کاشف مرزاکالمز

پاکستان جسٹس سسٹم میں سٹرکچرل اصلاحات کی اشد ضرورت! ……. کاشف مرزا

نو آبادیاتی نظام سے مراد طاقتور اقوام کا کمزور ممالک پر قبضہ کرکے اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اسے توسیع دینا ہے

ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی سال 2023 کی رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کو قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے والے ممالک میں سب سے نچلے نمبر 139 ممالک میں سے 130ویں نمبر پر رکھا گیا تھا،جبکہ پاکستانی نظام عدل آج بھی برطانوی ہندوستان کے نو آبادیاتی نظام قانون پر مبنی 120 سال سے زائد عرصے سے رائج ہے،ضابطہ فوجداری 1898 اور پینل کوڈ سنہ 1860 کا ہے،یقیننا پاکستان جسٹس سسٹم میں سٹرکچرل اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ نو آبادیاتی نظام سے مراد طاقتور اقوام کا کمزور ممالک پر قبضہ کرکے اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اسے توسیع دینا ہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں اصل مقامی باشندوں پر قابض گروہ اپنے قوانین، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں، جسکا اصل مقصد مقامی باشندوں کا استحصال ہوتا ہے۔دورجدید کے عالمی سیاسی طاقت میں نیانوآبادیاتی نظام زمین پر زبردستی قبضہ کرنے کی بجائے اپنی طاقت بڑھانے کیلیے معاہدےاور اتحاد بناتے ہیں۔نگرانی کے نظام، تجارت اورکارپوریشن کے معاہدے،خفیہ مقاصد کے معاہدے اوردہشتگردی سے نمٹنے کے بہانے اہم مقامات اور ممالک پرقبضے کیے جاتے ہیں۔ 1947 میں ہم آزاد تو ہو گئے لیکن تاحال غلامی کے دور کاوہ نظام عدل وقوانین رائج ہیں، جو برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی کوکچلنےاور7اکتوبر1858کو بہادرشاہ ظفرکو ہندوستان بدرکرکے 1860میں غلام رعایاپرلاگوکیاتھا، تاکہ آئندہ کسی کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہوسکتا۔دور غلامی کی یادگار یعنی انڈین پینل کوڈ کے اس قانون کوتعزیرات پاکستان کانام دیا گیااور یہ ہمارے فوجداری نظام کی سب سے بنیادی اور اہم ترین دستاویز ہے۔ اسکے ایک سال بعد یعنی 1861 میں یہاں پولیس کا ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا۔ اسے پولیس ایکٹ 1861 کہا جاتا ہے اورعملا آج بھی چند ترامیم کے ساتھ یہی قانون ہے۔مجموعہ ضابطہ فوجداری 125 سال پرانا ہے جبکہ دیوانی معاملات ضابطہ دیوانی کے تحت ہیں اور یہ قانون1908 میں بنایا گیا۔یہ محض چندقوانین کا معاملہ نہیں بلکہ دور غلامی کےقوانین کی ایک طویل فہرست ہے جو آج بھی نافذ العمل ہیں۔ پاکستان کے موجودہ قوانین برطانوی Colonial Era کے ہیں۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری 125 سال پرانا (The Code of Criminal Procedure, 1898)ہے۔ 93 سال پرانا سیلز آف گڈز ایکٹ (The Indian Sale of Goods Act, 1930) تاحال زندہ ہے۔سپیسیفک ریلیف ایکٹ (Specific Relief Act, 1877) کو بنے 146 سال ہو گئے ہیں۔سٹیمپ ایکٹ
