بلاعنوان۔۔۔۔۔۔۔!!!امجد عثمانی
ایک ورکنگ جرنلسٹ کے طور پر اس" یکطرفہ فتح" کو کیا نام دوں کہ جب جمہوریت" بانجھ" ہوجائے تو پھر مقابلے نہیں "بلا مقابلے" ہی برپا ہوتے ہیں۔
اولیائے کرام کے شہر سے صحافی دوست جناب ندیم شاہین نے سوشل میڈیا پر اطلاع دی کہ جناب شکیل انجم نے ملتان پریس کلب کی تاریخ میں پہلی بار بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔۔۔۔جناب شکیل انجم کو "مبینہ اعزاز "مبارک ہو مگر سوچ رہا ہوں ایک ورکنگ جرنلسٹ کے طور پر اس” یکطرفہ فتح” کو کیا نام دوں کہ جب جمہوریت” بانجھ” ہوجائے تو پھر مقابلے نہیں "بلا مقابلے” ہی برپا ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اس کالم کو بلاعنوان ہی سمجھیں کہ ایک سال پہلے "عروس البلاد” میں بھی ایسا ہی "وقوعہ” ہوا جس پر”کراچی پریس کلب کے عجب جمہوریت پسند” کے عنوان سے "حال دل” کہا تھا۔۔۔۔جنوری دو ہزار تیئس میں لکھا یہ کالم من و عن پیش خدمت ہے۔۔۔خاکسار نے تب بھی عرض کی تھی کہ شہر قائد کے”روایات پسند” پریس کلب میں اس سال کے الیکشن میں ایک "ناپسندیدہ روایت”ابھری ہے….اللہ نہ کرے یہ "فکر”پھلے پھولے کہ اختلاف رائے تو جمہوریت کا "بنیادی نکتہ” ہے…..انگریزی اخبار ڈان نے خبر دی ہے کہ رواں سال کراچی پریس کلب کے سالانہ انتخابات کے لیے پولنگ نہیں ہوگی جب کہ سال دو ہزار تئیس کے لیے” دی ڈیموکریٹس” کے تمام امیدوار "بلا مقابلہ” منتخب ہوگئے ہیں…… کراچی پریس کلب کے مطابق بزنس ریکارڈر سے وابستہ سعید سربازی اور نیوز ون کے شعیب احمد بالترتیب بلامقابلہ صدر اور سیکرٹری منتخب ہو گئے ہیں….
ڈیلی کاوش سے وابستہ مشتاق سہیل نائب صدر، سما نیوز سے منسلک محمد اسلم خان جوائنٹ سیکریٹری اور روزنامہ امت سے وابستہ احتشام سعید قریشی کو خزانچی منتخب کیا گیا ہے….. کلثوم جہاں، فاروق سمیع، رمیز وہرہ، رفیق بشیر، شمس کیریو، ذوالفقار علی راجپر اور ذوالفقار علی واہوچو گورننگ باڈی کے ممبر منتخب ہوگئے ہیں….
