منڈیوں کی ثقافت اور مصنوعی سماج …..حیدر جاوید سید
جنرل محمد یحییٰ خان کو ایک ایسا عاشق امام علیؑ بتایا گیا جو نفاذِاسلام کے اس رکے ہوئے سلسلے کا پھر سے آغاز کرسکتا ہے جو چوتھے خلیفہ راشد امام علیؑ کی شہادت کے بعد سے توجہ طلب تھا۔
باتیں بہت ہیں مثلاً ایسے سماج میں راست فکر کی ترویج کیسے ہو جہاں نسیم حجازی مرحوم کو تاریخ دان کا درجہ حاصل ہو اور طاہر اشرفی روشن خیال عالم دین سمجھا جائے۔ یہاں ایک مرد ’’مینا ناز‘‘ کے نام سے سستے رومانی ناول لکھتا تھا اور وہ ہاتھوں ہاتھ بکتے رہے۔
پنجابی فلموں کے ذریعے جس ثقافت کی ترویج کا سامان ہوا وہ پنجاب کی نہیں بلکہ فلم سٹوڈیوز کی ’’منڈیوں‘‘ کی ثقافت تھی۔ 1980ء یا یوں کہہ لیں 1970ء کی دہائی کا دوسرا نصف اور 1980ء کی دہائی کا پہلا نصف بھارتی فلموں کی چربہ کہانیوں پر ہمارے یہاں فلم سازی کو جوتے مارے گئے۔
ایسے ایسے فلمی نغمہ نگار بھی ہوگزرے جو ساغر صدیقی سے ایک کپ چائے اور دو پکے سگریٹوں کے عوض گانے لکھوالیتے۔ کسی مجبور کہانی نویس کی کہانی پانچ سو روپے میں خریدتے اور پھر فلم کے پوسٹر پر ان کا نام یوں شائع ہوتا ’’حاجی کبیر وہاب، فلم ساز، ہدایتکار، کہانی نویس اور نغمہ نگار‘‘۔
معاف کیجئے گا چار بار مارشل لائوں کے عذاب سے معاشرے میں اگر کوئی یک رخی بات اور یک چہرہ شخص ہے تو غنیمت سمجھ لیں۔
ہمارے یہاں صدر جنرل بلکہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو امام ضامن باندھے گئے ( یہ امام ضامن حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی نے باندھا تھا ) ۔ جنرل محمد یحییٰ خان کو ایک ایسا عاشق امام علیؑ بتایا گیا جو نفاذِاسلام کے اس رکے ہوئے سلسلے کا پھر سے آغاز کرسکتا ہے جو چوتھے خلیفہ راشد امام علیؑ کی شہادت کے بعد سے توجہ طلب تھا۔
(یہ تاریخ ساز بلکہ کھڑکی توڑ امید بھرا بیان جاعت اسلامی کے اس وقت کےسیکرٹری جنرل میاں طفیل احمد نے دیا تھا) جنرل ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تو ہمیں بتایا گیا کہ جنرل صاحب سلطان صلاح الدین ایوبی کا نیا جنم ہیں۔
تاریخ کا ایک پنا پڑھے ہوئوں نے داد کے ڈونگرے برسائے۔ افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ کو اہل کتاب کی مشترکہ جنگ کا درجہ ملا لیکن جنہوں نے تاریخ کے اس ورق کو الٹ کر اگلے اوراق پڑھ لئے تھے وہ سمجھ گئے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تعصبات اور تشدد کا دروازہ کھلنے والا ہے۔
پھر خدشات ان کے ہی درست ثابت ہوئے جو تاریخ کو کھلی آنکھوں سے پڑھتے اور تقابلی تجزیہ کرنے کی بیماری میں مبتلا تھے۔ بیسویں صدی کے سلطان صلاح الدین ایوبی کی پالیسیوں اور اقدامات نے ہماری سماجی وحدت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ جنرل کی قبر اسلام آباد کی ایک مسجد کے احاطے میں ہے مگر ان کے تخلیق کردہ تعصبات سے کوئی مسجد محفوظ نہیں۔ نمازی اور پیش نماز تو رہے دور کی بات۔
