یہ کہنا ہے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 27 کیچ تھری سے نیشنل پارٹی کے امیدوار سابق ایم پی اے لالہ رشید بلوچ کا جو 21 جنوری کو ایک انتخابی مہم کے دوران قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس میں سے دو گولیاں فرنٹ شیشے پر لگی۔لالہ رشید کے مطابق ’گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو شاید آج میں زندہ نہ ہوتا۔‘لالہ رشید سمیت ضلع کیچ سے انتخابات لڑنے والے سات امیدواروں پر ایک ماہ کے دوران حملے ہو چکے ہیں۔ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد بلوچستان میں انتخابی عمل اور اس سے جڑے لوگ، حکام اور سرکاری عمارات عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔وائس آف جرمنی کی جانب سے جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کے 10 اضلاع میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران امیدواروں، ان کے گھروں، دفاتر، ریلیوں، الیکشن کمیشن کے دفاتر اور پولنگ سٹیشن قرار دیے گئے سکولوں پر کم از کم 42 حملے ہو چکے ہیں۔ان حملوں میں چار سیاسی کارکنوں، ایک نجی محافظ اور ایک پولیس اہلکارکی موت ہوئی جبکہ قومی اسمبلی کے امیدوار سمیت 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔یکم فروری کو صرف ایک دن میں صوبے کے 9 اضلاع میں 15 بم دھماکے ہوئے۔ اگرچہ زیادہ تر دھماکوں کی نوعیت کم شدت کی تھی مگر صوبے کے کئی علاقوں بالخصوص صوبے کے شورش زدہ جنوبی حصوں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات نے انتخابی ماحول اور انتخابی مہم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ بعض علاقوں میں انتخابی گہما گہمی ماند پڑگئی ہے اور امیدوار اپنی مہم محدود کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کے مطابق کوئٹہ میں حکومت نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر بڑے انتخابی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی امیدواروں کو اپنی سرگرمیاں چار دیواری کے اندر تک محدود رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا ’اس بات کا خدشہ ہے کہ تخریب کار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور اس طرح کے چینلز کو مواصلاتی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ خطرے کو کم کرنے کے لیے تربت، مچھ اور چمن سمیت متعدد علاقوں میں انٹرنیٹ سروس تک رسائی کو محدود کر دیا جائے گا۔‘
کیچ سب سے زیادہ متاثر
سب سے زیادہ 11 حملے پاک ایران سرحد سے ملحقہ مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں ہوئے جو عسکریت پسندی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سات امیدواروں، ان کی رہائش گاہوں اور انتخابی دفاتر کے علاوہ الیکشن کمیشن کے دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔کیچ سے تعلق رکھنے والے امیدوار لالہ رشید بلوچ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ضلع میں آئے روز انتخابی مہم اور امیدواروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عسکریت پسند امیدواروں کے گھروں میں دستی بم پھینک رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے دفتر پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔‘ان کے بقول ’نامعلوم افراد دیواروں پر وال چاکنگ کرکے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے منع کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ووٹرز خوفزدہ ہیں اور اس کے ٹرن آؤٹ پر بھی اثرات پڑیں گے۔‘
کونسی جماعتیں نشانے پر ہیں؟
