ششی کپور، جن کا فن ہی اُن کا دوسرا جنم ہے
کپور خاندان کا رُکن ہونے کی وجہ سے کھیلنے کودنے کے دنوں میں بھی سٹوڈیوز میں بیٹھا کرتے مگر سنہ 1965 ان کے جیون کے پنوں میں ہمیشہ یادگار رہے گا جب ان کی دو فلمیں باکس آفس پر بلاک بسٹر رہیں۔ ان میں ایک تقسیم سے قبل لاہور کے ہی یش چوپڑہ کی مسالہ فلم ’وقت‘ اور دوسری سورج پرکاش کی رومانوی میوزیکل فلم ’جب جب پھول کھلے‘ تھیں۔
وہ ہزاروں دلوں کی دھڑکن تھے۔ الہڑ مٹیاریں ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب رہا کرتیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ کپور خاندان کے وجیہہ ترین مردوں میں سے ایک تھے اور بالی وڈ کے فنکاروں کی دوسری نسل میں انہوں نے وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوا۔
کپور خاندان کا رُکن ہونے کی وجہ سے کھیلنے کودنے کے دنوں میں بھی سٹوڈیوز میں بیٹھا کرتے مگر سنہ 1965 ان کے جیون کے پنوں میں ہمیشہ یادگار رہے گا جب ان کی دو فلمیں باکس آفس پر بلاک بسٹر رہیں۔ ان میں ایک تقسیم سے قبل لاہور کے ہی یش چوپڑہ کی مسالہ فلم ’وقت‘ اور دوسری سورج پرکاش کی رومانوی میوزیکل فلم ’جب جب پھول کھلے‘ تھیں۔
ان فلموں نے اس نوجوان پنجابی اداکار کی شہرت کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔
یہ نہیں ہے کہ انہوں نے ناکامیوں کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اس سے قبل عظیم ہدایت کار بمل رائے کی فلم ’پریم پترا‘، کنک مشرا کی فلم ’یہ دل کس کو دوں‘ اور ایس خلیل کی فلم ’بے نظیر‘ میں اداکاری کی تھی مگر یہ فلمیں باکس آفس پر کوئی خاص تاثر نہ چھوڑ سکیں۔
یہ کہانی کپور خاندان کے البیلے اداکار ششی کپور کی ہے، جن کا نام پیدائش کے وقت بلبیر راج رکھا گیا جو ان کی والدہ کو پسند نہیں آیا اور انہوں نے اپنے اس سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کو ششی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا جس کا مطلب ’چاند کی کرن‘ ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ ششی کپور کو بچپن سے ’چندا ماموں‘ کی طرف دیکھنا پسند تھا۔
پرتھوی راج کپور اور رام سرنی کپور کے گھر آج ہی کے دن 18 مارچ 1938 کو بالی وڈ کے عہد ساز فنکار ششی کپور کا کلکتہ میں جنم ہوا۔ اس عہد ساز شہر کا ان کی زندگی میں اہم کردار رہا۔
بات بلبیر راج کے ششی کپور بننے کی ہو رہی تھی۔ کپور خاندان میں لفظ ’راج‘ مختلف تبدیلیوں کے ساتھ رکھنے کی ایک مضبوط روایت رہی تھی جس کا مطلب ’بادشاہت یا حکومت کرنے‘ کے ہیں۔
ششی کپور کے ہم عصر فنکاروں میں یوں تو بہت سے نام تھے مگر راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کے ساتھ ان کا نام بھی بالی وڈ کی دوسری نسل کے سپرسٹارز کی فہرست میں نمایاں تھا۔ آپ یوں کہہ لیجیے کہ یہ تینوں اداکار بالی وڈ کے اداکاروں کی پہلی نسل کے راج کپور، دیوآنند اور دلیپ کمار تھے۔
کپور خاندان کے پنجابی ہونے پر سوال کیا جا سکتا ہے کیوںکہ اس خاندان کی آبائی حویلی آج بھی پشاور میں موجود ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خاندان فیصل آباد کے نواحی قصبے سمندری سے تھا۔
