پیر مشتاق رضویکالمز

"باب اسلام”اور محمد بن قاسم رح۔۔!! پیر مشتاق رضوی

نام نہاد قوم پرست 10 رمضان کو محمد بن قاسم کی کردار کشی کرکے ظالم راجہ داہر کو اپنا ہیرو گردانتے ہیں۔ البتہ ایسا پراپیگنڈا کرنے والے سے جب اُس کے عقائد پوچھے جائیں، ان کی قرآن کی تفسیر کا کوئی حوالہ طلب کیا جائے

برصغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجہ داہر کی موت کے بعد باب الاسلام کی بنیاد رکھی گئی مگر اب بھی نام نہاد قوم پرست سندھی لوگوں کو غلط فہمی کا شکار کرنے اور تاریخ کومسخ کرنے کے در پہ ہیں کہ محمد بن قاسم اہلبیت عظام کے گھرانے کے پیچھے ہندوستان آیا تھا تاکہ ان کا خاتمہ کر دے
نام نہاد قوم پرست 10 رمضان کو محمد بن قاسم کی کردار کشی کرکے ظالم راجہ داہر کو اپنا ہیرو گردانتے ہیں۔ البتہ ایسا پراپیگنڈا کرنے والے سے جب اُس کے عقائد پوچھے جائیں، ان کی قرآن کی تفسیر کا کوئی حوالہ طلب کیا جائے ، احادیث کی کتابیں پوچھیں، صحیح احادیث کی شرح کے اصول پوچھیں تو بخوبی سمجھ آ جائے گی کہ یہ منظم پروپگنڈا نام نہاد قوم پرست اور لبرلز کی مسلم تاریخ کو مسخ کرنے اور مسلم امہ میں تقسیم اور نفرتوں کو پھیلانے کا ھنود اور یہود کا واضح ایجنڈا ہے
ایسے مذموم ایجنڈے کے حامل عناصر کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ عوام الناس کو بحث نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے بنیادی عقائد کا علم حاصل کریں کیونکہ تاریخ پر بحث مسلمانوں کی سوچ بکھیر کر رکھ دیتی ہے مگر اسلامی تعلیمات اور اپنے مشاہیر کے قانون و اصول پر رہیں تو مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
محمد بن قا سم رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام عماد الدین محمد بن قا سم، 72ھ (694ء) پیدائش، تابعی، ثقفی قبیلہ، بنو امیہ کے عبدالملک بن مروان کا زمانہ، گورنر حجاج بن یوسف کا بھتیجا، باپ قاسم بصرہ شہر کا گورنر متعین تھا، محمد بن قاسم ذہین و عقلمند، دلیر، سمجھدار، اعلی اخلاق، قانون کا پابند اور عرب کا ہر دلعزیز 17 سالہ نوجوان راہنما تھا۔ 708ء ایران میں کردوں کی بغاوت کچل کر ”اصطخر“ کا علاقہ فتح کر کے ”جرجان“ کی طرف پیش قدمی، شیراز شہر کی بنیاد رکھی اور وہیں کے گورنر مقرر ہوئے۔ (جُنتہ السندھ) تاریخ کے مطابق ہندوستان میں صحابہ کرام آتے رہے ہیں، صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ بھی یہاں پر ہیں اور محمد بن قاسم سے پہلے خلافت راشدہ میں بھی سندھ پر حملے ہوئے ہیں۔ البتہ 88ھ میں جزیرہ یاقوت (سیلان) کے بادشاہ کا عراق جاتا ہوا جہاز، سندھ کی بندرگاہ (دیبل) پر عورتوں، بچوں، مردوں اور سامان سمیت لوٹا گیا۔ حجاج کا 43 سالہ سندھ پر حکومت کرنے والے راجہ داہر کو خط مگر راجہ داہرکا غیر معقول جواب کہ بحری قزاق نہایت طاقتور ہیں۔اور اس کے اختیار میں نہیں ہیں
