بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں ایک دن کے وقفے کے بعد جمعرات کو دوبارہ ہونے والی طوفانی بارش کے بعد صوبائی حکومت نے ضلع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔
محکمہ تعلیم بلوچستان نے بھی بارشوں کی وجہ سے صوبے بھر میں سکولوں کی تعطیلات میں سات مارچ تک توسیع کر دی۔
حکام کے مطابق گوادر میں تین دنوں کے دوران 245 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے۔ اس کے باعث شہر کا ایک بڑا اور گنجان آباد نشیبی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ شہر میں نظام زندگی بدستور مفلوج ہے۔ بیشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے۔
گوادر سے نومنتخب رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ سینکڑوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ اولڈ ٹاؤن میں چار سے پانچ فٹ پانی تاحال جمع ہے، اس صورتحال کی وجہ سے 10 ہزار سے زائد افراد گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوچکے ہیں۔
ماہی گیر تنظیموں کے مطابق تین سو سے زائد کشتیاں، ان کے انجن اور مچھلیاں پکڑنے والے سینکڑوں جال بھی پانی کی نذر ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق گوادر کے شہری علاقوں کے علاوہ دیہی اور نواحی علاقے پشکان، پلیری، سربندن اور تحصیل جیونی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
کمشنر مکران ڈویژن سعید احمد عمرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گوادر میں منگل 27 فروری کی رات سے بدھ 28 فروری کی صبح تک مسلسل 30 گھنٹوں تک 187 ملی میٹر بارش ہوئی۔ اس کے بعد ایک دن کا وقفہ رہا اور جمعرات کی سہ پہر نیا سپیل آیا جس کے دوران صرف دو گھنٹوں میں 58 ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی۔ اس طرح تین دنوں میں اب تک 245 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جس نے 14 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بارشوں کے پہلے سپیل نے گوادر کے اولڈ ٹاؤن یا پرانی آبادی کہلانے والے گنجان آباد حصے کو بری طرح متاثر کیا تھا اور اس میں تین سے چار فٹ تک پانی جمع ہو چکا تھا۔ ہم وہاں سے ڈی واٹرنگ پمپس کے ذریعے کافی مقدار میں پانی نکال چکے تھے مگر دوبارہ ہونے والی طوفانی بارش نے ہماری کوششوں پر پانی پھیر دیا اور ساری محنت ضائع کر دی۔‘
کمشنر مکران ڈویژن کے مطابق گوادر بندرگاہ سے ملحقہ اولڈ ٹاؤن میں نکاسی آب کا نظام نہیں اور یہ شہر کا سب سے بڑا نشیبی علاقہ ہے، یہاں شہر کے بالائی علاقوں کا پانی آ کر پیالے کی شکل میں جمع ہو جاتا ہے۔ موجودہ بارشوں کے نتیجے میں پرانی آبادی کے تقریباً تمام گلی کوچوں، سڑکوں اور گھروں میں کئی فٹ پانی جمع ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امدادی سرگرمیوں میں ضلعی انتظامیہ، لیویز، پولیس، پی ڈی ایم اے، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، فوج، بحریہ اور دیگر متعلقہ محکموں کی ٹیمیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
سعید احمد عمرانی کے مطابق پانی کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ ڈی واٹرنگ مشینوں اور باؤزر سے پانی نکالا جا رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں ہم نے سڑکوں پر کٹ لگا کر پانی سمندر کی طرف دھکیل دیا ہے۔ 40 ڈی واٹرنگ مشینیں شہر میں کام کر رہی ہیں۔
’سیلابی پانی کے پرانے راستے پر لوگوں نے تجاوزات بھی قائم کر رکھی ہیں جبکہ بعض ترقیاتی منصوبوں میں ہونے والی غلطیوں کے نتیجے میں بھی بارش کے پانی کو سمندر تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ ملا فاضل چوک سمیت مختلف مقامات پر دکانوں کو توڑ کر پانی کا راستہ بنایا۔‘
گوادر کا 90 فیصد علاقہ نکاسی آب کے نظام سے محروم