بات ششی کپور کے پنجابی ہونے کی ہو رہی ہے تو ان کے ہم عصر راجیش کھنہ کے پنجابی ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ ان دونوں کے جیون میں ایک اور مماثلت بھی تھی۔ دونوں کی محبت کا انجام دردناک ہوا۔ راجیش کھنہ اس وقت 31 برس کے تھے جب انہوں نے اپنے سے 16 سال کم عمر ڈمپل کپاڈیہ سے مارچ 1973 میں شادی کر لی۔ اس وقت تک اداکارہ کی ڈیبیو فلم ’بوبی‘ بھی ریلیز نہیں ہوئی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلم راج کپور بنا رہے تھے۔ دوسری جانب راجیش کھنہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن چکے تھے۔
یہ شادی 10 برس بھی پورے نہ کر سکی۔ ان دونوں کی بیٹیوں ٹوینکل اور رنکی نے بھی بالی وڈ میں قدم رکھا۔ راجیش اور ڈمپل میں علیحدگی تو ہو گئی مگر بات طلاق تک نہیں پہنچی۔ اس پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے: اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔
ششی کپور کی شخصیت میں موجود ٹھہراؤ اور فطری متانت ہی تھی کہ وہ تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی پہلی اور آخری محبت کو پانے میں کامیاب رہے۔ ششی جو اپنے عہد کے خوبرو ترین اداکار تھے، ان کی شادی کی خبر پر بہت سے دل ٹوٹے کیونکہ برطانیہ کی حسین و جمیل تھیٹر اداکارہ جنیفر کینڈل نے کلکتہ میں ان کا دل چرا لیا تھا۔
یہ بالی وڈ کی ایک ایسی پریم کہانی ہے جس پر آج بھی بات ہوتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ کسی کامیاب رومانی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے۔ راجیش کھنہ کی ناکام محبت اگر ’ٹریجیڈی‘ تھی تو جنیفر، ششی کپور کی ہر سانس اور دل کی ہر دھڑکن میں بسی ہوئی تھیں اور یہ پریم کتھا جنیفر کی بے وقت موت کے ساتھ ہی ختم ہوئی۔
جینیفر کینڈل کی بہن فلیسٹی کی آپ بیتی ’وائٹ کارگو‘ کے مطابق دونوں کے درمیان ممبئی کے رائل اوپیرا ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھی اور یہیں سے ان کی محبت کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ششی، جنیفر کو بیک سٹیج کی جانب لے گئے اور نہ جانے ان میں جنم جنم کی کیا باتیں ہوئیں کہ اگلے دن کی سہ پہر تک دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے۔
وہ پریم کہانی ہی کیا جس میں ولن نہ ہو۔ اس کہانی کے ولن جینیفر کے والد تھے جو ان کے تعلقات کے خلاف تھے۔ دونوں ہر رکاوٹ کے باوجود ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے۔ اسیم چھابڑا نے ششی کپور کی سوانح عمری ’ششی کپور: دی ہاؤس ہولڈ، دی سٹار‘ میں لکھا کہ بہت زیادہ جدوجہد، مایوسیوں اور ناکامی کے بعد ششی نے بالآخر اپنے بڑے بھائی راج کپور سے مدد کے لیے کہا۔
راج کپور کے لیے اپنے چھوٹے 20 سال کے نٹ کھٹ سے بھائی کی اس معصومانہ خواہش کو رد کرنا آسان نہیں تھا۔ ان کی بیوی گیتا بالی نے جنیفر سے پہلی فرصت میں ملاقات کی اور تحفتاً دوپٹہ پیش کیا۔ گیتا بالی کی کوششیں رنگ لائیں اور جولائی 1958 میں ششی کپور نے اپنے سے عمر میں پانچ سال بڑی جنیفر کینڈل سے شادی کر لی۔ دونوں کے دو بیٹے کرن، کنال اور ایک بیٹی سنجنا ہوئی۔ اس پریم کہانی کا انجام ایک ایسے المیے پر ہوا جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
دونوں کی اس پریم کہانی پر مزید بات کرنے سے قبل کچھ ذکر ممبئی کے پرتھوی تھیٹر کا ہو جائے۔ اس تھیٹر نے آنے والے برسوں میں انڈین فلم انڈسٹری کے لیے نئے آنے والے اداکاروں کے لیے نرسری کا کردار ادا کیا اور اب بھی کر رہی ہے مگر اس تھیٹر کے بنائے جانے کی کہانی اس جنون کا بیان ہے جو نہ ہوتا تو انڈیا میں تھیٹر کی اس عظیم روایت کو فروغ حاصل نہ ہو پاتا۔