مسلح تنظیموں نے زیادہ تر بلوچ علاقوں میں سرگرم جماعتوں کو نشانہ بنایا ہے تاہم سب سے زیادہ حملے پیپلز پارٹی پر کیے گئے جن کے کئی امیدوار علیحدگی پسند سیاست پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی حملوں کی زد میں ہیں۔صوبے میں اب تک ہونے والا سب سے خونریز حملہ پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر 30 جنوری کو سبی میں کیا گیا جس میں چار کارکن ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم مذہبی عسکریت پسند تنظیم داعش نے قبول کی۔بلوچستان میں سب سے زیادہ 13حملے پیپلز پارٹی کے امیدواروں، رہنماؤں ، ان کی رہائش گاہوں اور انتخابی دفاتر پر کیے گئے جن میں زیادہ تر دستی بم اور کریکر کے تھے۔ ان حملوں میں پیپلز پارٹی کے پی بی 12 کچھی سے امیدوار مولاداد راہیجہ کا محافظ ہلاک جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اصغر رند کے بھائی، امیدوار آغا شکیل درانی کے محافظ سمیت مجموعی طور پر دس افراد زخمی ہوئے۔ضلع کیچ میں پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے تین امیدواروں اصغر رند، ظہور بلیدی اور عبدالرؤف رند کے علاوہ پیپلز پارٹی سے ناراض آزاد امیدوار برکت بلوچ کی رہائش گاہوں پر بھی دستی بم حملے ہوئے۔اصغر رند کے گھر پر دو بار حملے ہوئے ۔ 31 جنوری کو کوئٹہ میں امیدوار جمال رئیسانی اور علی مدد جتک کے انتخابی دفتر اور خضدار میں پی بی 18 کے امیدوار آغا شکیل درانی کے گھر میں قائم انتخابی دفتر پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکے ۔مستونگ میں پی بی 37 کے امیدوار سردار نور احمد بنگلزئی کے انتخابی دفتر، منگچر اور قلات میں پی بی 36 کے نعیم دہوار کے انتخابی دفاتر، خاران میں پی بی 33 کے امیدوار نور الدین نوشیروانی کی رہائشگاہ پر بھی دستی بم سے حملے کیے گئے۔ چار فروری کو سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ این اے 258 کیچ کم پنجگور کے امیدوار صابر بلوچ کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی گئی۔مسلم لیگ ن کے امیدوار اور انتخابی دفاتر پر کیچ، جعفرآباد، کوئٹہ، خاران اور حب میں چھ حملے ہوئے جن میں امیدوار سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔ 10 جنوری کو این اے 258 کیچ کم پنجگور سے ن لیگ کے امیدوار اسلم بلیدی کو کیچ کے علاقے تربت میں نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ یکم فروری کو جعفرآباد کے علاقے ڈیرہ اللہ یار میں پی بی 16 سے خاتون امیدوار راحت فائق جمالی کے انتخابی کیمپ کے قریب کریکر حملے میں تین افراد زخمی ہوئے۔نیشنل پارٹی کے تین امیدواروں اور ایک انتخابی دفتر پر کیچ، پنجگور اور مستونگ میں حملے ہوئے۔ 21 جنوری کو پی بی 27 کے امیدوار لالہ رشید بلوچ کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جبکہ دو فروری کو پی بی 30 پنجگور کے امیدوار رحمت بلوچ کے گھر پر دستی بم سے حملے ہوئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔4فروری کو پنجگور میں پی بی 29 کے امیدوار حاجی اسلام کے گھر پر دستی بم حملے میں ایک شخص زخمی ہوا۔اس سے پہلے 28 جنوری کو مستونگ میں نیشنل پارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملے میں دو افراد زخمی ہوئے۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے قلات کے علاقے منگچر میں انتخابی دفتر پر تین فروری کو، اسی طرح خضدار کے علاقے زہری میں جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) کے مشترکہ دفتر پر یکم فروری کو بم حملہ کیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔دو فروری کو خاران میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی ) کے این 260 چاغی کم واشک کم نوشکی کم خاران کے امیدوار چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے بھائی اعجاز سنجرانی کے دفتر کے قریب سے بم برآمد کرکے ناکارہ بنایا گیا۔اس کے علاوہ چار آزاد امیدواروں کے انتخابی دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 4 فروری کو خاران میں این اے 260 سے آزاد امیدوار سردار چنگیز ساسولی کے دفتر کے قریب یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جن میں ایک شخص زخمی ہوا۔اسی دن خضدار کے علاقے وڈھ میں آزاد امیدوار میر شفیق الرحمان مینگل کے انتخابی دفتر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔دو فروری کو کوئٹہ میں پی بی 45 سے آزاد امیدوار سیلاب خان کے انتخابی دفتر کے قریب دو دستی بم حملے ہوئے جس میں تین افراد زخمی ہوئے۔