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک انجینیئر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گوادر شہر کے 90 فیصد علاقے میں سیلابی پانی کی نکاسی کا کوئی نظام موجود نہیں۔ اولڈ ٹاؤن میں صرف 10 کلومیٹر کی تین بائی تین فٹ کی ڈرینج لائن بچھائی گئی ہے۔ فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے باقی کام التوا کا شکار ہے۔‘
سندھ حکومت سے مدد طلب
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل جہانزیب خان کا کہنا تھا کہ ہم نے سندھ حکومت سے بھی مدد مانگ لی ہے۔ ہماری درخواست پر سندھ حکومت نے پانچ بڑے ڈی واٹرنگ پلانٹس فراہم کیے ہیں جو جمعے کو گوادر پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پمپس 10 انچ تک پانی پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس طرح آبادی سے بارشوں کا پانی نکالنے کا عمل تیز ہو جائے گا۔
’پانی نکالنے میں 48 گھنٹے لگ سکتے ہیں‘
کمشنر مکران ڈویژن سعید احمد عمرانی کے مطابق سندھ سے 20 واٹر باؤزر بھی گوادر منگوائے گئے ہیں۔ آبادی سے پانی نکالنے میں ’کم از کم 48 گھنٹے‘ لگ سکتے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق گوادر میں اب تک 150 سے زائد مکانات اور چار دیواریاں گر چکی ہیں۔ کمشنر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چار سے پانچ دنوں تک مسلسل پانی میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے مزید سینکڑوں مکانات گر سکتے ہیں کیونکہ ان کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مکانات رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
سعید احمد عمرانی نے بتایا کہ پرانی آبادی سے دو سو سے زائد افراد کو ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ اپنے رشتے داروں کے ہاں منتقل ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر کے علاوہ جیونی، پشکان اور سربندن سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جیونی میں درجنوں کشتیاں ٹکرانے اور پانی میں ڈوبنے سے تباہ ہو گئی ہیں۔ پشکان کا ایک راستہ کٹا ہوا ہے۔ تاہم پسنی اور اورماڑہ کی صورتحال بہتر ہے۔
بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق حالیہ غیرمعمولی بارشوں کے باعث گوادر میں پیدا ہونےوالی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر ضلع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے نگراں وزیراعلیٰ نے سمری پر دستخط کر دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نگراں وزیراعلٰی علی مردان ڈومکی گوادر سمیت بارش سے متاثرہ تمام علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔
ہزاروں افراد کی نقل مکانی
گوادر سے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی اور ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کا سربندن میں واقع گھر بھی پانی میں ڈوب گیا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے اہلخانہ کو رشتہ داروں کے ہاں منتقل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’گوادر کی صورتحال بہت خراب ہے، شہر کی پرانی آبادی میں ملا فاضل چوک، پرانا ملا بند، ٹی ٹی سی کالونی، بخشی کالونی، تھانہ وارڈ، شادو بند سمیت دیگر علاقے بری طرح متاثر ہیں۔ وہاں گھروں میں تین چار فٹ اور بعض جگہوں پر انسانی قد کے برابر پانی جمع ہے۔‘
’شہر کی پرانی آبادی سے تقریباً ایک ہزار افراد کو ریسکیو کر کے سرکاری عمارتوں میں ٹھہرایا گیا ہے جبکہ مجموعی طور پر 10 ہزار کے لگ بھگ افراد گھر بار چھوڑ کر متاثرہ علاقوں سے اپنے رشتہ داروں اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔‘
گوادر کے رہائشی اور نیشنل پارٹی کے رہنما آدم قادر بخش نے بھی تصدیق کی کہ سات سے 10 ہزار لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اولڈ ٹاؤن کے پرانا ملا بند، گیتی لائن، تھانہ وارڈ، شادو بند اور ٹی ٹی سی کالونی مکمل طور پر خالی ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگوں نے اپنے بچوں اور خواتین کو رشتے داروں کے ہاں منتقل کر دیا ہے جبکہ خود اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے بالٹیوں کے ذریعے پانی نکالنے میں مصروف ہیں۔
