ایک بڑی ریاست جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے ظالمانہ اقدامات خاص طور پر سرینگر اور جموں میں کرفیو کے نفاذ سے اس کے اپنے دعوے کی نفی ہوجاتی ہے۔ اگر کشمیری عوام نے اس کے قبضہ کو تسلیم کرلیا ہوتا تو اسے اپنی مرکزی تقریبات کے انعقاد کے لیے ان سٹیڈیم کو فوج کی تحویل میں دیتے ہوئے شہروں میں کرفیو نافذ نہ کرنا پڑتا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان  نے کشمیری عوام سے  بھارت کی تمام سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرنے اور 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی اپیل کی ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس اور مختلف حریت تنظیموں نے  کشمیریوں پر زور دیا  ہے کہ وہ جمعہ کو بھارت کا یوم جمہوریہ یوم سیاہ کے طور پر منائیں۔ جبکہ اسیر حریت رہنماؤں یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی ودیگر کااپنے پیغامات میں کہناہے کہ کشمیری عوام کیلئے ان کے مادر وطن پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ان کیلئے قبول نہیں ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں قتل عام،ظلم وتشدد اور انسانی حقو ق کی سنگین پامالیوں میں ملوث ہے اور اس نے لاکھوں کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنارکھا ہے لہذا اسے مقبوضہ علاقے میں اپنایوم جمہوریہ منانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button