مشرق وسطیٰ

چترال بونی شندور شاہ راہ پر حفاظتی دیواریں خود بخود گرنے لگے۔غیر معیاری کام کی وجہ سے عوام پریشان۔

چترال میں سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کیلیے آواز اٹھانے والی رضاکار تنظیم سی ڈی ایم چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ کے اراکین نے اس سڑک کا معاینہ کیا

پاکستان چترال(نمائند وائس آف جرمنی): چترال بونی شاہراہ پر نیشنل ہای وے اتھارٹی کے زیر نگرانی تعمیر کا کام کیی سالوں سے جاری ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے بننے والے اس سڑک پر ایک جانب تعمیری کام غیر ضروری تاحیر کا شکار ہوا تو دوسری جانب کام کا معیار بھی اچھا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اکثر حفاظتی دیواریں تکمیل سے پہلے خود بخود گر رہے ہیں۔ چترال میں سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کیلیے آواز اٹھانے والی رضاکار تنظیم سی ڈی ایم چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ کے اراکین نے اس سڑک کا معاینہ کیا۔ ماہرین نے انکشاف کیا کہ سڑک کی تعمیر کا کام عمر جان اینڈ کمپنی کو ٹھیکے پر دیا گیا تھا مگر انہوں نے چھوٹے چھوٹے ٹھیکداروں میں یہ کام بانٹا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑک کے کنارے حفاظتی دیواریں بغیر کسی بنیاد کے ریتلی زمین کے اوپر بنایے گیے ہیں جس کی تعمیر میں سیمنٹ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اور صرف کچرا اندر ڈال کر باہر سے پلستر کیا ہوا ہے دوسرا اس پرتھرای نہیں ہوی یعنی بروقت پانی نہیں چڑھکایا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ سیمنٹ بھی بوسیدہ ہوکر خود بخود گر رہے ہیں۔
سی ڈی ایم کے اراکین کے علاوہ راہگیروں نے بھی سیمنٹ کے بنے ہویے دیواریں ہاتھوں سے توڑ کر اسے نہایت غیر معیاری اور ناقص قراردیا۔
معروف قانون دان سید برہان شاہ ایڈوکیٹ، سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر، محمد اشرف، طالب علم کامران، سلطان محمود،ذکریا اور راہ چلتے ہویے دیگر لوگوں نے بھِی اس بات پرنہایت حیرت کا اظہار کیا کہ چترال بونی شاہراہ پر اگر ایسا ناقص کام کھلے عام ہورہا ہو جس پر ہزاروں لوگ روزانہ گزرتے ہیں تو جہاں زیادہ لوگوں کا آمد و رفت نہ ہو وہاں این ایچ اے کے کام کا کیا معیار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر اگر اپنے گھر میں بھی تعمیراتی کام کرتا ہو تو دیوار کیلیے پہلے تین چار فٹ بنیاد کھودتا ہے اور پتھروں میں سمینٹ ڈال کر دیوار بنایا جاتاہے تعمیر کے بعد اس پر باقاعدگی سے ہفتہ دس دن تھرای کی جاتی ہے یعنی پانی ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ مضبوط ہو۔ یہاں حفاظتی دیواروں کے اندر چھوٹے پتھر اور کچرا ڈالا گیا ہے جس کے اندر سیمنٹ نام کا کوی چیز نہیں ہے اور دیوار کو باہر سے پلستر کیا ہوا ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ پورے دیوار میں سیمنٹ استعمال ہوا ہے مگر اس پر تھرای نہیں ہوی ہے جس کی وجہ سے جولای اگست میں سیمنٹ بوسیدہ ہوکر ناکارہ ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ دیواریں خود بخود گررہی ہے۔ جہاں دیواریں گری ہیں وہاں نہ تو سیلاب آیا ہے اور ان پر کوی بڑا پتھر گرا ہوا ہے بلکہ نیچے بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے دیوار سرک گیا ہے اور پورا دیوار دھڑام سے گرا ہے۔
سی ڈی ایم کے اراکین نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اس کام کی معیار کو چیک کرنے کیلیے نیسپاک یعنی نیشنل انجنیرنگ سروسز پاکستان کی جانب سے کنسلٹنٹ ریذیڈنٹ انجنیر عرفان الحق نے ایک مرتبہ بھی سایٹ پر جاکر اس کام کی معیار کا معاینہ نہیں کیا۔ ان کے مزید کہنا ہے کہ ان کی شکایت این ایچ اے کے پراجیکٹ ڈایریکٹر کو بھی کی گیی تھی مگر ان کا جواب تھا کہ وہ دل کا مریض ہے اور چل پھرنے کا قابل نہیں ہے۔ ہمارے نمایندے نے این ایچ اے اور نیسپاککے ذمہ داروں سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا اور ان کو باقاعدہ ان کے نمبر پر پیغام بھیجا کہ وہ اس بابت اپنا موقف دے تاکہ دونوں جانب کی موقف کو میڈیا میں دیا جایے مگر ابھی تک ان کی طرف سے کوی جواب نہیں ایا۔
معروف قانون دان سید برہان شاہ ایڈوکیٹ اور سی ڈی ایم کے دیگر اراکین نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، وفاقی وزیر اور سیکرٹری مواصلات اور این ایچ اے کے چییرمین سے مطالبہ کیا ہے کہ اس ناقص کام کا جوڈیشل انکوایری کرکے اسے دوبارہ سپیسیفکیشن یعنی مروجہ معیار کے مطابق بنایا جایے مبادا اس سڑک پر تعمیر ہونے کے بعد جب بھاری ٹرک اور سواریوں سے بھرے ہویے کوسٹر جب گزریں گے تو یہ ناقص دیواریں ان کی بوجھ برداشت نہ کرتے ہویے وہ دریا برد نہ ہوجایے کیونکہ یہ دیواریں ابھی سے اکثر ایسی جگہہ گررہے ہیں جہاں نہ تو اس پر کوی بھاری ملبہ گرا ہے اور نہ سیلاب کا پانی اس پر گزرا ہے بلکہ نیچے بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے خود بخود گررہی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button