عوامی خدمت اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ……ناصف اعوان
اہل اقتدار و اختیار نے کبھی بھی قانون کے حاکمیت کے لئے کوشش نہیں کی وہ اس کو غریب عوام کا استحصال کرنے کے لئے بروئے کار لاتے رہے ہیں لہذا لوگ اس مروجہ نظام کے ہاتھوں سخت پریشان و بے بس ہیں۔
عوام کا روایتی سیاسی جماعتوں سے آہستہ آہستہ اعتماد و یقین اٹھتا چلا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے جو بھی کہا وہ انتخابی تھا ا اقتدار میں آنے کے لئے تھا اس کے بعد تُو کون اور میں کون والی صورت حال پیدا ہو گئی مسائل ومشکلات ختم نہ ہو سکے جو ہوئے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر تھے۔ ان سیاسی جماعتوں نے معیشت کی گاڑی کو قرضوں کے ذریعے چلایا جو کبھی رکتی اور کبھی آگے بڑھتی۔ لوگوں کو اچھے دنوں کے نوید دی جاتی مگر وہ اچھے دن آج تک نہیں آسکے مہنگائی سے لیکر ناانصافی تک نے عوام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔قانون کی حکمرانی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اہل اقتدار و اختیار نے کبھی بھی قانون کے حاکمیت کے لئے کوشش نہیں کی وہ اس کو غریب عوام کا استحصال کرنے کے لئے بروئے کار لاتے رہے ہیں لہذا لوگ اس مروجہ نظام کے ہاتھوں سخت پریشان و بے بس ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ روایتی سیاسی جماعتیں اب انتہائی ڈھٹائی سے ووٹ مانگتی پھر رہی ہیں اور لوگ ہیں کہ ان سے اپنی بربادی کا پوچھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا کیوں ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک نہیں کیا گیا کیسے ان کے اثاثے کروڑوں سے کھربوں تک پہنچ گئے اور کیوں ابھی تک ان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار میں شریک نہیں کیا گیا۔ان سوالوں کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں مگر وہ ووٹوں کی گردان مسلسل کیے جا رہے ہیں۔اس وقت جب وہ گلی گلی محلہ محلہ اور علاقہ علاقہ گھوم رہے ہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں تواتر کے ساتھ بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے پندرہ فروری سے گیس کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ کیا جا رہا ہے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف پر امن احتجاج کیا جائے تو پولیس جھپٹ پڑتی ہے ۔جھپٹے تو وہ پی ٹی أئی کے کارکنوں اور امیدواروں پر بھی مارہی ہے اس طرح وہ سہمے ہوئے ہیں کچھ اپنے حلقوں میں بھی نکل رہے ہیں مگر ڈرتے ڈرتے۔ شاید اسی لئے پی پی پی کے انڈر ٹرینگ چئیر مین کہتے ہیں کہ بس اب وہی نون لیگ کے مقابل ہیں کیا کیا سپنے ہیں ان کے ۔ لوگوں کی زندگیاں مشکل ترین بناکربھی ان کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہ رہے ہیں ووٹوں سے اپنے صندوق بھرنے کی خواہش ہے ان کی مگر ایسا نہیں ہونے والا عوام اب انسان دوست سیاسی منظر نامے کو ابھرتا ہو دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ایک جماعت نمایاں ترین ہےمگر ہم یہاں ایک ایسی جماعت کابھی ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو سیاسی میدان میں باضابطہ طور سے پہلی بار اتری ہے اس کا نام ہے پاکستان مرکزی مسلم لیگ ‘ چند روز پہلے اس کے مرکزی ترجمان تابش قیوم نے کاسموپولیٹن کلب میں سینئیر کالم نگاروں سے ایک ملاقات کی جس کا اہتمام لاہور کے جوائنٹ سیکرٹری ریاض احمد احسان نے کیا۔یہ سیاسی جماعت چونکہ نئی ہے لہذا اس کا دعویٰ ہر گز یہ نہیں کہ وہ کوئی پوزیشن حاصل کرے گی مگر اس نے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر کوئی عوامی سیاسی جماعت جو لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے تو وہ مرکزی مسلم لیگ ہے۔