سزا پر سزا اور ڈیڑھ ارب روپے جرمانہ بھی ……حیدر جاوید سید
سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو 10،10سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ توشہ خانہ کیس میں فیصلہ سنائے جانے سے قبل عمران خان کو ان کی بیرک سے کمرہ عدالت میں لایا گیا وہ حاضری لگوانے کے بعد غصے میں یہ کہتے ہوئے عدالت سے چلے گئے کہ انہیں فیصلے کے لئے نہیں حاضری لگوانے کے لئے عدالت لایا گیا تھا
توشہ خانہ ریفرنس کی اڈیالہ جیل میں سماعت کرنے والی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14،14سال قیدبامشقت اور 1 ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنادی عدالت نے سابق وزیراعظم کو 10سال کےلئے نااہل بھی قرار دے دیا۔
جرمانے کی مجموعی رقم کا نصف نصف عمران خان اور ان کی اہلیہ ادا کریں گے۔ یاد رہے گزشتہ روز سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو 10،10سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ توشہ خانہ کیس میں فیصلہ سنائے جانے سے قبل عمران خان کو ان کی بیرک سے کمرہ عدالت میں لایا گیا وہ حاضری لگوانے کے بعد غصے میں یہ کہتے ہوئے عدالت سے چلے گئے کہ انہیں فیصلے کے لئے نہیں حاضری لگوانے کے لئے عدالت لایا گیا تھا۔
فیصلہ سنائے جانے کے وقت ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی عدالت میں موجود نہیں تھیں اور عمران خان نے بھی اپنی بیرک سے واپس کمرہ عدالت آنے سے انکار کردیا۔ احتساب عدالت کے جج کی ہدایت پر عدالتی اہلکار نے کمرہ عدالت کے باہر متعدد بار عمران خان اور ان کی اہلیہ کا نام عدالت میں حاضری کے لئے بلند آواز میں پکارا تاہم دونوں کی عدم موجودگی میں احتساب عدالت کے جج نے فیصلہ سنادیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ وکیلوں کا فرض تھا کہ وہ ہمیں بتاتے کہ عمران خان کے خلاف قائم مقدمات میں انہیں کس حد تک انصاف مل سکتا ہے لیکن وکیل تو اپنی کمپئین کرتے رہے ۔ اپنی جماعت کے بانی اور سابق وزیراعظم کو اہلیہ سمیت توشہ خانہ کیس میں سزا و نااہلی اور جرمانے پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ فیصلہ خلاف توقع ہرگز نہیں سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔
وکلاء اور سائلان کی عدم موجودگی میں سزا سنائے جانے کا عمل انصاف کا قتل ہے۔ سائفر کیس او توشہ خانہ کیس میں سنائی جانے والی 10 اور 14 سال کی سزائیں اکٹھا شروع ہوں گی یا ایک کے بعد دوسری سزا اس کی وضاحت توشہ خانہ کیس کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر ہی ہوگی۔
بعض مبصرین اور قانونی ماہرین نہ صرف ان سزائوں پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں بلکہ دبی دبی زبان میں ان سزائوں کو 2018ء کے انتخابات سے قبل میاں نوازشریف کے خلاف ’’ایکشن ان عدالت‘‘ کا ری پلے بھی قرار دیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی نے اپنے بانی کو سزائیں سنانے والے ججز کو کمپرومائز ججز اور عدالتوں کو کینگرو کورٹس قرار دیتے ہوئے انہیں عدل و انصاف کے عمل کے لئے خطرہ قرار دیا۔
گزشتہ روز سائفر کیس میں فیصلہ سنائے جانے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام لگایا کہ سائفر وزیراعظم ہائوس میں تھا میرے اے ڈی سی میں سے ایک نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایما پر چوری کیا۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی گزشتہ روز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر سنگین الزامات لگائے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی بدولت اقتدار سے محرومی کے بعد 2022ء میں پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کی چند نشستوں کے ضمنی انتخابات میں اسی جنرل باجوہ کے ایما پر ریاستی ایجنسیوں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے تعاون کیا جبکہ اسی برس ایوان صدر میں جنرل باجوہ سے متعدد ملاقاتوں کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیں۔
