بدھ 13 مارچ کا دن پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کئی استعارے لایا۔
جاتے موسم سرما کی بارش نے جہاں ہلکی خنکی کی لہر کو دوبارہ اس سرسبز شہر کی طرف لوٹایا وہیں اس روز کی ایک بڑی سیاسی پیش رفت خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور پاکستان تحریک انصاف کے ہارڈ لائن رہنما علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی تھی جسے مبصرین سیاسی گرما گرمی میں معاملہ فہمی کا پہلا قطرہ قرار دے رہے ہیں۔
ایک صوبے کے وزیراعلٰی کی وزیراعظم سے ملاقات ایک طرف، ملک کی دو متحارب جماعتوں کے مابین مثبت پیش رفت کی ایک اہم علامت اس ملاقات کے بعد علی امین گنڈا پور اور مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما احسن اقبال کی میڈیا سے مشترکہ گفتگو تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے مل کر آگے بڑھنے کے بارے میں بات کی۔
حیران کن طور پر علی امین گنڈاپور جو محض ایک ہفتہ قبل شہباز شریف کو ’مینڈیٹ چور وزیراعظم‘ قرار دے رہے تھے، انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کریں گے جو ان کے لیے پورا کرنا مشکل ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم وفاق سے ایسی کوئی مانگ نہیں کریں گے جو ممکن نہ ہو۔ ہمیں ملکی حالات کا احساس ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ دھوکہ نہیں دیں گے، جھوٹ نہیں بولیں گے۔‘
علی امین گنڈاپور نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’وزیراعظم سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط سے متعلق بات چیت بھی ہوئی۔ اس خط کا یہ مقصد نہیں تھا کہ آئی ایم ایف پیسے نہ دے۔‘
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ’میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی وزیراعظم سے ملاقات کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یقین دلایا ہے کہ خیبرپختونخوا کے واجبات وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ آئی ایم ایف سے بات چیت کے بعد اس کے لیے باقاعدہ میٹنگ ہو گی۔‘
بعد ازاں وزیراعظم ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں کیا کہ ’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس آمد پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ چاروں صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں۔ چاروں صوبے مل کر چلیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔‘
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب سیاسی طور پر ایک دوسرے کی شدید ترین مخالف جماعتوں کی حکومتوں کے درمیان خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری کی تعیناتی کے معاملے پر بھی ایک تنازع چل رہا ہے۔
بعد میں وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ حکومت کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ صوبوں اور اپوزیشن کے ساتھ مثبت طور پر آگے بڑھیں گے، مل جل کر چلیں گے اور ملک کو نئی بلندیوں پر لے کر جائیں گے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے مرکزی رہنما بیرسٹر گوہر نے بھی اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی جماعت کو عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
ان سیاسی تبدیلیوں کے بعد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی حکومت چلانے کے لیے حکومت کے ساتھ مثبت پیش رفت پر آمادہ لگتی ہے۔
سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کو وزیراعلٰی بن کر اندازہ ہو گیا ہے کہ ’حکومت سے لڑ کر حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔‘
ان کے خیال میں علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم سے ملاقات کا مقصد صوبے کے رکے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا تھا تاکہ وفاق کو واجبات کی ادائیگی، سرکاری افسران کی تعیناتی اور اسی نوع کے دیگر اقدامات اٹھانے پر قائل کیا جا سکے۔
تاہم مجیب الرحمان شامی کے مطابق یہ ملاقات مفاہمت کا بامعنی آغاز نہیں ہے۔
’صورتحال تاحال بہت مبہم ہے۔ حکومت واضح ہے کہ انہوں نے آگے کیسے بڑھنا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف یہ فیصلہ کر پا رہی ہے کہ انہوں نے اسمبلیوں کے اندر اور نظام کا حصہ بن کر زیادہ طاقت حاصل کرنی ہے یا سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرنی ہیں۔
ڈان ٹی وی کے سیاسی ٹاک شو کی میزبان نادیہ نقی کے خیال میں علی امین گنڈاپور کی یہ ملاقات ان کے اس احساس کا نتیجہ ہے کہ ’پاکستان میں سولو فلائٹ لے کر کوئی حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف الیکشن کمیشن میں ایک معاملہ کھول دیا گیا ہے جس سے ان کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ دوسری طرف ان پر نو مئی کے مقدمات بھی ہیں، لہٰذا یہ ملاقات ان کی ذاتی حیثیت اور خیبر پختونخوا حکومت چلانے کے لیے وفاق کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے میں ایک پیش رفت ہے۔ تاہم اس کو پی ٹی آئی کی طرف سے مکمل مفاہمت کا اشارہ سمجھنا ابھی قبل از وقت ہے۔
نادیہ نقی کہتی ہیں کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت سے مفاہمت کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس سے عمران خان کے لیے کیا حاصل کیا جاتا ہے اور جب تک عمران خان کی رہائی پر پیش رفت نہیں ہوتی، ایسی کسی بھی مفاہمت کے اشارے بے معنی ہی رہیں گے۔‘
انہوں نے کہا ’عمران خان نے اپنی حکمت عملی سے مقتدرہ اور اس کی حامی جماعتوں کے تمام اندازے غلط ثابت کیے ہیں اور اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ پیچھے ہٹیں اور ان کے سامنے جھکیں۔‘
’عمران خان آرام سے جیل میں بیٹھے ہیں اور رہائی کی بھیک نہیں مانگ رہے۔ آئی ایم ایف کی ڈیل کے نتیجے میں آنے والی مہنگائی کے بعد حالات مزید ان کے حق میں ہو جائیں گے اور اگر اس وقت وہ احتجاج کرتے ہیں تو ان کی مقبولیت مزید بڑھے گی۔ لہٰذا کوئی بھی مفاہمانہ کوشش عمران خان کے مستقبل کے گرد گھومتی ہے۔‘
تجزیہ کاروں کی رائے اپنی جگہ مگر بدھ کے روز افطار سے ذرا پہلے ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے اراکین کا رویہ کچھ نرم تھا۔ انہوں نے اسمبلی میں احتجاج ضرور کیا لیکن وہ نعرے بازی موجود نہیں تھی جو آغاز میں نظر آئی تھی۔
نامزد اپوزیشن لیڈر عمر ایوب بھی اپنی تقریر کے بعد گیٹ پر روکے جانے کے معاملے کی تحقیق پر ڈپٹی سپیکر سے آمادہ بر تعاون نظر آئے۔