انٹرٹینمینٹ

مارلن برانڈو نے صرف 40 فلموں میں اداکاری کی لیکن ہر بڑے اداکار کا ان سے موازنہ کیا جاتا ہے

آج سے پورے 100 سال قبل آج ہی کے دن مارلن برانڈو نے اس دنیا میں اپنی آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد مارلن برانڈو سینیئر سیلز مین تھے اور کام کے سلسلے میں ہمیشہ شہر سے باہر سفر پر رہتے تھے.

آپ میں سے بہت سے لوگوں نے فلم ’گاڈ فادر‘ دیکھی ہو گی یا اس کے بارے میں سنا ہوگا۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جس نے دنیا بھر کی فلموں کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ گینگسٹر پر مبنی فلموں کا تصور ہی بدل ڈالا۔
اگرچہ یہ فلم 1972 میں ریلیز ہوئی تھی لیکن اس نے دنیا کو ایک ایسے اداکار سے دوبارہ روشناس کرایا جسے ہالی وڈ نے تقریباً مسترد کر دیا تھا کیونکہ وہ چالیس کی دہائی کے اواخر میں تھے اور کسی فلم ساز یا ہدایت کار کے قابو میں نہیں رہتے تھے، تاہم اس فلم میں انہوں نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا جو ان کی عمر سے دُگنا تھا۔
اس اداکار کا نام مارلن برانڈو ہے جنہوں نے اداکاری کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ہالی وڈ کے پہلے میتھڈ ایکٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
آج سے پورے 100 سال قبل آج ہی کے دن مارلن برانڈو نے اس دنیا میں اپنی آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد مارلن برانڈو سینیئر سیلز مین تھے اور کام کے سلسلے میں ہمیشہ شہر سے باہر سفر پر رہتے تھے.
ان کی والدہ کو تھیٹر میں دلچسپی تھی اس لیے وہ بھی اکثر دیر تک باہر ہی رہتی تھیں اور اس طرح برانڈو جونیئر ایک تنہا بچے کی طرح بڑے ہوئے جنہیں ہمیشہ دیکھ ریکھ کرنے والے کی کمی رہی اور وہ قدم قدم پر دنیا کے اُصولوں سے ٹکراتے رہے۔
امریکی ریاست نیبراسکا کے سب سے بڑے شہر اوماہا میں پیدا ہونے والے برانڈو جونيئر کی زندگی کی شروعات بہترین نہیں تھیں۔
ان کے والدین شرابی تھے اور وہ اپنے حاکمانہ مزاج رکھنے والے اور طعن و طنز کا نشانہ بنانے والے باپ کو حقیر سمجھتے تھے۔
جہاں ایک طرف انہیں اپنے والد کے تحکمانہ رویے سے نفرت تھی وہیں والدہ کی وجہ سے انہیں خواتین پر شدید عدم اعتماد تھا۔
اپنے باغیانہ رویے کی وجہ سے وہ کئی مڈ ویسٹرن ہائی سکولوں اور ایک ملٹری اکیڈمی سے نکالے جانے کے بعد اداکاری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1943 میں بھاگ کر نیو یارک چلے گئے۔
اگرچہ وہ اس وقت صرف 18 سال کے تھے لیکن وہ اداکاری کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ جب وہ چھوٹے تھے تو اپنی مدہوش والدہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے کردار ادا کرتے تھے۔
جب وہ نیو یارک میں میتھڈ ایکٹنگ کی ماہر استاد سٹیلا ایڈلر کی نظر میں آئے تو انہوں نے ان کے فطری غیرمعمولی فن کو پہچان لیا اور انہوں نے ہی مارلن برانڈو کو روسی جذباتی اداکاری سے روشناس کرایا جسے دنیا ‘’میتھڈ ایکٹنگ‘ کہتی ہے۔
’میتھڈ ایکٹنگ‘ کے معاملے میں انڈیا میں دلیپ کمار کا نام لیا جاتا ہے جو کردار کے اندرونی جذبات کو پردے پر پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
دلیپ کمار کو بالی وڈ کا مارلن برانڈو بھی کہا جاتا ہے لیکن معروف سکرپٹ رائٹر اور نغمہ نگار جاوید اختر نے ایک بار ان دونوں پر بات کرتے ہوئے ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ برانڈو سے پہلے دلیپ کمار نے انڈین سنیما میں میتھڈ ایکٹنگ کی بنیاد ڈال دی تھی۔
بہرحال مارلن برانڈو کو 1944 میں براڈوے پروڈکشن کے ایک ڈرامے ’آئی ریممبر ماما‘ میں پہلی بار کاسٹ کیا گیا اور یہ ڈرامہ بہت زیادہ کامیاب رہا۔
اس کے بعد انہوں نے ’اے فیلگ از بورن‘، ’کینڈیڈا‘، ’اینٹی گونی‘ اور ’اے سٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ جیسے ڈراموں میں اہم کردار ادا کیے اور داد اداکاری حاصل کی لیکن 1950 سے قبل انہیں فلموں میں کوئی موقعہ نہ مل سکا۔
سنہ 1950 میں انہوں نے ’دی مین‘ سے اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ اگلے سال ان کے کامیاب ڈرامے ’اے سٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ کو فلمی رُوپ دیا گیا جس سے انہوں نے اپنی پہچان بنائی کیونکہ اس کے لیے انہیں آسکر میں بہترین اداکار کے لیے پہلی بار نامزدگی ملی۔