چچ نامہ اور تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ عورتیں اور بچے بعد میں راجہ داہر سے ہی ملے۔ ڈاکٹر تارا چند کا اے شارٹ ہسٹری آف انڈیا: 122 میں محمد بن قا سم کے اعلی اخلاق اور راجہ داہر کا گھٹیا پن کے متعلق لکھا ہے۔ تاریخ سندھ: 45 – 46 پرلکھا ہے کہ راجہ داہر ایسا ذلیل اور کمینہ ہے کہ اُسنے اپنی سگی بہن سے شادی کر لی۔ 90ھ میں محمد بن قا سم کی قیادت میں مسلمان روانہ، 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجہ داہر کی موت اور محمد بن قاسم ”ہیرو“ اور اسی وجہ سے سندھ کو ”باب الاسلام“ کہا گیا۔ حجاج ابن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کی وفات، سلیمان بن عبدالملک کا خلیفہ بننا اور اس نے ذاتی رنجش کی بناء پر محمد بن قاسم کی جگہ یز ید بن ابی کبشہ کو گورنر بنادیا۔ سندھ کے لوگوں اور محمد بن قاسم کی فوج نے واپس نہ جا کا مشورہ دیا مگر محمد بن قاسم کا خلیفہ کی اطاعت بات کو قبول کیا ، جبکہ ان پر بے بنیاد الزامات بھ لگائے گئے تھے بعد ازاں ذاتی عناد کی وجہ سے محمد بن قاسم کو قید وبند اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں گئیں اور 96ھ میں تاریخ رقم کرکے عظیم مجہد اسلام محمد بن قا سم قبر میں ابدی سو گیا (حوالے: تاریخ سندھ، محمد بن قا سم، جُنتہ السندھ، آزاد دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی) ڈاکٹر مختار احمد مکی کی کتاب ”ہندوستان میں گمراہ کن تاریخ نویسی“ سے علم ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے ساتھ ان کے مدد گار عرب فوج کے ساتھ مقامی لوگ کیوں بنے، راجہ داہر کس قماش کا انسان تھا اور محمد بن قاسم کا مسلم و غیر مسلم کے ساتھ سلوک کیا تھا۔
محمد بن قا سم کی ایشوری پرشاد، متعصب ہندو مگر ہسٹری آف میڈائیول انڈیا: 56، ڈاکٹر بینی پرساداپنی کتاب ہسٹری آف جہانگیر: 89 اور تاریخ ہند: 245 پرمولانا ذکاء اللہ کا محمد بن قاسم کے کارناموں پر تبصرہ پڑھنے والا ہے۔ مصنف بلاذری ”فتوح البلدان“ اور اعجاز الحق قدوسی ”تاریخ سندھ“ میں محمد بن قاسم کی تعریف کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کا یہ المیہ ہے کہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسی بن نصیر جیسے سپہ سالاروں کے ساتھ مسلمان حکمرانوں نے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور بلاد اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا برصغیر کے مسلمان یہ ضرور سوچیں کہ شہید وہی ہو گا جسے اللہ کریم کل قیامت والے دن شہید بتائے گا ورنہ دنیاوی اعزازات کی تمنا کرنےوالا صرف دنیا ہی کمانا چاہتا ہے۔ اور یہ تاریخ گواہ ہے کہ محمد بن قاسم کی امد سے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی باقاعدہ اشاعت کا اغاز ہوا اور ہندوستان میں اسلامی نشاط الثانیہ کی بنیاد رکھی گئی یہ بھی تاریخی عمر ہے کہ مسلمان فاتحین کی برصغیر پاک و ہند میں آمد سے قبل ھندوستان ھندو راجاؤں کی راجدھانیاں اور مختلف ریاستوں میں تقسیم تھا لیکن مسلمانوں نے ہندوستان کی شیرازہ بندی کی اور ہندوستان کو جنوب ایشیا کی ایک بڑی متحدہ سلطنت بنایا

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button