ہم کیا ہمیشہ سے ایسے تھے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پُرکھوں، بزرگوں، ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو دولے شاہ کا چوہا بناکر رکھنے میں ہر کسی نے حصہ چالا حصہ بقدرے جُثہ۔لاکھ خامیاں ہوں گی ذوالفقار علی بھٹو میں لیکن وہ ایک عوام دوست اور سامراج دشمن قوم پرست رہنما کے طور پرابھرے (یہ ایوبی حاکمیت کے کوچہ سے نکلنے کے بعد کی بات ہے) بھٹو صاحب کا حشر کیا ہوا، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ایک سابق سربراہ جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے خود اعتراف کیا بھٹو کی سزا عدالتی قتل تھا۔
کب دیکھا اور غور کیا ہم نے کہ وہ ’’کون‘‘ ہے جو دو نمبریوں کی پیدائش اور پرورش کا حق ادا کرتا ہے۔ ماضی قریب میں اشفاق پرویز کیانی کے نام کے ایک صاحب آرمی چیف ہواکرتے تھے۔ خفیہ اداروں کے وظیفہ برداروں نے انہیں دانشور آرمی چیف کے طور پر پینٹ کیا۔
کہا لکھا گیا وہ باتھ روم میں بھی مطالعے کو مقدم سمجھتے ہیں۔ پھر ایک دن یہ بھید کھلا کہ وہ مطالعہ ضرور کرتے تھے مگر حساب کتاب کے دفتروں کا وہ بھی اپنے بھائیوں کے کاروبار سے متعلق۔ باقی انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
کبھی کبھی بہت حیرانی ہوتی ہے جب پڑھے لکھے حضرات ٹی وی کے ایک دانشور کی جرأت مستانہ کے اسیر ہوکر کہتے ہیں کاش سارے صحافی ایسے ہوتے۔ دعا مانگنے والے ایک صاحب سے عرض کیا مالدار بیوگان و طلاق یافتہ خواتین سے شادی کرکے انہیں اذیت بھری زندگی دینا اور پھر نصف جائیداد کے عوض طلاق عطا فرمانا یقیناً ایسا اجلا کاروبار ہے جو آدمی کو بے دھڑک بدتمیزی بھرا سچ بولنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ وہ صاحب پچھلے کافی عرصے سے ہم سے خفا ہیں۔
ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنا کیا ہے۔ تاریخ، تمدن، کلچر۔ یہاں تو تبدیلی مذہب کے ساتھ اپنی زمین اورتاریخ کو جوتے مارنے کا فیشن نسل در نسل عروج پر ہے ہم پاک و ہندی مسلمان امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس اورآسٹریلیا کی شہریت بمعہ بیگم چاہتے ہیں۔ البتہ دل میں یہ دعا رہتی ہے کہ مرجائیں تو جنت البقیع میں دفن ہونے کا انتظام ہوجائے۔
ایک دوست نے لطیفہ سنایا ’’ماجھو دودھ دہی والا دودھ میں پانی ملاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اگر کرم دین میڈیکل سٹور والے جعلی دوائیاں نہ بیچتے تو اس کا بیٹا اکبر وفات نہ پاتا‘‘۔ سچ کڑوا ہے ناں؟
دودھ میں پانی، مرچوں میں اینٹوں کا برادہ، فارمی شہد کو اسلامی شہد اور چائے کی پتی میں چنوں کے چھلکے ملانے والے منہ بھر کر کہتے ہیں زرداری دنیا کا سب سے کرپٹ اور نوازشریف اس سے بھی بڑا چالباز ہے۔ سیاستدانوں کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سناتے ہوئوں سے اگر کبھی یہ کہا جائے کہ وہ جو دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کرپشن ہے کبھی اس کی کہانی بھی لکھیں، سنائیں تو ان کا چہرہ بگڑ جاتا ہے۔
جب کبھی اس طرح کی باتیں یاد آتی ہے تو جواں مرگ شاعر انجم لشاری کی یادیں دستک دینے لگتی ہیں۔ اس نے کہا تھا
’’رنگ محل کے برتن مانجھے ، کھڑکی کے شیشے چمکائے، اپنے تن کی جوت لائے، پھر بھی بھوکی ہی رہ جائے بھوک نگر کی بھوکی لڑکی‘‘۔