آدم قادر بخش کے مطابق لعل بخش وارڈ، مجاہد وارڈ اور سید ظہور شاہ ہاشمی وارڈ کے رہائشیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مشنری منگوا کر جنت بازار سے میرین ڈرائیور تک کھدائی کر کے عارضی نالہ بنایا تاکہ جمع شدہ کئی فٹ پانی سمندر تک پہنچ سکے۔
’راشن ،کمبل اور پیسے نہیں چاہییں، بس گھر سے پانی نکالا جائے‘
گوادر کے اولڈ ٹاؤن کے پانی میں ڈوبے ہوئے علاقے تھانہ وارڈ کی بزرگ بیوہ خاتون ماسی خدا ہیر نے بتایا کہ تین دنوں سے ہمارے گھر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، پانی آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے، ہمسائے کا گھر گر گیا ہے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارا گھر بھی نہ گر جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پورے گھر میں پانی جمع ہے، بیٹھنے تک کی جگہ نہیں، ہم نہ کچھ پکا سکتے ہیں نہ کھا سکتے ہیں، پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں، بچوں کو گود میں اٹھا رکھا ہے۔
ماسی خدا ہیر کا کہنا تھا کہ ہمارے گھروں میں پانی بڑھتا ہی جا رہا ہے ہماری مدد کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’کوئی ٹینکر یا ٹریکٹر لا کر پانی نکالا جائے ورنہ ہم ہم مر جائیں گے۔ ہمیں راشن، کمبل اور پیسے نہیں چاہییں بس ہمارے گھروں سے پانی نکالا جائے۔‘
بند ٹوٹنے سے نقصانات
کمشنر مکران ڈویژن نے بھی بتایا کہ بارشوں کی وجہ سے دیہی علاقوں میں کھیتی باڑی کے لیے باندھے گئے کچے بند بھی ٹوٹ گئے ہیں، ڈیم اوور فلو ہوگئے ہیں اور ان کے سپیل وے سے پانی خارج ہو رہا ہے۔ بعض علاقوں میں پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بھی بھی آبادی کا رخ کیا ہے۔
گوادر کے رہائشی محمد انور کے مطابق گوادر کے دیہی علاقوں نگور، چب کلمتی ، چب ریکانی، ڈگارو وغیرہ میں لوگ بارشوں کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ عارضی بند باندھتے ہیں۔ تاہم طوفانی بارشوں کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر پانی جمع ہو گیا ہے۔ لوگوں نے اپنے گھر بچانے کے لیے بند توڑ دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بند توڑنے کی وجہ سے پانی کے بڑے ریلوں نے دور کٹی، نیا آباد، کلانچی باڑا، شمبے اسماعیل اور فقیر کالونی کے علاقوں کا رخ کر لیا ہے جہاں پہلے سے پانی جمع تھا۔ اس نے وہاں کے رہائشیوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
محکمہ تعلیم نے گوادر میں میٹرک کے پرچے ملتوی کر دیے ہیں جبکہ صوبے بھر کے سکولوں میں سردیوں کی چھٹیوں میں ایک ہفتے کی توسیع کر دی گئی ہیں۔
’ماہی گیر 10 برس پیچھے چلے گئے‘
گوادر میں ماہی گیروں کی تنظیم کے سیکریٹری اطلاعات یونس انور کے مطابق سب سے زیادہ ماہی گیر طبقہ متاثر ہوا ہے۔ ان کی سینکڑوں کشتیاں تباہ ہو گئی ہیں، ان کےانجن اور جال سمندر میں بہہ گئے یا پھر ریت میں دھنس کر ناکارہ ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’لکڑی کی ایک کشتی آٹھ سے 10 لاکھ، فائبر کی کشتی پانچ لاکھ اور اس کا انجن آٹھ نو لاکھ روپے کا ہوتا ہے۔ ماہی گیروں کو ایک کشتی خریدنے کی رقم جمع کرنے میں چھ سے آٹھ برس لگ جاتے ہیں۔ طوفانی بارشوں نے سینکڑوں ماہی گیروں کو دس برس پیچھے دھکیل دیا ہے۔‘
پاکستان فشر فوک فورم گوادر کے جنرل سیکریٹری کے بی بلوچ نے بتایا کہ گوادر سٹی، پشکان، سربندن اور جیونی میں کم از کم تین سو کشتیاں تباہ یا پھر انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ جیونی کے ماہی گیر متاثر ہوئے ہیں جہاں سمندر کنارے کھڑی دو سو کے لگ بھگ کشتیاں تیز ہواؤں کے باعث آپس میں ٹکرانے اور ایک بند ٹوٹنے سے آنے والے ریلے کے نتیجے میں تباہ ہوئی ہیں۔