26 جنوری کو پی بی 27 کیچ سے آزاد امیدوار فدا حکیم رند کے گھر پر دستی بم حملہ اور دو فروری کو گاڑی پر فائرنگ کی گئی تاہم دونوں بار وہ بچ گئے۔اسی طرح پی بی 27 سے آزاد امیدوار زبیدہ جلال کی بہن رحیمہ جلال کے گھر پر بھی دستی بم پھینکا گیا مگر وہ پھٹ نہیں سکا۔ 9 جنوری کو کوئٹہ میں جے یو نظریاتی کے امیدوار قاری مہراللہ کے گھر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے دفاتر اور پولنگ سٹیشنز پر حملے
امیدواروں، ریلیوں اور انتخابی دفاتر کے علاوہ الیکشن کمیشن، ریٹرننگ افسران کے دفاتر، پولنگ سٹیشنز قرار دیے گئے سرکاری سکولوں پر پنجگور، ڈھاڈر، بارکھان، قلات، گوادر، خاران ، نوشکی اور تربت میں کم از کم نو حملے کیے گئے۔25 جنوری کو کیچ کے علاقے تربت میں الیکشن کمیشن کے دفتر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی اور دستی بم پھینکا جس سے دفتر کی حفاظت پر تعینات ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا۔ دو فروری کو خاران میں ڈی آر او کے دفتر کے قریب سے دیسی ساختہ بم ملا جسے ناکارہ بنایا گیا۔
انتخابات سے پہلے پُرتشدد واقعات میں اضافہ
انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ بنائے جانے کے علاوہ جنوری کے پورے مہینے اور فروری کے پہلے ہفتے میں پُرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس دوران ژوب، کوئٹہ، کیچ، پنجگور، آواران، حب، مستونگ، قلات اور خضدار سمیت دیگر علاقوں میں پولیس، لیویز، ایف سی، فوج، سرکاری دفاتر اور املاک پر دو درجن سے زائد چھوٹے بڑے حملے کیے گئے۔مجموعی طور پر ان حملوں میں دو پولیس اہلکار اور سات سکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے جبکہ تین بچوں سمیت کم از کم 17عام شہریوں کی موت ہوئی اور 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اس دوران 32 شدت پسند بھی مارے گئے۔ ان میں سے سات شدت پسند ژوب، ایک آواران اور 24 ضلع کچھی میں مارے گئے۔حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندی کا سب سے ہولناک مظاہرہ بھی اسی ہفتے ضلع کچھی میں دیکھنے کو ملا جب 29 اور 30 جنوری کی درمیانی شب مچھ، کولپور اور گوکرت میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے بیک وقت ایف سی کے کیمپ، ریلوے سٹیشن، پولیس اور لیویز تھانوں سمیت کئی نجی املاک پر حملے کیے۔
دو دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں چار سکیورٹی اہلکاروں اور 12 سویلین کی موت ہوئی۔ فورسز نے جوابی کارروائی میں 24 شدت پسندوں کو مارنے کا دعویٰ کیا۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) کی رپورٹ سے بھی اردو نیوز کے اعدادوشمار کی تائید ہوتی ہے جس میں بتایا گیا کہ 26 جنوری سے دو فروری تک صرف بلوچستان میں 30 پرتشدد حملے ہوئے۔اسی ادارے کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں دسمبر کے مقابلے میں جنوری میں پرتشدد واقعات میں 102 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ملک بھر میں دہشتگردی کے 93 واقعات میں 90 افراد ہلاک اور 135 زخمی ہوئے۔ ملک میں سب سے زیادہ حملے بلوچستان میں ہوئے جہاں 33 حملوں میں 31 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔بلوچستان میں انتخابی سرگرمیوں پر زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد (براس) نے قبول کی ہے جس میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ جیسی بڑی مسلح تنظیمیں شامل ہیں۔ کچھ حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے اس دھڑے نے قبول کی ہے جو براس میں شامل نہیں۔ ان مسلح تنظیموں نے عوام سے انتخابات کے بائیکاٹ پر زور دیتے ہوئے آئندہ بھی انتخابی سرگرمیوں کو ہدف بنانے کی دھمکی دی ہے۔نیشنل پارٹی کے ترجمان نے پارٹی کے رہنماؤں اور انتخابی دفاتر پر حملوں کو برادر کشی اور خانہ جنگی پھیلانے کی منصوبہ بندی کی کوشش قرار دیا ۔