ڈان کی رپورٹ کے مطابق تمام ارکان بلا مقابلہ منتخب ہوئے جب کہ تمام مخالف گروپوں نے اپنے کاغذات نامزدگی اس روز واپس لے لیے جس دن پینل کا اعلان ہونا تھا…..کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کراچی پریس کلب کا پورا پینل بلا مقابلہ منتخب ہوا ہے…….سینئر صحافی غازی صلاح الدین کراچی پریس کلب کے آخری صدر تھے جو بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے جب کہ ان کے پورے پینل کو انتخابی عمل سے گزرنا پڑا تھا……..کراچی پریس کلب کی شہرت کئی حوالوں سے ملک کے تمام پریس کلبوں سے اچھی تھی…..اس کا جمہوریت پر واضح موقف،ممبرشپ کی شفافییت اور کیفے ٹیریا کا نظم مثالی سمجھا جاتا تھا…..یادش بخیر…..دو ہزار تین میں روزنامہ خبریں کے شام کے اخبار روزنامہ نیا اخبار کی لانچنگ کے لیے ہمیں بزرگ صحافی جناب خالد چودھری کے ساتھ کراچی جانا ہوا……تو تب ایک دو بار کراچی پریس کلب بھی جانے کا اتفاق ہوا……چودھری صاحب وہاں نیک نام یونین لیڈر جناب احفاظ الرحمان کو ملنے جایا کرتے…….روزنامہ خبریں میں اس وقت جناب شبیر چودھری مرحوم ریڈیڈنٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے…..کیا ہی خوب صورت آدمی تھے…..کہتے ہیں ناں "یار زندہ صحبت باقی”…….کوئی پندرہ سال بعد دو ہزار اٹھارہ میں روزنامہ جہان پاکستان کے اجرا کے لیے جناب معظم فخر کے ساتھ ملتان گئے تو وہاں جناب شبیر چودھری صاحب بھی آئے ہوئے تھے کہ وہ کراچی میں اس اخبار کے ایڈیٹر تھے…..اولیائے کرام کے شہر میں جناب امتیاز گھممن اور جناب اکمل وینس ہمارے میزبان تھے….ہم کوئی ایک ہفتہ ایک ساتھ رہے….پھر چودھری صاحب واپس چلے گئے اور کچھ عرصے بعد اللہ کے حضور پیش ہو گئے…بات ہو رہی تھی کراچی پریس کلب کی…..”وجوہات”کچھ بھی ہوں …..”تاویل” جو بھی گھڑی جائے "بلامقابلہ” کی روایت کوئی "اچھی روایت” نہیں…..پریس کلب ایسے ادارے میں ہی "اختلاف رائے” نہیں ہوگا تو پھر کہاں ہوگا……پریس کلب ہی وہ صحافتی ادارے ہیں جو آمریت میں بھی جمہوریت کی آواز بنے ہیں…… پریس کلب کے الیکشن کو فیسٹیول بھی سمجھا جاتا ہے جہاں دوست سال میں ایک بار ایک ساتھ مل بیٹھتے ہیں…..لاہور ہو یا کراچی پریس کلب….اختلاف رائے کی شاید ہی ایسی خوب صورت جھلک کہیں دیکھنے کو ملے کہ الیکشن ڈے پر سیاسی طور پر ایک دوسرے کے مخالف دوست ایک ساتھ بیٹھے اپنے پینل کا ووٹ بھی مانگتے اور چائے بھی پیتے ہیں….جمہوریت میں مقابلے کی روایت” آمریت شکن روایت” ہے…..”بلامقابلہ” "مقبولیت” کا پیمانہ نہیں بلکہ کسی نہ کسی خوف کے باعث مقابلے سے فرار کا "بہانہ” ہے……کہہ لیں”بلامقابلہ”سیاسی مقابلے کو "مقابلے”میں مارنے کی ایک "سنگین واردات” ہے….یادش بخیر…..لاہور پریس کلب میں بھی ایک مرتبہ "بلامقابلہ”ہوا…..میرے خیال میں یہ دو ہزار سات آٹھ کی بات ہے…..ہم ان دنوں جناب خالد چودھری اور جناب تنویر عباس نقوی کی ادارت میں روزنامہ آج کل کے نیوز روم میں کام کر رہے تھے…..پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر اور جناب نثار عثمانی کے معتمد خاص جناب راجہ اورنگزیب ہمارے چیف رپورٹرتھے….. تب جناب محسن گورایہ ایک بار مقابلہ کرکے جیتے تو دوسری بار "بلامقابلہ” کا خیال سوجھا….