اندریں حالات غور طلب امر یہ ہے کہ اگر حالیہ دنوں میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کے سابق آرمی چیف پر سنگین الزامات کو درست مان لیا جائے تو پھر یہ سوال اٹھے گا کہ ایک ایسا شخص جو ان دونوں کے موجودہ حالات کا ذمہ دار ہے سال 2022ء میں اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ پہلے تک تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو اپنے قیمتی مشوروں سے کیوں نوازتا رہا اور تحریک انصاف اس کے مشوروں پر عمل کیوں کرتی رہی؟
جہاں تک گزشتہ روز اور گزشتہ سے پیوستہ روز الگ الگ کیسوں میں عمران خان ، ان کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سنائی گئی سزائوں کا تعلق ہے تو ان سزائوں کے خلاف اپیلوں کے مراحل میں یقیناً وہ اپنے موقف (حالیہ الزاماتی موقف) کے حق میں عدالت کے سامنے ٹھوس شواہد رکھ کر درخواست کریں گے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس اے ڈی سی کو طلب کیا جائے جس نے بقول عمران خان اس وقت کے آرمی چیف باجوہ کے ایما پر وزیراعظم ہائوس سے سائفر چوری کیا۔
اس ضمن میں یہ نکتہ بہرطور اہم ہے کہ سائفر کیس کے آغاز سے عدالتی فیصلے تک عمران خان کا یہی موقف رہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ سائفر کہاں ہے مگر جونہی فیصلہ سنایا گیا انہوں نے اپنے اے ڈی سی صاحبان میں سے ایک جن کا تعلق بری فوج سے ہے پر الزام لگایا کہ اس نے جنرل باجوہ کے ایما پر سائفر چوری کیا۔ یقیناً یہ الزام عمران خان کے عمومی مزاج کے مطابق ہوائوں میں تلوار چلانے جیسا نہیں ہوگا بلکہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت بھی ہوں گے۔
اسی طرح توشہ خانہ کیس میں دی گئی سزائوں پر ان کا اور ان کی جماعت کا ردعمل فطری ہے۔ مگر یہ امر بھی دوچند ہے کہ توشہ خانہ سے تحائف لینے، انہیں فروخت کرنے اور رقم کے ابتدائی استعمال کے حوالے سے ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے بعدازاں انہوں نے سعودی تحائف فروخت کئے جانے کے تنازع پر کہا کہ تنازع کیسا تحفہ میری ملکیت تھا پاس رکھوں یا فروخت کردوں اس سے کسی کا کوئی لینا دینا نہیں۔
اسی کیس میں ان کی اہلیہ پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں قیمتی تحائف بلااندراجِ فروخت گھر لے گئیں۔ توشہ خانہ کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ آنے کے بعد بھی یہ امر واضح ہوگا کہ اس حوالے سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کا کیا موقف رہا یہ بات البتہ مبنی برحقیقت ہے کہ ہر دو شخصیات نے تحائف خریدنے اور لے جانے سے انکار نہیں کیا۔
ریفرنس بھی قوعدوضوابط کی خلاف ورزی پر قائم ہوا۔
عام انتخابات کے انعقاد سے 9 روز قبل سائفر کیس کا فیصلہ اور 8 دن قبل توشہ خانہ کیس کا فیصلہ دونوں کے حوالے سے عمومی رائے کا تذکرہ کئے بغیر یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ ان فیصلوں کو سیاسی حالات اور ضرورتوں سے الگ کرنا دیکھنا اور پیش کرنا مشکل ہوگا۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما حالیہ عدالتی فیصلوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ رہا یہ موقف کہ حالیہ عدالتی فیصلے 2018ء کے ان عدالتی فیصلوں کا ایکشن ری پلے ہیں جو میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کے خلاف آئے تھے تو اس پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مندرجہ بالا رائے رکھنے والے مبصرین سیاسی رہنمائوں اور قانون دانوں کو پھر یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ 2018ء میں "فول پروف” انتظامات کے تحت تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا گیا جو اس کے لئے ضروری تھا۔
گزشتہ دو دنوں میں دو مختلف مقدمات میں سابق وزیراعظم، ان کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ کو سنائی گئی سزاوں کا سیاسی اور عوامی ردعمل کیا ہوگا یہ اگلے چند دنوں میں واضح ہوجائے گا۔
البتہ ہم تحریک انصاف کی قیادت سے یہ درخواست ضرور کریں گے کہ وہ موجودہ حالات میں جوش کی بجائے ہوش سے کام لے اور اپنی عددی قوت کو ووٹ کی پرچی کے ذریعے کام میں لائے تاکہ سیاسی استحکام کی طرف بڑھا جاسکے۔