اسیم چھابڑا کے مطابق ’راج کپور، ششی کپور کو ’ٹیکسی‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس لفظ کا استعمال اس لیے کیا کیوںکہ وہ ششی سے فلم ’ستیم، شیوم، سندرم‘ کے لیے وقت لینے کے لیے بے چینی سے ان کے منتظر تھے اور وہ جب بھی ان سے رابطہ کرتے تو وہ ایک فلم سے دوسری فلم کی شوٹنگ پر جا رہے ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں ان دنوں وہ ہمہ وقت سڑکوں پر اپنی گاڑی ہی دوڑا رہے ہوتے جو ایک طرح سے ان کا مستقل پتہ بن گئی تھی۔‘
سنہ 1978 ششی کپور کے لیے بہت اہم تھا۔ فلم ’ستیم، شیوم، سندرم‘ اسی برس ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے راج کپور کے چھوٹے بھائی کا کردار ادا کیا۔
سوال مگر یہ ہے کہ ششی کپور کو ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ ہر فلم کرنے پر تیار ہو جاتے؟
اس سوال کا جواب دیپا گہلوٹ کی کتاب ’پرتھوی والاز‘ سے مل جاتا ہے جس کے مطابق سنہ 1972 میں ممبئی کے علاقے جوہو میں ان دو پلاٹوں کی لیز ختم ہو گئی جن پر آنجہانی پرتھوی راج کپور نے اپنا تھیٹر تعمیر کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس برس ہی پرتھوی راج کپور چل بسے۔
دو برس بعد ششی کپور نے سنہ 1974 میں دونوں پلاٹ واپس خریدے اور شری پرتھوی راج کپور میموریل ٹرسٹ قائم کیا۔ جنیفر کینڈل نے اس حوالے سے لندن میں مقیم اپنی بہن فیلیسٹی کینڈل کو خط لکھا کہ ’ششی پاگل ہو گیا ہے۔ وہ تھیٹر بنانا چاہتا ہے۔‘
بات کچھ یوں ہے کہ ششی کپور پرتھوی تھیٹر بنا کر اپنے باپ کا خواب پورا کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے اس دور میں بھی بیش بہا سرمائے کی ضرورت تھی اور ششی کپور کی آمدن کا ذریعہ فلموں کے علاوہ کوئی دوسرا تو تھا نہیں۔ چناںچہ انہوں نے ہر فلم میں کام کرنے کی حامی بھرنا شروع کر دی اور یوں اپنے اس جنون اور اپنے باپ کے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے سنہ 1978 میں ممبئی میں جنیفر کے ساتھ مل کر پرتھوی تھیٹر شروع کیا۔
سنہ 1974 میں ریلیز ہونے والی ’چور مچائے شور‘ کے بعد اداکار نے بہت سی کامیاب فلمیں دیں جن میں ’روٹی کپڑا اور مکان‘، ’دیوار‘، ’چوری میرا کام‘، ’کبھی کبھی‘، ’فقیرا‘، ’ترشول‘، ’سہاگ‘، ’کرانتی‘ اور ’نمک ہلال‘ شامل ہیں۔
ششی کپور نے سنہ1981 میں بطور پروڈیوسر اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور شیام بینیگل، اپرنا سین اور گووند نہلانی جیسے مہان ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ ’جنون‘، ’کلیوگ‘، ’36 کورنگی لین‘ اور ’وجیتا‘ جیسی فلموں نے بالی وڈ کے متوازی سینما کی روایت کو ایک نئے آہنگ سے متعارف کروایا۔
’جنون‘ میں ششی کے ساتھ جنیفر کے علاوہ ان کے بچوں کرن، کنال اور سنجنا نے بھی کام کیا۔ اس فلم میں جنیفر نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور ثابت کر دیا کہ وہ ایک بڑی اداکارہ ہیں۔
گووند نہلانی کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’وجیتا‘ اور گریش کرناڈ کی ’اتسوو‘ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ ششی کپور ایک ورسٹائل اداکار تھے جن کی پروڈیوس کی گئی فلمیں ہی ہمیشہ کے لیے ان کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ ان فلموں میں اپنے فن کی معراج پر نظر آتے ہیں۔