ہمارے دفتر نے مشترکہ طور پر عزیز دوست جناب حافظ ظہیر اعوان کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا…..ہمارے امیدوار کی جرنلسٹس گروپ میں فنانس سیکرٹری کی نشست پر ایڈجسٹمنٹ ہو گئی…اس گروپ کے سیاسی طور پر وہ برے ترین دن تھے….گورایہ صاحب اس الیکشن میں پروگریسو گروپ کے صدارتی امیدوار تھے……جرنلسٹس گروپ کو جب کوئی لیڈر نہ ملا تو یار لوگ سیاست سے کوسوں دور جناب اسرار وڑائچ کو حیران کن طور پر سیاست میں گھیسٹ لائے اور وہ جرنلسٹس گروپ کے صدارتی امیدوار قرار پائے…..مجھے اور حافظ ظہیر کو جناب اسرار وڑائچ ایک شام مسجد والے گیٹ کی طرف کسی کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتے نظر آئے…..کہنے لگے ٹھہریں میں ابھی آیا لیکن پھر وہ الیکشن کے کئی ماہ بعد بھی نہ آئے……تھرتھلی مچ گئی کہ جرنلسٹس گروپ کے صدارتی امیدوار کدھر چلے گئے…..پھر پتہ چلا کہ موصوف گورایہ صاحب کے حق میں دستبردار ہوگئے اور وہ "بلا مقابلہ” لاہور پریس کلب کے صدر بن گئے ہیں…..شاید یہ بھی لاہور پریس کلب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کوئی بلامقابلہ صدر ٹھہرا…..صدر کے بغیر الیکشن ایسے ہی ہے جیسے سر کے بغیر دھڑ کی حالت ……بہرکیف ہم نے یہ الیکشن صدر کے بغیر لڑا اور خوب لڑا…..انتخابی مہم کے دوران روزنامہ جنگ کے باہر سے حافظ ظہیر کی گاڑی بھی چوری ہو گئی….ہمارے حریف پروگریسو نے تب ایک ہی نشست پر الیکشن لڑا اور یہ فنانس سیکرٹری کی نشست تھی….کانٹے کا مقابلہ ہوا اور برے ے ترین حالات کے باوجود حافظ صاحب صرف پچاس ساٹھ ووٹوں سے ہارے…..عجب اتفاق ہے اس سال یعنی دو ہزار تئیس کے الیکشن میں پروگریسو کے برے ترین دن تھے اور اسے بھی صدر کے بغیر الیکشن لڑنا پڑا……اب کی بار جرنلسٹس گروپ کے قمرالزمان بھٹی بھی فنانس سیکرٹری کی نشست پر حافظ ظہیر کی طرح ہی خوب لڑے…..وہ بھی پچاس ساٹھ ووٹوں سے ہی ہارے۔۔۔۔ویسے تو پریس کلبوں میں الیکشن کے بعد کوئی "حزب اختتلاف” نہین ہوتی….لیکن علامتی طور پر لاہور پریس کلب میں تب حافظ ظہیر اعوان اور اب قمر بھٹی "اپوزیشن لیڈر” ہیں کہ زوال کے دنوں میں لڑنا ہی کمال ہوتا ہے…..ایسے باکمال لوگ "مرد حر "ہوتے ہیں…..افسوس یہ کہ اچھے وقت میں برے وقت کے”یہ دوست” پیچھے رہ جاتے اور خوشامدی کہنی مار کر آگے بیٹھ جاتے ہیں…..گردش ایام کے سامنے بھی کبھی کوئی ٹھہرا ہے….محسن گورایہ صاحب دو سال لاہور پریس کلب کی صدارت نبھانے کے بعد پی یو جے کے صدارتی امیدوار بنے تو سب مقبولیت دم توڑ گئی اور وہ پہلی دفعہ الیکشن لڑنے والے جناب احسن ضیا سے ہارگئے تھے…
اب کی بار کراچی پریس کلب کے "ڈیموکریٹس” بھی عجب جمہوریت پسند ٹھہرے ہیں کہ انہوں نے جمہوری عمل کا گلا ہی گھونٹ دیا ہے…..کراچی پریس کلب کے سابق صدر اور سنئیر صحافی جناب مظہر عباس نے "بلامقابلہ فتح” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی پریس کلب کے انتخابات نے ہمیشہ صحت مند مقابلے کی فضا کو جنم دیا…..امید ہے کہ یہاں بلامقابلہ منتخب ہونا نئی روایت نہیں بنے گا……..جناب مظہر عباس نے سو فیصد درست فرمایا کہ یہی وہ ” سوچ” ہے جس نے صحافی اداروں اور تنظیموں کو "گہرے زخم” دیے…..پہلے کیا کم گھائو ہیں کہ نئے نشتر چلائے جائیں۔۔۔۔خدارا ادارے بچائیں کہ ادارے نہیں تو کوئی”مہاتما”کچھ بھی نہیں…..!!!!