"14 ویں صدر مملکت جناب آصف علی زرداری”…..پیر مشتاق رضوی
پاکستان کی تاریخ میں جناب آصف علی زرداری دوسری بار صدر منتخب ہوئے یہ ان کا یہ بھی تاریخی اعزاز ہے کہ صوبہ سندھ سے منتخب ہونے والے پانچویں صدر ہیں 2008ء میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے صدر مملکت بنے لیکن اب وہ حکمران اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے ہیں
عدالت عالیہ کی طرف سے بانی پیپلز پارٹی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ناانصافی پر مبنی قرار دینے کے ایک ہفتے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے پاکستان کے چودہویں صدر مملکت منتخب ہو گئے.
پاکستان کے صدارتی انتخابات میں الیکٹورل کالج کے کل ممبران 1185ہیں ، 92 نشست خالی پڑی ہیں جبکہ 1093 ووٹرز نے انتخابی عمل کا حصہ بنے 1044ووٹ کاسٹ ہوئےاور 9 ووٹ مسترد ہوئے قومی اسمبلی سے 225 ووٹ جناب آصف علی زرداری کو ملے اور119ووٹ محمود خان اچکزئی نے حاصل کئے ، پنجاب اسمبلی میں 43 ووٹ آصف ذرداری کو ملے اور 18 ووٹ اچکزئی کو ملے ، بلوچستان اسمبلی میں 47 ووٹ آصف ذرداری کو ،جناب اچکزئی اپنے صوبہ بلوچستان سے کوئی ووٹ حاصل نہ کرسکے ، سندھ اسمبلی میں 58 ووٹ آصف ذرداری کو اور 3 ووٹ اچکزئی کو ملے ، خیبر پختونخوا اسمبلی 41 ووٹ اچکزئی کو اور 8 ووٹ ذرداری حاصل کئے ہیں جبکہ فارم 7 کے باضابطہ نتیجہ کے مطابق آصف علی زرداری صاحب 411 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے گزشتہ روز نو منتخب صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے باقاعدہ طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے
پاکستان کی تاریخ میں جناب آصف علی زرداری دوسری بار صدر منتخب ہوئے یہ ان کا یہ بھی تاریخی اعزاز ہے کہ صوبہ سندھ سے منتخب ہونے والے پانچویں صدر ہیں 2008ء میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے صدر مملکت بنے لیکن اب وہ حکمران اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے ہیں عدالتی فیصلے سے "جئے بھٹو "کا نعرہ پاکستان پیپلز پارٹی کا عملی نظریہ بن چکا ہے اور جناب آصف علی زرداری کی دوسری بار صدر منتخب ہونے سے پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کی ضامن پارٹی بن چکی ہے عدالتی فیصلہ صدر زرداری کے ریفرنس کے نتیجے میں تقریبا 11 سال بعد کی آئینی جدوجہد کے بعد آیا اور دوبارہ صدر بننا جناب آصف زرداری کی کہ دوسری بڑی سیاسی فتح اور سیاسی کامیابی ہے قوم کو یہ توقع ہے کہ ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی ہوگی ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام بھی آئے گا اور ملک کو درپیش معاشی بحرانوں سے نجات ملے گی صدر آصف علی زرداری مفاہمت کے علمبردار سیاستدان ہیں تجربہ کار اور سینیئر پارلیمنٹیرین بھی ہیں وہ غیر یقینی صورتحال اور ایمر جنسی حالات میں نہ صرف پارٹی کو سنبھالنے کا تجربہ رکھتے ہیں بلکہ حکومت کو چلانے کا بھی خاصہ تجربہ رکھتے ہیں سیاست کے خار زار میں وہ ایسے ناخدا کی حیثیت رکھتے ہیں جو منجدھار میں قوم کی ناؤ کو بخوبی اور بحفاظت ساحل پر لنگرانداز کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اسی لئے جناب آصف علی زرداری کو سیاست کا "مرد حر” بھی کہا جاتا ہے جناب آصف زرداری کی قسمت کا ستارہ اس وقت چمکا جب 1987ء میں ملک کے طاقتور بھٹو خاندان کی بیٹی بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی۔آصف زرداری بھٹو خاندان سے وابستہ ہوئے تو جہاں طاقت کے ایوانوں تک رسائی ہوئی وہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنے۔
1990ء میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر ماحولیات اورسرمایہ کاری کے وزیر بنے، 1990ء میں مالی خورد برد کے الزام میں جیل جانا پڑا، 1993ء میں رہا ہوئے، تاہم آصف زرداری نے 90ءکی دہائی کا بیشتر حصہ جیل میں گزارا، 1997ء میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن کبھی ایوان توکبھی جیل رہے، آصف زرداری 2004ء تک گیارہ سال سے زائد قیدو بند کی صعوبتوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا
جناب اصف علی زرداری نے 2007ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2008ءمیں صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہوئے۔2013ء انتخابات میں ناکامی پر آصف زرداری کبھی بیرون ملک تو کبھی پاکستان میں رہے۔
جناب آصف زرداری 2019ء میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہوئے اور دسمبر 2019ء میں انہیں ضمانت پر جیل سے رہا کیا گیا۔جناب آصف زرداری نے پی ڈی ایم حکومت کے قیام میں کردار ادا کیا، اور عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد لانا بھی ان کی ایک بڑی سیاسی کامیابی تھی 2024ء کے انتخابات کے بعد آصف زرداری نے صدر مملکت کیلئے حکومتی اتحاد کے متفقہ امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر دوسری بار صدر بنے