اس سماج میں سب چلتا ہے۔ چین و عرب کیا ساری دنیا کو اپنا کہنے والوں کو چھت تک میسر نہیں۔ زندگی کے سودے اور ہیں۔ ایک خالص علمی کتاب کا 500 کی تعداد والا ایڈیشن سال دو سال میں فروخت نہیں ہوتا لیکن نفرتوں بھری کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ ایک بڑا مولوی اور ذاکر گھنٹہ بھر کی تقریر کے جتنے پیسے لیتے ہیں اتنے پیسوں میں اس گئے گزرے دور میں بھی ایک غریب و بیوہ ماں کی بیٹی بیاہی جاسکتی ہے۔
مسلسل سات برسوں سے ماہ رمضان کے عمرے کی سعادت حاصل کرنے والے ایک حاجی صاحب سے عرض کیا کبھی بیوہ بہن کے گھر بھی دیکھ لیں اکثر فاقے قیام کرتے ہیں ان کے ہاں۔ وہ بولے سب اللہ کے معاملات ہیں اس کی مرضی کے بغیر رزق اور عمرے کی سعادت کہاں ملتی ہے۔ بہت حیرانی ہوئی ان کے جواب سے اور افسوس بھی۔ مگر کیا ہوسکتا ہے۔
بغیر اجازت کے بھارتی اور یورپی مصنفین کی کتابیں چھاپنے والے پبلشرز کروڑ پتی ہوگئے۔ اعلیٰ سطح کے تخلیق کار کو جواب ملتا ہے 200 کتابیں اگر آپ نصف قیمت پر خرید لیں تو ہم کتاب چھاپ دیتے ہیں۔
سرمایہ داروں کی اکثریت ملازمین کے گوشت سے خاندان پالتی اور اثاثوں میں اضافہ کرتی ہے۔ ٹھیکیدار دودو کو بہت صدمہ تھا کہ سرکاری سکول بنانے والے ٹھیکیدار نے ایمانداری سے کام نہیں کیا اسی لئے سکول کی چھت گرگئی۔ کسی نے کہا دودو صاحب!وہ جو سڑک آپ نے پچھلے ماہ بنائی تھی پرسوں ہونے والی بارش میں بہہ گئی۔ جھٹ سے بولے میاں تنقید کرنا آسان ہے ٹھیکیداری کرکے دیکھو معلوم پڑجائے گا کہ کس بھائو پڑتی ہے یہ ٹھیکیداری۔
کون کون اپنا حصہ ایڈوانس وصول کرلیتا ہے۔ تقریباً تین عشرے ہوتے ہیں جب ایک اخبار میں ادارتی فرائض سرانجام دے رہا تھا تو ایک دن ایک سید ذات کے اعلیٰ افسر شکایت لے کر تشریف لائے۔ چائے پی چکے تو بولے آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ میرے سید بھائی ہیں۔ عرض کیا شکایت تو بتائیں۔
بولے آپ کے فلاں رپورٹر نے مجھے بلیک میل کرکے 25 ہزار روپے لئے ہیں متعلقہ رپورٹر کو اپنے کمرے میں بلاکر ان سے الزام کی بابت دریافت کیا۔ وہ بولے ان افسر صاحب نے 13 لاکھ روپے کمیشن لی ہے فلاں ٹھیکیدار سے جو ان کے محکمے کی ایک عمارت بنارہا ہے۔ کل انہوں نے چند صحافیوں میں عیدی تقسیم کی۔ مجھے چونکہ کمیشن کی اصل رقم کا پتہ تھا میں نے کہا شاہ جی میں 25ہزار سے کم نہیں لوں گا۔
اس جواب پر میں نے شکایت کنندہ سید زادے کی طرف دیکھا وہ رسان سے بولے شاہ جی ثابت ہوگیا نا کہ اس نے مجھے بلیک میل کرکے 25 ہزار روپے لئے ہیں ورنہ یہ بھی دوسروں کی طرح خاموشی سے 10 ہزار روپے لے سکتا تھا؟
کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہورہی ہے بہت ساری باتیں کسی اور وقت اور کالم کے لئے اٹھارکھتے ہیں۔ فی الوقت اتنا ہی کہ یہاں سب حاجی ثناء اللہ ہیں۔ بس طریقہ واردات مختلف ہے لیکن کرپٹ صرف سیاستدان ہیں رہے زرداری اور نوازشریف ارے اللہ توبہ ان کا تو کوئی جوڑ ہی نہیں کرپشن میں۔ رہے نام وقار بھیا اور اس دوسرے کا وہ تو سادھو سنت قسم کے لوگ ہیں۔