وادی کیلاش رمبور کا دریا بھاری پتھروں اور ملبے سے بلاک۔ کسی بھی وقت حطرناک سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے وفاقی وزیر اور سیکرٹری مواصلات اور چیرمین این ایچ اے سے مطالبہ کیا کہ اس کیلیے دوبارہ ٹیم بھیجا جایے تاکہ اس سڑک کو محفوظ جگہہ سے گزارا جایے انہوں نے مقامی ماہرین اور انجنیروں کی مدد سے ایک نقشہ بھی تیار کروایا ہے جس میں یہ سڑک بالکل سیدھا گزرتا ہے۔
چترال (گل حمادفاروقی)چترال کے خوبصورت اور سیاحتی علاقے وادی کیلاش کی سڑکوں کی حالت نہایت ناگفتہ بہہ تھی تاہم نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ان وادیوں کیلیے تقریبا 12 ارب روپے کی لاگت سے سڑکوں کی کشادگی اور تعمیر کا کام پچھلے سال شروع کیا تھا۔ وادی کیلاش کیلیے سڑک کو کیلاش کی پہلی گیٹ وے وادی آیون سے لے جایا جارہا ہے مگر لنک روڈ کو چھوڑ کر اسے ایک غیر مناسب اور غیر محفوظ جگہ سے لے جایا جارہا ہے ۔
اس سڑک کو زرعی زمین کے بیچ میں سے دو سو فٹ اونچا گزارا جاتا ہے جہاں صرف مٹی اور ملبہ ڈال کر اسے اونچا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف زرعی زمین اور اس کیلیے آبپاشی کی نالے متاثر ہوئے ہیں تو دوسری جانب آس پاس کے مکانات کے رہائشیوں بے پردگی کاسامناکرناپڑرہا ہے جبکہ اس مصنوعی پہاڑ کے کناروں پر حفاظتی دیوار بھی نہیں ہے اور کسی بھِی سیلاب یا شدید بارش کی صورت میں یہ بہہ کر ختم ہوسکتا ہے۔
چترال میں سڑکوں کی تعمیر اور بہتری کیلیے آواز اٹھانے والی رضاکار تنظیم سی ڈی ایم : چترال ڈیویلپمنٹ مومونٹ : کے سینیر اراکین میجر ریٹایرڈ شہزادہ سراج الملک، پرنسپل ریٹایرڈ لیاقت علی ، پراجیکٹ منیجر ریٹایرڈ عنایت اللہ اسیر، وادی ایون کے منتحب چییرمین وجیہ الدین اور محمد رحمان نے میڈیا ٹیم کے ساتھ ان علاقوں کا دورہ کیا۔
مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ این ایچ اے کے انجنیر نے شاید اسلام آباد میں بیٹھ کر اس کا نقشہ بنایا ہے کیونکہ یہاں پہلے سے بہترین سڑک موجود ہے اسی سڑک کو دونوں جانب سے کشادہ کرکے سڑک تعمیر ہوسکتی ہے جس پر خرچہ بھی کم آتا ہے اور محفوظ بھی ہے مگر انہوں نے سڑک کو ٹیڑھا کرکے زرعی زمین میں ایک مصنوعی پہاڑ بناکر اس پر سڑک بناتے ہیں جو زمین سے غالبا دو سو فٹ اونچی ہے جو سیلاب اور تیز بارش کی صورت میں تباہ ہوسکتی ہے۔
انہوں نے وفاقی وزیر اور سیکرٹری مواصلات اور چیرمین این ایچ اے سے مطالبہ کیا کہ اس کیلیے دوبارہ ٹیم بھیجا جایے تاکہ اس سڑک کو محفوظ جگہہ سے گزارا جایے انہوں نے مقامی ماہرین اور انجنیروں کی مدد سے ایک نقشہ بھی تیار کروایا ہے جس میں یہ سڑک بالکل سیدھا گزرتا ہے۔
سی ڈی ایم کے ٹیم نے وادی رمبور کے سڑک کا بھِی دورہ کیا جہاں سڑک کی کشادگی پر کام جاری ہے مگر اس سڑک کو توسیع کرنے کیلیے ٹھیکدار پہاڑ میں کئی فٹ لمبی سرنگ بناکر اس میں بھاری مقدار مِیں بارود ڈال کر دھماکے سے پہاڑ کو اڑاتا ہے جس کا سارا ملبہ اور ہزاروں ٹن وزنی پتھر رمبور کے دریا میں گرتے ہیں اب اس دریا میں مصنوعی جھیل سی بن چکی ہے اور اگلے آنے والے دنوں میں جب گرمی کی وجہ سے برف پگھل کر اس دریا میں آئے گی تو یہ عطاء آباد جھیل کا منظر پیش کرے گا۔
میڈیا ٹیم سے باتیں کرتے ہویے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ٹھیکیدار نے جو بڑے بڑے پتھر رمبور کی نہر میں ڈالا ہے اس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بند ہوچکا ہے اور یہ عطا آباد جھیل کا منظر پیش کررہا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس نالہ میں جو جھیل بن چکیے یہ ہمارے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس سال بہت زیادہ برف باری ہوئی ہے اور پہاڑوں پر برف پگھل کر جب پانی زیادہ ہوگا تو اس سے ہمارے مکان ، باغات اور کھیت بھی تباہ ہو سکتے ہیں جبکہ سیلاب کی شکل میں پوری آیون وادی کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
مقامی لوگوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ٹھیکیدار اس پہاڑ کے اندر کیئی میٹر لمبی سرنگ کرکے اس میں بہت زیادہ بارود اور یوریا کھاد ڈال کر زور دار دھماکہ کراتا ہے جس سے پورا پہاڑ دھڑام سے نیچے گرتا ہے اور یہ بارود اور کیمکل والا پانی نیچے جاکر اسے لوگ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سےوہ محتلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔
مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اس دریا نما نالہ سے فوری طور پر بڑے پتھر اور ملبہ ہٹاکر اسے صاف کیا جایے تاکہ پانی کی بہاو میں رکاوٹ نہ آیے ورنہ یہ بہت بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
مقامی لوگوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ آیون سے بمبوریت تک پچاس سال قبل محکمہ جنگلات نے ایک سڑک بنائی تھی جس پر دیار کی لکڑی لایا کرتے تھے اگر محکمہ این ایچ اے اسی سڑک کو دوبارہ بحال کرے جو معمولی مرمت سے ٹھیک ہوسکتی ہے تو اس سے ایک طرف کیلاش سڑک پر کام میں رکاوٹ نہیں آئے گی لوگ اسی اوپر والی سڑک پر سفر کریں گے جبکہ دوسری طرف ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی ایسے راستوں کو پسند کرتے ہیں جو پہاڑ کے بیچ میں سے گزرا ہو جہاں سے پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا ہو۔
ہمارے نمائندے نے چییرمین این ایچ اے ارشد مجید مہمند اور پراجیکٹ ڈایریکٹر ظہیر الدین سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو باقاعدہ تحریری پیغام بھیجا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے موقف سے آگاہ کریں مگر ابھی تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