اس نے سیاست میں أنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ اس کو اجتماعی فلاحی و رفاہی منصوبوں کے لئے ریاستی اختیارات کی ضرورت ہے جن کے تحت وہ اس فرسودہ نظام حیات کو تبدیل کر سکے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ اختیارات کے بغیر خدمتِ عوام نہیں کرے گی اس نے تو اپنے وسائل کے مطابق محدود پیمانے پر ملک کے طول وعرض میں یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وہ اسے کبھی نہیں روکے گی مگر وہ پچیس کروڑ عوام کی بیک وقت خدمت نہیں کر سکتی لہذا اس کا اقتدار میں آنا لازمی ہے اسی لئےوہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں پورے جوش و جزبے سے حصہ لے رہی ہے۔
ترجمان پاکستان مرکزی مسلم لیگ تابش قیوم نے بتایا کہ ان کی جماعت نے ملک بھر میں سستے تندور لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جہاں دسترخوانوں کی ضرورت ہے وہاں ان کا اہتماام کیا گیا ہے ۔تعلیم سے محروم بچوں کو درسگاہوں تک لے جانے کے باقاعدہ انتظامات کیے گئے ہیں۔گائنی ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔خواتین اور بچوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کیے گئے ہیں۔احترام آدمیت کو ہر ممکن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے بھی ان کی جماعت کوشاں ہے۔ بلڈ بنک قائم کیے گئے ہیں۔ مسلہ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے ان کا مؤقف واضح ہے اور محروم و مجبور طبقات کےلئے مرکزی مسلم لیگ جدوجہد کے راستے پر گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم ایم واحد سیاسی جماعت ہے جس نے انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے ثابت کیا کہ وہ ایک خدمت کرنے والی جماعت ہے خالی خالی وعدوں۔ پر یقین نہیں رکھتی۔انہوں نے اپنا منشور بھی پیش کر دیاہے جس میں معیشت سے لے کر قانون کی حکمرانی تک تفصیل سے بتایا گیا ہے ان کی جماعت اقتدار میں آکر آئی ایم ایف سے غریب عوام کی جان چھڑانے کے لئے ایک پروگرام رکھتی ہے۔ان سے کچھ سوالات بھی کیے گئے جن کے انہوں نے تسلی بخش جوابات دئیے ان کی معاونت ریاض احمد احسان نے کی جو ایک دانشور ہی نہیں ایک خوبصورت شاعر و ادیب بھی ہیں وہ اپنی جماعت کا پروگرام بڑے اطمینان اور فصاحت وبلاغت کے ساتھ
پیش کرتے ہیں وہ ہر سوال کا جواب انتہائی تحمل اور مدبرانہ انداز سے دیتے ہیں وہ محکوم عوام کے لئے اپنے دل میںایک تڑپ رکھتے ہیں جو انہیں ہمیشہ متحرک رکھتی ہے۔
بہرحال اب جب ملک کی چھوٹی بڑی روایتی سیاسی جماعتوں نے عوام کو مایوس کیا ہے تو یہ نئی جماعت امید کی کرن بن کر ابھری ہے اگرچہ پرانی جماعتوں کو یہ جماعت گوارا نہیں ہو گی مگر لوگوں کو اس کی اشد ضرورت ہے روایتی جماعتیں سو چیں کہ وہ دو دو تین تین باریاں لینے کے باوجود لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں کہ مسائل جوں کے توں ہیں غربت کی لکیر گہری ہوتی چلی جا رہی ہے معاشرہ بکھر چکا ہے ۔ آئے روز ان پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے محض آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے جو عوام کے کرب کو کبھی محسوس نہیں کرتا اور اپنی قسطیں وصول کرتا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ نہیں کرنا ہوتا مگر حکمرانوں کو تو اپنے عوام کی حالت زار کو دیکھنا چاہے جو یہ نہیں کرتے ۔لہذا وہ آہیں بھر رہے ہیں اور ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں باریاں لینے کے لئے جوڑ توڑ کر رہی ہیں اور ووٹ لینے کے لئے ہر در پر دستک دے رہی ہیں مگر انہیں عوام کے غم و غصّے کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے
حرف آخر یہ کہ لگ رہا ہے کہ لوگوں کی سوچ ماضی کی سیاست سے اپنا رخ موڑ رہی ہے لہذا سیاسی منظر نامے پر ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی نمود ہو رہی ہے جو چھہتر برس کے مصائب سے سسکتے عوام کو نجات دلانے کی صلاحیت رکھتی ہے !