ترجمان کا کہنا ہے کہ ’نیشنل پارٹی جمہوری و سیاسی جدوجہد کی علمبردار ہے۔ قوموں کی خودمختاری و جدوجہد میں سیاسی و جمہوری عمل کا بنیادی سیاسی کردار ہوتا ہے لیکن ایک مخصوص سوچ کے لوگ بلوچستان میں سیاسی و جمہوری عمل و جدوجہد کی تحریک کو سبوتاژ کرکے سیاسی و جمہوری عمل و سیاست پر قدغن لگانے کی کوشش میں ہیں۔‘پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی اپنی تنظیم کے دفاتر اور امیدواروں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ ’دہشتگرد عوام کے دشمن ہیں اور وہ سیاسی عمل سے خائف ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ 8 فروری کا الیکشن عوام کے لیے خوشحالی اور امن کے نئے دور کا آغاز ہو گا اور بلوچستان میں دہشتگردوں کے لیے جگہ مزید تنگ ہو جائے گی۔‘
بلوچستان میں انتخابی سرگرمیوں پر حملوں کی تاریخ
بلوچستان میں انتخابات کے دوران سیاسی و قبائلی تنازعات پر جھگڑے ہوتے رہے ہیں تاہم اگست 2006 میں بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کی فوجی آپریشن میں موت کے بعد بلوچستان میں بلوچ شورش کو دوام ملی تو اس کے بعد فروری 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں بلوچ مسلح تنظیموں نے منظم طریقے سے انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ 2013 میں بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے میں شدت دیکھی گئی۔ خضدار، خاران، آواران، واشک، پنجگور اور کیچ میں نواب ثناء اللہ زہری، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، اکبر آسکانی، حاجی اسلام، اسد بلوچ سمیت کئی امیدواروں کے قافلوں، انتخابی دفاتر اور رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اپریل 2013 میں ایک انتخابی مہم کے دوران نواب ثنا اللہ زہری کے قافلے پر ہونے والے بم حملے میں ان کا بیٹا، بھائی اور بھتیجا ہلاک ہوا۔ کیچ میں اکبر آسکانی کے قافلے پر حملے میں ان کے دو محافظ ہلاک ہوئے۔شدت پسندوں نے 11 مئی کے انتخابات سے پہلے مسلسل ایک ہفتے کی پہیہ جام ہڑتال کی کال دی۔ پیٹرول فروخت کرنے والوں کو دھمکیاں دیں۔ ان دھمکیوں کی وجہ سے آواران، خاران، واشک، پنجگور اور کیچ سمیت 12اضلاع میں دس ہزار سے زائد اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی انجام دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد حکومت کو پاک فوج کے دستوں کو تعینات کرنا پڑا۔اس صورتحال میں آواران میں ٹرن آؤٹ دو فیصد اور بلوچ اضلاع میں مجموعی طور پر 25 فیصد سے کم رہا۔ اس کے مقابلے میں صوبے کے پشتون اضلاع میں ٹرن آؤٹ 60 فیصد تک رہا۔ آواران سےعبدالقدوس بزنجو صرف 544 ووٹ لے کر تاریخ میں سب سے کم ووٹ لے کر رکن بلوچستان اسمبلی بنے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں انتخابات سے پہلے کے 3 مہینوں میں (مارچ سے مئی) تک سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور الیکشن سے متعلق اجتماعات، ریلیوں اور انتخابی دفاتر وغیرہ پر 148 حملے کیے گئے۔ ان میں کم ا ز کم 52 حملے قوم پرست مسلح تنظیموں کی جانب سے کیے گئے۔2018 میں انتخابی مہینہ (جولائی ) سب سے خونریز ثابت ہوا جب مستونگ میں انتخابی جلسے اور کوئٹہ میں مشرقی بائی پاس پر پولنگ ڈے پر پولنگ سٹیشن کے باہر صر ف دو خودکش حملوں میں بی اے پی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 185 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات میں 2013 کے مقابلے میں 88 فیصد کمی آئی تھی۔ 2018 کے انتخابات کے دوران مئی سے جولائی تک صرف 18 حملے ہوئے ۔ان میں سے سات حملے بلوچ اور سندھی قوم پرست مسلح گروہوں نے کیے جن کی شدت کم تھی اور ان میں 26 افراد زخمی ہوئے۔محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق 2018 میں 30 پُرتشدد واقعات میں 28 چھوٹے نوعیت کے تھے۔ 2024 میں حملوں کی تعداد زیادہ مگر کم شدت کے ہیں جن میں زیادہ تر میں نقصانات نہیں ہوئے۔