
رمیش سنگھ اروڑہ کی زیرِ صدارت سکھ آنند کراج میرج ایکٹ 2018 کے موضوع پر اجلاس
اجلاس میں یو سی چیئرمین دلہن کی کونسل سے منتخب کرنے،سکھ بچے اور بچی کی عمر کم از کم 18 سال رکھنے پر اتفاق کیا گیا جبکہ طے پایا کہ دلہا اور دلہن کے مابین کسی بھی مسئلے پر پانچ رکنی سنگت اپنی تجاویز پیش کرے گی
لاہور پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی): صوبائی وزیر برائے اقلیتی رمیش سنگھ اروڑہ / پردھان پاکستان پر بںندھک کمیٹی کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ، جس میں سکھ آنند کراج میرج ایکٹ 2018 کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں پی ایس جی پی سی کے ممبران،لاہور، ننکانہ صاحب ، پنجہ صاحب ،ڈیرہ صاحب اور پشاور سے ہیڈ گرانتھی صاحبان کے علاوہ ایم پی اے ثانیہ عاشر، ایم پی اے بابا فیلبوس اور ڈپٹی سیکرٹری اقلیتی امور عائشہ یاسین نے خصوصی شرکت کی۔ اجلاس میں مصالحتی کونسل کے قیام اور نکاح رجسٹرار کی تعیناتی بارے مختلف تجاویز اور دیگر امور بارے تجاویز پیش کی گئیں۔ ریسرچ آفیسر شعیب ظفر نے ایکٹ پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ ابھی اس میں ضروری ترامیم کی جاسکتی ہیں تاہم اسکے ڈرافٹ کو ہر لحاظ سے مکمل کیا گیا ہے تاکہ آگے چلکر کوئی بھی مسئلہ پیدا نہ ہو سکے۔ اجلاس میں یو سی چیئرمین دلہن کی کونسل سے منتخب کرنے،سکھ بچے اور بچی کی عمر کم از کم 18 سال رکھنے پر اتفاق کیا گیا جبکہ طے پایا کہ دلہا اور دلہن کے مابین کسی بھی مسئلے پر پانچ رکنی سنگت اپنی تجاویز پیش کرے گی۔ اسکے ساتھ طے پایا کہ طلاق کے خواہاں جوڑے کو چیئرمین کو تحریری نوٹس بھیجنے کے پابند ہوں گے تاہم دونوں فریقوں کو ایک کاپی فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی اور نوٹس موصول ہونے کے 30 دن کے اندر چیئرمین مصالحتی کمیٹی تشکیل دیں گے،اگر جوڑے 90 دنوں کے بعد بھی صلح کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر رمیش سنگھ اروڑہ کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب میں سکھ میرج ایکٹ نافذ ہونے سے پہلا صوبہ بن جائے گا اور امید ہے کہ دوسرے صوبے بھی اسکی تکلید کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایکٹ کا مسودہ اکتوبر 2017 میں خود اسمبلی میں پیش کیا تھا اور سکھ میرج ایکٹ کو مارچ 2018 میں پنجاب اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے منظور کیا تھا تاہم
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مئی 2018 میں اپنی آئینی مدت مکمل ہوگئی تھی تاہم سیاسی اور دیگر وجوہات کی بناء پر پر آج تک ایکٹ کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا اصل میں اس ایکٹ کو بہت پہلے پاس ہونا چاہئے تھا کیونکہ سکھ برادری کی شادیاں رجسٹر نہ ہونے کیوجہ سے کئی قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں جس میں وراثتی اثاثوں کی تقسیم بھی شامل ہے۔ رمیش سنگھ نے مزید کہا کہ ایکٹ کو صوبائی کابینہ سے منظور کرواکر لاگو کرنا ہوگا جبکہ ایکٹ کے تحت سکھ جوڑے اپنی شادیوں کو قانونی طور پر رجسٹرڈ کرسکیں گے اور رجسٹر کرنے کے ساتھ ساتھ طلاق کے لیے فائل کرنے کی بھی اجازت ہوگی۔ رمیش اروڑہ نے کہا کہ اگر کوئی جوڑا علیحدگی کا فیصلہ کرتا ہے تو کوئی قانونی طریقہ کار دستیاب نہیں ہے تاہم پنجاب میں سکھ جوڑوں کی شادیاں کرنے کے لیے مختلف گوردوارے رجسٹر کیے جائیں گے اور 18 سال سے کم عمر کے لوگ شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے نااہل ہوں گے جبکہ شادی سکھ مت کے مرکزی مذہبی صحیفہ گرو گرنتھ صاحب کی تعلیمات کے بعد ہوگی۔ رمیش سنگھ نے واضح کیا کہ جوڑے آنند کارج فارم کو پُر کریں گے اور اپنی شادی کے 30 دنوں کے اندر مجاز رجسٹرار کو جمع کرائیں گے۔آنند کارج رجسٹرار یا یونین کونسل کے دفاتر تمام شادیوں کا ریکارڈ رکھیں گے تاہم ایکٹ میں ضروری ترامیم کرکے اسکو جلد کابینہ سے منظور کروانا ہوگا۔ اجلاس کے اختتام پر تمام ممبران نے صوبائی وزیر کو اپنی رضامندی سے آگاہ کیا اور اس عزم کا کیا کہ سکھ برادری کے لیے یہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