پھر اس کے ایک سال بعد انہیں میکسیکو کے انقلابی رہنما ایمیلیانو زپاٹا کے کردار کو ادا کرنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اس کردار کو لازوال بنا دیا۔
مارلن برانڈو کی سوانح پر مبنی فلم ’مارلن برانڈو: دی وائلڈ ون‘ میں سیم شا کہتے ہیں کہ فلم ’ویوا زپاٹا‘ کی شوٹنگ سے پہلے مارلن برانڈو نے خفیہ طور پر میکسیکو کے اسی قصبے کا دورہ کیا جہاں انقلابی زپاٹا پیدا ہوئے اور رہتے تھے۔ وہیں برانڈو نے لوگوں کے بولنے کے انداز، ان کے رویے، حرکات کا مطالعہ کیا۔‘
اس کے بعد مارلن برانڈو نے تاریخی فلم ’جولیس سیزر‘ میں مارک اینٹونی کا کردار ادا کیا۔ بہت سے ناقدوں کو برانڈو کے الفاظ کے کھا جانے اور ان کی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے اس کردار کے ساتھ انصاف کی امید نہیں تھی۔
تاہم برانڈو نے جس فصاحت کے ساتھ اینٹونی کی معروف تقریر ’فرینڈز، رومنز، کنٹری مین۔۔۔‘ کو ادا کیا اس نے نہ صرف اس کردار کو بلکہ برانڈو کو بھی لازوال بنا دیا۔
سنہ 1955 میں ’فلم آن دی واٹر فرنٹ‘ کے لیے انہیں بہترین اداکار کے اکیڈمی ایوارڈ یعنی آسکر سے نوازا گيا حالانکہ اس سے قبل انہیں ’اے سٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘، ’ویوا زپاٹا‘ اور ’جولیس سیزر‘ کے لیے بھی بہترین اداکار کی کیٹیگری میں نامزدگی ملی تھی اور بیفٹا میں ان تینوں فلموں کے لیے انہیں بہترین اداکار کے اعزاز سے نوازا بھی گيا تھا۔
بہرحال سنہ 1960 کی دہائی میں برانڈو کے عروج کا سُورج ڈھلنے لگا۔ یہاں تک کہ انہیں ہالی وڈ کے 10 بڑے اداکاروں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا تھا، انہیں کام بھی ملنا بند ہو گيا تھا۔
تاہم پھر ’ڈان‘ ویٹو کورلیون کے کردار نے نہ صرف ہالی وڈ میں ان کی واپسی کو ممکن بنایا بلکہ ان کے ناقدین نے بھی ان کی اداکاری کا لوہا مان لیا۔
وہ ’دی گاڈ فادر‘ کے سیٹ پر یقیناً سب سے زیادہ بااثر اداکار تھے۔ جہاں ان کے سامنے ال پچینو، جیمز کین، جان کازیل اور رابرٹ ڈووال جیسے اداکار مسحور ہو کر بیٹھتے تھے جب وہ انہیں ہالی وڈ کے سنہرے دور کی کہانیاں سنا رہے ہوتے تھے۔
مذکورہ تمام اداکار اور گذشتہ 50 برسوں کے تمام مرد سکرین میتھڈ ایکٹرز جن میں رابرٹ ڈی نیرو بھی شامل ہیں، کسی نہ کسی طرح برانڈو کی مثالی اداکاری سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس فلم کے لیے انہیں ایک بار پھر اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن وہ اس ایوارڈ کو لینے نہیں پہنچے جس نے اسے اور بھی شہرت بخشی۔
انہوں نے دیسی امریکیوں جنہیں ریڈ انڈینز کہا جاتا ہے کے ساتھ ہونے والے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا۔ بہرحال اس فلم کو دنیا بھر میں متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
ہالی وڈ سٹار مارلن برانڈو نے 1967 میں پاکستان کا دورہ کیا تاکہ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ورائٹی شو میں پاکستانی فنکاروں کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے اس موقعے پر کراچی میں قائداعظم کے مزار پر حاضری بھی دی اور اسے ’دلکش عمارت‘ قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے لاہور کا بھی سفر کیا تھا جہاں انہوں نے ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا جہاں اب ان کے نام پر ایک کیفے بھی ہے۔ وہ بادشاہی مسجد لاہور بھی گئے تھے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے سفیر کی حیثیت سے انہوں نے انڈیا کے شہر پٹنہ کا بھی دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے قحط کا شکار افراد سے ملاقات کی تھی اور ایک فلم بھی شُوٹ کی تھی۔
اس دورے میں انہوں نے انڈیا کے معروف فلم ساز اور ہدایت کار ستیہ جیت رے سے بھی ملاقات کی تھی۔
برانڈو نے صرف 40 فلموں میں اداکاری کی لیکن ایک ایسا نقش چھوڑا کہ دنیا بھر میں ہر بڑے اداکار کا ان سے موازنہ کیا جاتا ہے۔
چنانچہ کبھی امیتابھ بچن کو مارلن برانڈو کہا جاتا ہے تو کبھی شاہ رخ خان کو تو کبھی جنوبی انڈیا کے سپرسٹار مموتی کو۔
بہرحال یکم جولائی 2004 کو امریکی شہر لاس اینجلس میں اس لڑکے نے اپنی آخری سانس لی جسے زندگی میں کوئی بھی قابو میں نہیں کر سکا تھا۔
انہوں نے تین شادیاں کیں اور ان کے کم سے کم 11 بچے بتائے جاتے ہیں جن میں سے تین کو انہوں نے گود لیا تھا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button