ششی کپور کے فلمی سفر پر مزید بات کرنے سے قبل ششی کی حقیقی زندگی کے المیے پر بات ہو جائے۔ ہوا کچھ یوں کہ جنیفر کو سنہ 1983 میں بڑی آنت کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ اس خبر نے ششی کپور کو توڑ کر رکھ دیا۔ وہ اپنی محبوبہ کو اپنے سامنے تکلیف سے بلکتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ جنیفر نے اپنی زندگی کے آخری چند ماہ اپنے آبائی وطن برطانیہ میں گزارے اور سنہ 1984 میں چل بسیں۔
ششی کے لیے اپنی محبت کو کھونے کا غم آسان نہیں تھا جس کا اظہار اس دور میں ان کی شخصیت میں آنے والی تبدیلیوں سے بھی ہوتا ہے۔ شکیل بدایونی نے شاید اسی موقع کے لیے کہا تھا:
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
ششی نے دوسری شادی نہیں کی مگر وہ ٹوٹ چکے تھے۔ انہوں نے اس کے باوجود اگلے چند برس فلموں میں کام کیا۔
یہ ششی کپور کا ہی اعزاز ہے کہ وہ 61 فلموں میں بطور سولو ہیرو اور 116 فلموں میں مرکزی کردار میں نظر آئے۔ یہ تعداد کپور خاندان کے کسی بھی دوسرے مرد اداکار سے زیادہ ہے۔
یہ اعزاز بھی ششی کپور کو ہی حاصل ہے کہ سنہ 2014 میں جب اداکار کو ’دادا صاحب پھالکے‘ ایوارڈ ملا تو یہ ان کی فلم انڈسٹری کے لیے خدمات کا اعتراف تو تھا ہی بلکہ اس ایوارڈ کے ساتھ ہی کپور خاندان ایسا واحد خاندان بن گیا جس کے تین ارکان کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پرتھوی راج کپور اور راج کپور کے بعد یہ اعزاز ششی کپور کو ملا۔ حکومت انڈیا کی جانب سے اداکار کو ’پدما بھوشن‘، چار نیشنل اور دو فلم فیئر ایوارڈ بھی ملے۔
ششی کپور کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے ’مرچنٹ آیووری پروڈکشنز‘ کے لیے انگریزی فلموں میں بھی کام کیا جن میں سے بیش تر میں ان کے ساتھ جنیفر نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ ایک ایسا پروڈکشن ہاؤس تھا جو انڈین ناظرین کے لیے انگریزی فلمیں بنایا کرتا تھا جنہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔
کتاب ’ششی کپور: دی ہاؤس ہولڈ، دی سٹار‘کے مطابق ’جنیفر کینڈل کپور جب حیات تھیں تو اپنے شوہر کی خوراک پر گہری نظر رکھا کرتی تھیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث کپور خاندان کے دیگر مردوں کی نسبت ششی کپور زیادہ طویل عرصے تک دبلے پتلے نظر آئے۔ دلچسپ حقیقت مگر یہ ہے کہ ششی کے اردگرد موجود لوگ ان کی کم خوراکی پر ’افسوس‘ کیا کرتے تھے۔‘
بے مثل اداکارہ اور اداکار رشی کپور کی بیوی نیتو سنگھ نے اپنے چچا سسر کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ ’مجھے یاد ہے، میں نے جب ان کے ساتھ کام کیا تو ان کے کھانے کی جانب دیکھا اور کہا، ششی چچا، آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟‘
ششی کپور نے اگرچہ بڑی تعداد میں ’مسالحہ‘ فلموں میں کام کیا مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی پروڈیوس کردہ فلموں اور پرتھوی تھیٹر کے ذریعے بالی وڈ کو ٹیلنٹ فراہم کرنے کی اکادمی بنا کر وہ کردار ادا کیا جو کوئی اور اداکار ادا نہیں کر سکا۔ یوں کہہ لیجیے کہ بالی وڈ پر ان کے اثرات ہمیشہ موجود رہیں گے کہ رواں برس ہی شری پرتھوی راج میموریل ٹرسٹ کے قیام کو نصف صدی مکمل ہو گئی ہے جس کے بیاں کو دفتر کے دفتر درکار ہوں گے۔
ششی کپور 4 دسمبر 2017 کو دنیا سے چلے گئے مگر وہ اپنی فلموں کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ ان کا فن ہی درحقیقت ان کا دوسرا جنم ہے۔