صدر زرداری نے اپنے گزشتہ دور صدارت میں اپنے تمام تر اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے اور اٹھارویں ترمیم پارلیمانی تاریخ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کیونکہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی دستی اور سول حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں جناب اصف زرداری کو اس سے قبل 58(2B) جیسے پارلیمانی ہتھیار صدر مملکت کو حاصل تھے انہوں نے ائینی ہتھیاروں سے خود کو طاقتور صدر بنانے کی بجائے پارلیمنٹ اور عوام کو طاقتور بنایا اب جب کہ صدر مملکت کو ریاست کا سربراہ سمجھا جاتا ہے اور صدر مملکت کو وفاق کی علامت اور ریاست کا آئینی سربراہ سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ پاک افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں صدر مملکت جناب اصف زرداری گو کہ سابقہ اختیارت کا منبع اور مرکز نہیں رہے لیکن اپنی صلاحیتوں اور مفاہمتی پالیسی کی بدولت زیادہ باثر صدر مملکت ثابت ہوں گے انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں نشیب و فراز اور بڑے انقلابات زمانہ دیکھے ہیں قید و بند کی مشکلات ان کی سیاسی سفر میں کبھی آڑے نہ ائیں بڑے تحمل مزاجی او سیاسی تدبر کے ساتھ سیاست میں اگے بڑھتے رہے ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ جن حکمرانوں نے ان پر مقدمات بنائے اور برسوں تک جیل میں رکھا آج ان کے حریف بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے صدر زرداری کی سیاسی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے اور میاں شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے ہیں میاں محمد نواز شریف کی سیاسی بقاء میں بھی جناب زرداری کا بڑا ہاتھ ہے مرد حر آصف زرداری نے آمریت کو بھی متعدد بار للکارا اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی ٹکر لی ان کا سیاسی بیانیہ بڑی شہرت رکھتا ہے کہ” آپ نے تین سال کے لیے رہنا ہے اور ہم نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے”
دوسری بار صدارت منتخب ہونے کے درپیش ملکی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے کے تدبر اور موثرحکمت عملی کی توقعات وابستہ ہیں مبصرین کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں اکثر و بیشتر وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے اسی کا صدر بھی منتخب ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں جب بھی وفاقی حکومت اور صدرِ پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو صدر نے اسمبلی توڑ کر حکومت کو گھر بھیجا۔ لیکن اس بار صدر کے پاس آرٹیکل 58.2B کے اختیارات نہیں ہیں۔ اس لیے حکومت گھر تو نہیں بھیجی جا سکتی مگر اپوزیشن اور سابق صدر علوی کے درمیان اختلافات ہوں تو صدر آئینی بحران ضرور پیدا کر سکتاتھا لیکن صدر مملکت جناب آصف زرداری اپنی مفاہمتی پالیسی کی بدولت نہ صرف حکمران اتحاد کو بلکہ اپوزیشن کو بھی ساتھ ملا کر چلیں گے یہی وجہ ہے کہ نو منتخب صدر کے لیے موجودہ حکومتی اتحاد کو اختلافات سے بچا کر چلنا ایک بڑا چیلنج ہے۔جبکہ موجودہ سیاسی کشیدگی کو کم کرنا، معاشی حالات بہتر کرنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ایسے چیلنجز ہیں جن کے لیے دونوں بڑی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور ایوانِ صدر کے سابق ترجمان فرحت اللہ بار کہتے ہیں کہ” وفاق میں ایک پارٹی کی حکومت ہے اور صدر پاکستان کا تعلق دوسری پارٹی سے ہے۔ اس مرتبہ یہ ایک نیا سیاسی تجربہ ہے مگر موجودہ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی حکومت کا انحصار پیپلز پارٹی پر ہے وفاقی حکومت اور صوبہ حکومت کی پائیداری کا انحصار بھی صدر مملکت جناب آصف علی زرداری پر ہے مسلم لیگ (ن) کو چوتھی بار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور مسلم لیگ قیادت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ اسے کسی بھی موڑ پر سیاسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے جبکہ سندھ میں اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتیں ہیں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور کے پی کے میں پی ٹی ائی برسر اقتدار ہے سب کو ساتھ ملا کر چلنا اور ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی استحکام حکمران اتحاد کے لیے سب سے بڑی چیلنجز ہیں اس سلسلے "پاکستان کھپے ” پر یقین رکھنے والے جناب آصف زرداری کا صدر مملکت بننا خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے .