
چترال(گل حماد فاروقی): سیاحت کو فروغ دینے کیلیے غوچارکوہ سڑک کی دوبارہ تعمیر وقت کا اہم تقاضا ہے۔ وادی کیلاش اور شیخانندہ چونکہ جنگلات علاقہ ہے جہاں محکمہ جنگلات والوں نے ساٹ سال پہلے دیار کی قیمتی لکڑی لانے کیلیے غوچارکوہ سڑک بنایا تھا جو پہاڑ کے دامن میں کش کان ٹیک گاوں سے گزرتا ہے ۔ اس راستے میں گھنے جنگلات،کھلے میدان اور نہایت خوبصورت سیاحتی مقامات بھی موجود ہیں۔ جب نیچے دریا کے کنارے وادی کیلاش کیلیے راستہ بنایا گیا تو اوپر والے اس سڑک پر ٹریفک بند ہوا مگر پھر بھی موٹر سایکل سوار اور بعض سیاح پیدل اس سڑک پر سفر کرتے تھے۔ اب چونکہ وادی کی سڑک پرتوسیع اور تعمیر کا کام جاری ہے اور پہاڑ کی کٹای کی وجہ سے اکثر اوقات کیی گھنٹوں تک سڑک بند ہوتا ہے جس سے ٹریفک جام ہوکر مسافروں اور سیاحوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چترال کے معروف سماجی شحصیت اور ٹور آپریٹر میجر ریٹایرڈ شہزادہ سراج الملک اور مقامی شحص عبد الاکبر کا کہنا ہے کہ غوچارکوہ جیسے راستوں کو ملکی اور حاص کر غیر ملکی سیاح بہت پسند کرتے ہیں اگر یہ راستہ بن گیا تو وہ کبھی بھی نیچے والے سڑک پر سفر نہیں کریں گے بلکہ اسی سے گزریں گے کیونکہ آگے جاکر اس راستے میں نہایت وسیع میدان اور کیی سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ ان کے مطابق اگر غوچار کوہ والا راستہ بن گیا تو سیاح کبھی بھی دوسرے راستے پر نہیں جاییں گے۔ اسی سڑک پر آگے جاکر کش کان تیک گایوں میں دو سو سے زیادہ لوگ آباد ہہیں جن کو آنے جانے میں نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عبد الاکبر اور دیگر مقامی لوگ بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سڑک پر دوبارہ ٹریفک بحال کیا جایے تاکہ ان کو ضرورت کا سامان لانے میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
مقامی ماہرین کے مطابق غوچار کوہ کے سڑک پر معمولی خرچے سے ایک ہفتے کے اندر دوبارہ ٹریفک بحال ہوسکتا ہے جس سے نہ صرف م سیاحوں کو سفر کرنے کیلیے متبادل راستہ ملے گا بلکہ یہاں مقیم دو سو تیس لوگوں کو بھی آنے جانے میں آسانی ہوگی۔ واضح رہے کہ اس سڑک کی دوبارہ تعمیر سے آبپاشی کا وہ ندی بھی بحال ہوسکتی ہے جو صدر ایوب کے دور میں شیخانندہ سے غوچار کوہ گاوں لایا گیا تھا جس سے ہزاروں ایکڑ بنجر زمین بھی سیراب ہوسکے گا۔ غوچار کوہ کا یہ سڑک آیون سے شروع ہوتا ہے اور وادی بمبوریت کے سلطان اباد گاوں میں نیچے اتر کر مین سڑک سے ملتا ہے۔ غوچارکوہ سڑک پر دوبارہ رونقیں بحال ہونے سے سیاحت بھی فروغ پایے گا اور سیاحت کو ترقی دینے سے اس پسماندہ علاقے سے بھِی غربت اور بے روزگاری کا حاتمہ ہوسکے گا۔