حافظ شفیق الرحمن

مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا غیر آئینی ، عاقبت نا اندیشانہ اور نا معقول فیصلہ ۔۔۔ عواقب و نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے۔حافظ شفیق الرحمن

ن کا بینک بیلینس ، شہریتیں ، مال ، جائیداد ، اولاد ، رہائش گاہیں ، کارخانے ، بادہ خانے ، ولاز ، ٹاورز ، پلازے اور کمرشل ایپائرز سب یورپ ، عرب امارات ، امریکا اور آسٹریلیا میں ہیں

الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے ذمہ داران کروڑوں ووٹرز کو سڑکوں پر لا کر پاکستان میں انارکی پھیلا کر پاکستان کو معاشی و سیاسی دیوالیہ پن کی کھائی میں دھکیلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کا پاکستان میں ہے کیا ۔۔۔ ان کا بینک بیلینس ، شہریتیں ، مال ، جائیداد ، اولاد ، رہائش گاہیں ، کارخانے ، بادہ خانے ، ولاز ، ٹاورز ، پلازے اور کمرشل ایپائرز سب یورپ ، عرب امارات ، امریکا اور آسٹریلیا میں ہیں۔ ریٹائر ہونے سے ایک ماہ قبل ہی رات کی تاریکی میں وہاں کے لیے عاز پرواز ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں ، ان پاکستان دشمنوں کا انجام بھی رضا شاہ پہلوی ، مارکوس ، پنوشے ، بشپ ایبک ، سکندر میرزا ، اندرا گاندھی ، شیخ مجیب الرحمن ، یحییٰ خان اور بھٹو سے مختلف نہیں ہوگا۔ 1970 ء کے انتخابات کے بعد بھی جنرل یحیٰی خان انگور کے پانی اور جنرل رانی سے سرمستیوں اور خرمستیوں میں بدمست ہو کر عوامی مینڈیٹ کو کچل اور مسل رہا تھا ۔ تب ان طاقتوروں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ بنگالی ووٹرز کو کچل کر رکھ دیں گے کہ یہ ناتے ، دبلے پتلے اور کالے بنگالی ہیں ، یہ ہمارے سامنے کہاں ٹھہر سکیں گے۔ ہم ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیں گے۔ یہ سب ان کی خوش فہمی تھی ، جو وقت اور تاریخ نے اس وقت غلط ثابت کردی ،جب انہیں 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار پھینک کر اپنی شکست کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑے۔
یاد رہے کہ 54 برس بعد آج پھر پاکستانی ووٹرز دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور رہیں گے ۔۔۔ اور ۔۔۔ دھڑن تختہ کردیں گے طاقت کے نشئی بادشاہ گروں کی مسلط کردہ حکومت کا ۔ بھٹو بھی یہی بڑھک مارتا تھا کہ میری یہ کرسی بہت مضبوط ہے ، دھاندلی کے خلاف یہ شور شرابا چار روزہ ہے۔ آخر اسے بھی قومی اتحاد کی قیادت سے مذاکرات کے دوران ان کے 95 فیصد مطالبات ماننا پڑے ۔ مارچ 1977ء کے اوائل میں شروع ہونیوالی تحریک جب اپریل کے تیسرے ہفتے میں داخل ہوئی تو پورے ملک میں ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا ۔۔۔
کل چلے گا ۔۔۔ ہل چلے گا ۔۔۔۔۔۔ بھٹو سر کے بل چلے گا ۔۔۔۔ انجام کار بھٹو کو مذاکرات کرنا پڑے ۔۔۔ حالانکہ اس نے کئی شیروں میں جزوی مارشل لاء بھی لگایا ۔۔۔ لاہور میں فوج مسلم مسجد لوہاری گیٹ پہنچی تو ان کا استقبال اس نعرے نے کیا
سینے پہ گولی کھائیں گے ۔۔۔ اسلامی نظام لائیں گے ۔۔۔ جب فوج ذرا آگے بڑھی تو ایک نعرے نے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ۔۔۔ وہ نعرہ فوج کے لیے زود ہضم نہیں تھا ۔
رب محمد اور رب کعبہ کی قسم ، عوام اپنے ووٹ کی تذلیل اور پامالی پسند نہیں کرتے ۔

اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو دھاندلی کے خلاف عوام کی موجودہ احتجاجی تحریک کی قیادت کرتے ۔
ذرا باطن کی آنکھیں کھولو اور وہ دیکھو ، آج قائد اعظم کی روح اپنے مزار پر انوار سے باہر نکل آئی ہے اور شاہراہ دستور ، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ یہ روحانیات اور پاکستانیات کے محسوسات کی باتیں ہیں ، جنہیں مفادات ، ذاتیات اور بدمعاشیات کے بے در گنبد کے اسیر کبھی سمجھ نہیں سکتے۔ ذاتی مفادات سے کام لینے والے امن دشمن اور وطن دشمن قوتیں اور عناصر ان کا ادراک نہیں کر سکتے اور نہ ہی سمجھ سکتیں۔ چیفس کآ ٹرائیکا پاکستان کی قومی سلامتی کو ذاتی مدت ملازمت کی توسیع کے لیے جعلی میندیٹ والی جبری مسلط کردہ حکومت کو سنی اتحاد کوںسل کی سیٹیں ان کو دے جمہوریت کا قتلام نہ کریں۔ چیفس ٹرائیکا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مدت ملازمت میں توسیع کی ہوس کو گل دسہ ء طاق نسیاں پر رکھ دیں۔ ملک و قوم کی حالت-زار پر رحم کریں۔ شاید انہیں سمجھ آجائے ۔ ان میں سے نہ بننا جن کے بارے قرآن عالی شان کے الفاظ میں یہ کہا گیا کہ
یہ گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں ، اس پر طرہ یہ کہ یہ عقل سے بھی کام نہیں لیتے۔
صنم بکم عمی فھم لا یعقلون

روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہے ہیں۔ تباہی کے ہلاکو خان کی شمشیروں کی جھنکار ملکی سلامتی کے بغداد کی شہر پناہ پر دستک دے رہی ہے اور یہ قومی خزانے کی بندر بانٹ پر غور و خوض کر رہے ہیں۔۔ دیلی کے قلعہ ء معلی میں محمد شاہ رںگیلے ۔۔۔ ہنوز دلی دور است کی راگنی الاپ رہے ہیں۔

فا ا عتبرو یا اولی الابصار

وہ شاخ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
اور نشیمنوں پہ بجلیوں کا کارواں گزر گیا

لنڈن پلان پر زور شور سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یہ عملدرآمد کون کروا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ لنڈن سازش کے ان بزرجمہرو۔ کی سازشوں کو غیرت مند پنجاب ، غیرت مند خیبر پختونخوا ، غیرت مند بلوچستان اور غیرت مند سندھ نے لنڈن ایگریمنٹ کو 8 فروری کی شب دس بجے دفن کردیا ہے۔ خدا را پاکستان کے روشن مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ کرو ۔ قومی مؤقف اور مینڈیٹ کی مخالفت کر کے قائد اعظم کے بقیۃ السیف پاکستان کو بلڈوز کرنے سے باز آجاو ۔ ڈگیوں میں بیٹھ کر گیٹ نمبر 4 کی حاضریاں بھرنے والے ملک و قوم کے دشمن اور اسرائیل ، امریکا اور انڈیا کے گماشتے ہیں۔ یہ مودی اور جوبائیڈن کے ہاتھوں پاکستان کا سودا کرنے کی اپنی سی کوشش کریں گے ۔۔۔ لیکن عوام بیدار اور ان کے جذبے دشمنان -دین و ملت کے خلاف تلوار ہیں۔ وہ انڈیا ، اسرائیل اور امریکا کے خلاف مرشد کریم حضرت آغا شورش کاشمیری کا یہ نعرہ ء رستاخیز لگاتے ہوئے لڑیں گے۔۔۔ آگے بڑھیں گے ۔۔۔ سر بہ کف اور کفن بر دوش ہو کر

میں تو کیا ، میرا سارا مال و منال
میرا گھر بار ، میرے اہل و عیال
میرے ان ولولوں کا جاہ وجلال
میری عمر-رساں کے ماہ و سال
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے

جو عدو بھی اس زمیں پر آئے گا
مار کھائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر کٹائے گا
موت مانگے گا ۔۔۔۔،۔موت ہائے گا
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button