(The Stamp Act, 1899) کو بنے 125 سال، ٹرانسفر آف پراپرٹی (Transfer of Property Act, 1882) کو بنے 139 سال،ایکسپلوزوز ایکٹ (The Explosives Act, 1884) کی عمر 137 سال، پاسپورٹ ایکٹ 103 سال پرانا(Passport Act, 1920)، پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس Press and Registration of Books Act, 1867)کا قانون 156سال پرانا ہے، ایکٹریسٹی ایکٹ (Electricity Act, 1910) کی عمر 113 سال ہے۔فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ (Fatal Accident Act, 1855) کو بنے 168 سال ہو گئے ہیں۔جنرل کلاز ایکٹ (General Clauses Act, 1897) کو بنے 126 سال کا ہو چکا ہے۔گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ (Guardian and Wards Act, 1890) کو بنے 133سال ہو چکے ہیں۔لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ (Land acquisition Act, 1894) کی عمر 129 سال ہے۔ نگوشییبل انسٹرومنٹ ایکٹ (Negotiable Instruments Act, 1881) کی عمر 142سال ہے۔اوتھ ایکٹ (The Oaths Act, 1873) کی عمر149ہے۔ پارٹیشن ایکٹ (The Partition Act, 1893) کو بنے 130سال ہو چکے۔ پارٹنرشپ ایکٹ(Partnership Act, 1932) کو بنے 91 سال بیت چکے ہیں۔ پنجاب لاز ایکٹ (The Punjab Laws Act, 1872) کی عمر 150سال ہے۔رجسٹریشن ایکٹ (The Registration Act, 1908) کل 115سال پرانا ہے۔یہ وہ امپورٹڈ قوانین ہیں جو انگریزوں نے برصغیر پر لاگو کیے تا کہ وہ اس زمین پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں, اسے لوٹ سکیں جو آج بھی یہاں رائج ہے. ان قوانین میں بس ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔
درست ہے کہ ک سی بھی قانون کو محض اسکے قدیم ہونے کی بنیاد پر رد نہیں کی جا سکتا اگر وہ ایک اچھے قانون کی تعریف پر پورا اترتے ہوں، لیکن نو آبادیاتی دور کے قوانین بارے کوئی رائے قائم کرنے کیلیے ضروری ہے کہ اس سارے سماجی ، سیاسی ، معاشرتی اور تزویراتی پس منظر کو سامنے رکھا جائے جس میں یہ قانون سازی ہوئی، کیونکہ قانون کی دنیا میں جو کچھ ہوا، وہ اس واردات کا ایک محض ایک جزو ہے،اوراس سوچ اور اس فکر کو بھی جان لیا جائے جو اس قانون سازی کی محرک تھی۔برطانوی تسلط نے اس سماج کو،اسکی قدروں، تہذیب،تعلیم،ثقافت،معیشت ونفسیات پر اثرات مرتب کیے۔نو آبادیاتی دور کے قوانین یعنی انڈین پینل کوڈ اورموجودہ تعزیرات پاکستان کی تیاری کے ابتدائی مرحلے کی تیاری ٹامس بے بنگٹن میکالے نامی شخص کے پاس تھی جو برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کی سماجی، تعلیمی، ثقافتی پالیسیزکا فکری معمار بھی تصور کیا جاتا ہے اورجسے ہم لارڈ میکالے کے نام سے جانتے ہیں۔1835کےانگلش ایجوکیشن ایکٹ کے بعد برٹش ہندوستان میں تعلیمی پالیسی کی مبادیات بھی اسی نےطے کی۔ لارڈ میکالے 1833کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، جسے چارٹر ایکٹ بھی کہتے ہیں،کے بعد گورنر جنرل کونسل کا پہلا ممبر برائے قانون بھی مقرر ہوااور 1834 سے 1838 تک سپریم کونسل کا حصہ رہا۔یوں بیک وقت وہ تعلیمی میمورنڈم اورقانون کے معاملات دیکھ رہا تھا۔ اسکے پیش کردہ تعلیمی اور قانونی میمورنڈم دراصل صرف تعلیم سے متعلق نہ تھیں بلکہ وہ ایک مکمل قانونی، سماجی اور تہذیبی پیکج تھا، جبکہ قانون اس مکمل وہمہ جہت پیکج کا صرف ایک پہلو تھا۔ اس نئے سماجی،تعلیمی وقانونی ڈھانچے کامعمارلارڈ میکالے کوئی فکری متوازن ومعتدل شخص نہ تھا بلکہ انتہا پسنداورمتکبرانہ فطرت کاحامل یکطرفہ تھا جسکے بارےکارل مارکس نےاسے تاریخ کا ایک منظم جعل ساز قرار دیتے ہوئے “A syestematic falsifier of History” کے الفاظ استعمال کیے ہیں جولارڈ میکالے کی زھنیت اورمقصدیت کو واضح کرنے کیلیے کافی ہے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے قبل بر صغیر میں نظام عدل کے معاملات کیسے چل رہے تھے؟ ہمارے ہاں بالعموم یہ تاثراورسمجھا جاتا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے قبل نہ تو کوئی قانون وانصاف کیلیے عدالتیں تھیں نہ ہی تحریری قوانین موجود تھے اور نہ ہی انکو بر قرار رکھنے یا نافذ کرنے کا کوئی مستند اور با اختیار ادارہ تھا ۔المیہ یہ کہ ہمارا نام نہاد لنڈے کادانشورہمیشہ تاثر دیتا ہے کہ سلطنت دہلی اورمغلیہ سلطنت میں جہالت، لاقانونیت اور بے آئین بندوبست تھا،لوگ غاروں میں رہتے تھے اورتعلیم ،قانون، نظام اورضابطے سے واقف نہیں تھے اور پھر اچانک تاج برطانیہ نے اپنی آفاقی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اس خطے کے لوگوں کو تہذیب، تمدن، قانون اور انتظامی ڈھانچہ سے متعارف کرایا اور یوں پہلی بار اس خطےکی عوام کوتعلیم وقانون بارے آگاہی و متعارف ہوئی اور یہاں قانون اور ادارے متعارف کرائے گئے۔ جب ہم برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے کے برصغیر کو دیکھتے ہیں اور محققین کے علمی ذخیرے سے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مغلیہ سلطعنت کانظام عدل دنیا کے چند بہترین نظام عدل میں سرفہرست تھا، جو دور حاضر کے بہترین نظام عدل کے مقابلے انتہائی آسان، سستا اور بروقت تھا،اس نظام میں مقامی اورمرکزی سطح پر تحریری قوانین اورقاضی قانونی عدالتیں موجود تھیں اورقانون نافذ کرنے کیلیے مستندوبا اختیار ادارے موجود تھے۔برصغیر کےمسلم حکمرانوں نے ایک ایسا عدالتی نظام وقانونی ڈھانچہ متعارف کرایا جو قریب800 سال تک کامیابی سے کام کرتا رہاجسکے بعدبرطانوی نوآبادیاتی نظام نے اسکی جگہ لے لی۔مغل سلطنت دہلی کا نظام حکومت اور عدل برطانوی نو آبادیاتی نظام قانون سے بہت بہتر، بروقت اور سسستا انصاف دینے کا ضامن تھا۔ مسلم سلطنت میں قانون بھی تھا اورانکے نفاذ کیلیےمستنداوربااختیار ادارے بھی کام کررہے تھے۔شہنشاہ جہانگیر کا عدل جہانگیری آج بھی قانون اورتاریخ کا ایک روشن باب ہے، جسے نو آبادیاتی نظام اور غلامانہ طرز تعلیم و زندگی نے سماج و معاشرے کا طرز فکر ہی بدل دیا۔ ریاست پاکستان کو اب نیا نظام تعلیم وعدل دینے کی ضرورت ہے۔ حقیقی نظام عدل و حکومت رسول اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دیے گئے نظام اسلامک پولیٹیکل سسٹم کے زریعے ہی ممکن ہے،ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان اورقانون شہادت میں بڑے پیمانے پرترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ فوجداری مقدمات اورمتعلقہ عدالت کریمنل مقدمات کا فیصلہ نو ماہ میں کریں جبکہ سول نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ ایک ہر صورت ایک سال میں کیا جائے گا۔اگر متعلقہ عدالت مذکورہ وقت میں مقدمے کا فیصلہ نہیں کرتی تو اس عدالت کا جج متعلقہ ہائی کورٹ کو اسکی وضاحت دے۔اگرہائی کورٹ ماتحت عدلیہ کے جج کے جواب سے مطمئن نہ ہو تو پھر اس جج کے خلاف ہائی کورٹ کو انضباطی کارروائی کرنے کا اختیار ہو۔ جب تک عدم احتساب، عدل کابرطانوی نو آبادیاتی نظام قانون اورامپورٹڈ نظام حکومت موجودہے حکمران چاہے کوئی بھی ہوبہتری اور انصاف محض اک خواب ہی رہے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button