پاکستان کی وکلا برادری نے سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط پر لیے گئے از خود نوٹس کو خوش آئند قرار دے دیا ہے۔
وکلا کا کہنا ہے کہ یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ عدلیہ مداخلت کرنے والے اداروں کے خلاف متحد ہو گئی ہے تاہم عدلیہ نے کمیونٹی کے دباؤ کے بعد از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کیا ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔
پیر کا دن عدالتی محاذ پر اچانک سرگرم ہوا اور یکے بعد دیگرے کئی ایک اہم پیشرفت سامنے آئیں جس نے ایک بار پھر صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
پہلے سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر از خود نوٹس لے کر سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔ ساتھ ہی حکومت کی جانب سے بنائے گئے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی سزا معطل کر دی۔
یکے بعد دیگرے ہونے والی اس پیشرفت کو جہاں وکلا برادری کا عدلیہ پر دباؤ قرار دیا جا رہا ہے وہیں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ماہر قانون کامران مرتضی کا کہنا ہے کہ اللہ کرے کہ سپریم کورٹ نے وکلا کی جانب سے ڈالا گیا دباؤ محسوس کیا ہو۔
’لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ چیزوں کو دوسرے طریقے سے سیٹل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یکے بعد دیگرے ہونے والی پیشرفت اس جانب اشارہ ہے کہ معاملات کو کسی دوسرے طریقے سے حل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ایسے واقعات تب ہی ہوتے ہیں جب چیزوں کو کسی اور طریقے سے حل کیا جا رہا ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کے پیچھے کئی ایک وجوہات ہیں جن میں خاص طور پر وہ وکلا برادری کا دباؤ ہے جنہوں نے پورے ملک میں فعال ہو کر کنونشنز کے ذریعے اور اس کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ کو خطوط کے ذریعے یہ باور کرایا کہ یہ عدالتی معاملہ ہے جسے عدالتی فورم پر ہی حل کرنا چاہیے اور سپریم کورٹ کو از خود نوٹس س لے کر خود جواب طلبی کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یقینا عدلیہ کے اندر بھی ایسی آوازیں موجود تھیں جو یہ چاہتی تھیں کہ صورتحال کو خود دیکھا جائے۔
’اس لیے از خود نوٹس کے پیچھے بہت ساری وجوہات ہیں لیکن یہ نوٹس لیا جانا ہی ایک اچھی شروعات ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو معلوم نہیں ہے لیکن اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ جسٹس تصدق جیلانی نے کمیشن کا سربراہ بننے سے معذرت نتیجتاً کی ہے انہیں پہلے دن ہی اس کمیشن کا سربراہ یا حصہ بننے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ عدلیہ ان اداروں یا عناصر کے خلاف متحد ہو گئی ہے جو عدالتی امور میں مداخلت کرتے ہیں تاہم از خود نوٹس کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی ہے جس سے کم از کم یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اس سارے معاملے میں جواب طلبی ضرور ہوگی۔
سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن صباحت رضوی ایڈوکیٹ نے کہا کہ عدلیہ نے اپنی برادری یعنی وکلا کا دباؤ قبول کیا ہے۔
’اگر وہ خود سے از خود نوٹس کا فیصلہ کرتے تو وہ پہلے ہی دن وزیراعظم کے پاس نہ جاتے بلکہ از خود نوٹس لے کر کاروائی شروع کر دیتے اور اب تک بات کافی آگے تک جا چکی ہوتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وکلا جب کھڑے ہوئے اور انہوں نے ملک گیر احتجاج اور تحریک شروع کی جس کے آغاز پر ہی اعلی عدلیہ کو یہ محسوس ہوا کہ وکلا اس صورتحال میں ان سے مختلف رائے رکھتے ہیں جس کے بعد از خود نوٹس لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحد ہوئی ہے یا نہیں یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ جن ججوں نے اپنا سب کچھ داؤں پر لگا کر آواز اٹھائی ہے انہیں انصاف ملے۔
لاہور میں وکلا کنونشن
دریں اثنا لاہور میں تحریک انصاف کے وکلا ونگ کی جانب سے بلائے گئے کنونشن سے خطاب میں وکلا رہنماؤں حامد خان، سلمان اکرم راجہ، لطیف کھوسہ وغیرہ نے اپنی تقریروں میں نہ صرف حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ کمیشن کے لیے ’ہاں‘ کرنے پر دبے اور کھلے لفظوں میں جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
سب سے پہلے صدر لاہور ہائی کورٹ بار اسد منظور بٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’چھ ججوں سمیت دیگر جج جو ضمیر کی آواز سن کر فیصلے دیتے ہیں وہ ہمارے ہیرو ہیں،ایسے باضمیر ججز ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، وکلا کی بڑی تعداد کنونشن میں شریک ہوکر اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔‘
سابق صدر عارف علوی کو بھی کنونشن میں خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں نےکہا کہ ’میں ایک عام شہری ہوں، میرے لیے پاکستان کا آئین بڑی اہمیت رکھتا ہے، ریاست مدینہ کا ذکر کیا تو لوگوں نے مذاق اڑایا، میری خواہش ہے پاکستان وہ بنے جس کی بنیاد قائد اعظم نے رکھی، جس کی بنیاد عمران خان نے رکھی، لوگوں کو انصاف دو خواتین کے ساتھ انصاف کرو، پاکستان میں کسی کو اثاثوں کا سوال کرو تو وہ کہتے ہیں بات یہاں سے شروع نہیں ہوتی، یہاں پر آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے،آپ کی اور آپ کی اولاد یا بیوی کی گفتگو ہو اور اس کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے۔‘
عارف علوی نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت حادثاتی طور پر آئی ہے،پاکستان میں جب تک انصاف کا بول بولا نہیں ہوتا تو تب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے،عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے اور عمران خان کو انصاف فراہم کیا جائے۔‘
سینیئر قانون دان حامد خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ سپریم کورٹ کو فوری طور پرججز کے خط پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے چیف جسٹس پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اتنے بڑے حادثے پر آپ نے وزیراعظم کو بلوا کر مشاورت کی، کیا کبھی ملزم سے بھی کسی نے مشورے کیے؟ آپ ملزموں کے ساتھ بیٹھ کر فیصلے کرتے ہو، ہائی کورٹ کے چھ ججز کو یقین دلاتا ہوں پورے پاکستان کے وکلا آپکے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
’لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے بھی خوف کی علامت میں ہورہے ہیں، جسٹس شاہد جمیل کا استعفیٰ اس کی واضح مثال ہے۔‘
سردار لطیف کھوسہ نے کہا ’چھ جج انصاف مانگ رہے ہیں اور آپ نے صرف ایک ریٹائرڈ جج کو ذمہ داری دے دی، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘
’چیف جسٹس پاکستان کو وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھا، چیف جسٹس پاکستان کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کی کورٹ میں ہائی پروفائل کیس زیر سماعت ہیں۔ اگر چیف جسٹس وزیر اعظم سے ملاقات کرے گا تو وہ کیسے میرٹ پر کیسوں کا فیصلہ کرے گا؟ میں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی ہے، کیا ہم آزاد ہیں؟‘