مسلح تنظیموں اور شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سکیورٹی تجزیہ کار صفدر سیال کہتے ہیں کہ 2013 میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی بعد میں فوجی عملیات کے ذریعے صورتحال بہتر ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ 2018 کی نسبت اس بار انتخابات کے دوران حملوں میں زیادہ نقصانات نہیں ہوئے اس کی شاید ایک وجہ کالعد م تحریک طالبان پاکستان بھی ہے جو گزشتہ انتخابات میں سرگرم تھی لیکن اس بار اس نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا میں باجوڑ اور وزیرستان میں دو امیدواروں کی ہلاکت اور بلوچستان میں مسلسل حملوں نے انتخابات کے دوران سکیورٹی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔‘صفدر سیال کے مطابق بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے کیے گئے حملوں میں زیادہ تر کم شدت کے تھے تاہم یہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلنے کا سبب بنے ہیں اور اس سے ٹرن آؤٹ پر اثرات پڑ سکتے ہیں جو بلوچ عسکریت پسندوں کا مقصد ہے۔ وہ پارلیمانی عمل کو نہیں مانتے اور پارلیمانی عمل پر اثرانداز ہوکر اس کے بارے میں سوالات اٹھانا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچ مسلح تنظیمیں بلوچ قوم پرست جماعتوں جیسے بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کو بھی اپنے کاز کے خلاف سمجھتی ہیں اس لیے انہیں بھی ہدف بنانے سے نہیں کتراتی۔صفدر سیال کہتے ہیں کہ مچھ میں ہونے والے بڑے حملے کے بعد سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوا ہے اس سے بھی صورتحال پر اثر پڑے گا۔
بلوچستان میں 65 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے
محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق 5028 پولنگ سٹیشنز میں سے 1730 کو انتہائی ترین اور 2337 کو حساس قرار دیا گیا ہے یعنی مجموعی طور پر بلوچستان کے 74 فیصد پولنگ سٹیشنز کی انتہائی حساس یا حساس کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ ایران سے ملحقہ ضلع پنجگور کے تمام کے تمام پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز پر چار پولیس یا لیویز اہلکاروں کے ساتھ ساتھ چار ایف سی اور پاک فوج کے اہلکار بھی تعینات ہوں گے۔ مجموعی طور پر 65 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے گوادر، پنجگور، کیچ اور خاران میں بیلٹ پیپرز فضائی راستے سے پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔نگراں وزیر داخلہ بلوچستان کیپٹن ریٹائرڈ زبیر احمد جمالی نےبتایا کہ انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے حکومت ہرممکن اقدامات کر رہی ہیں۔ لیویز اور پولیس کے علاوہ پیرا ملٹری فورس اور ریگولر آرمی بھی تعینات ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں انتخابات کے دوران دہشتگردی کی تاریخ رہی ہے۔ اس بار بھی دستی بم اور کریکر کے حملے ہوئے ہیں ہم اس قسم کے حملوں کو روکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز دن رات اس میں مصروف ہیں، فورسز کو کامیابیاں بھی ملتی ہیں مگر مختلف وجوہات کی بنا پر فوری طور پر ان کا اعلان نہیں کر سکتے۔‘زبیر جمالی کا کہنا تھا کہ ایپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور پولیس کے ڈی آئی جیز کے ذریعے امیدواروں کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بہت حد تک امیدواروں نے اپنا انتخابی مہم کا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ ان کے پیغام عوام تک پہنچ گئے ہیں۔ اب وہ کوشش کریں جو کچھ دن رہ گئے ہیں اس میں اپنی سرگرمیاں محدود کرکے احتیاط کریں۔ٹرن آؤٹ میں کمی کے خدشے سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’اگر عوام ملک دشمن عناصر کو ناکام کرنا چاہتے ہیں تو ووٹ دینے نکلے اور ٹرن آؤٹ بہتر بنا کر پیغام دیں کہ آپ وطن اور فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