حیدر جاوید سیدکالمز

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ…. .حیدر جاوید سید

شاہ لطیف نے ابتدائی تعلیم سندھ کے اس عہد میں قائم اخوند نور محمد کی درسگاہ سے حاصل کی۔ ان کی تربیت ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو ایک مدت سے مہران وادی (سندھ) میں علم و عرفان کی شمع روشن کئے ہوئے تھا۔

شاہ لطیفؒ 1690ء بمطابق 1101ھ میں ہالا میں اپنے وقت کے مرجع خلائق سید حبیبؒ کے گھر پیدا ہوئے ان کے جد امجد حضرت سید میر علیؒ، امیر تیمور کے عہد اقتدار کے ہرات کے معزز اشخاص میں شامل تھے۔ سید میر علی اور ان کے فرزند سید حیدر شاہ امیر تیمور کے خاص مصاحبین میں شمار ہوتے تھے۔
سید میر علی کے بڑے صاحبزادے سید ابوبکر کو امیر تیمور نے سیوہان (سیون) سندھ کا حاکم مقرر کیا۔ بعدازاں سید میر علی بھی اپنے دوسرے فرزند سید حیدر شاہ کے ہمراہ عرب و وعجم کی سیاحت کرتے ہوئے سندھ آئے اور ہالا کے علاقہ میں شاہ محمد نامی زمیندار کے ہاں مقیم ہوئے۔
سید حیدر شاہؒ یہیں اپنے میزبان کی صاحبزادی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ شاہ لطیف کے والد سید حبیبؒ انہی سید حیدر شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ اس موسوی الکاظمی سادات خاندان کا شجرہ امام موسیٰ کاظمؒ کی نست سے امام جعفر صادق، امام محمد باقرؑ، امام زین العابدینؑ ، شہید مظلوم امام حسینؑ کے واسطے سے سید ابوالحسن امام علیؑ اور خاتون جنت حضرت سیدہ بی بی فاطمہ سلام اللہ سے جاملتا ہے۔
شاہ لطیفؒ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جس میں حضرت سید ہاشم اور حضرت سید جلال کاظمیؒ جیسے بلند پایہ بزرگ سندھ دھرتی میں اپنے انسان دوست افکار اور مخلوق خدا کی خدمت کے حوالے سے معروف ہوئے لیکن صدیوں کی بندش کو توڑتی ہوئی جو دائمی شہرت شاہ لطیف کو حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔
شاہ لطیف نے ابتدائی تعلیم سندھ کے اس عہد میں قائم اخوند نور محمد کی درسگاہ سے حاصل کی۔ ان کی تربیت ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو ایک مدت سے مہران وادی (سندھ) میں علم و عرفان کی شمع روشن کئے ہوئے تھا۔
یہی وجہ ہے کہ نوعمری میں ہی شاہ لطیفؒ کی خداداد صلاحیتوں کو ابھرنے کا بہت اچھا موقع اور ماحول میسر آیا۔ شعور کی منزل پر قدم رکھنے کے بعد انہوں نے سندھ، ملتان، ہند، ایران و افغانستان اور چند دوسرے علاقوں کا طویل مطالعاتی سفر کیا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے نہ صرف اپنے عہد کی نامور شخصیات، اہل دانش، علمائے کرام، شعراء اور دیگر سے ملاقات کی بلکہ ہر ملاقات میں ایک طالب علم کی حیثیت سے فیض پانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
(کاظمی سادات کے ایک بزرگ سید حیدر شاہ کاظمی کو دوامی شہرت سید مہدی جونپوری کی تحریک مہدویت کی مخالفت سے ملی۔ سید حیدرؒ ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مخدوم بلاولؒ کے ساتھ مل کر سندھ میں سندھیوں کے قومی اقتدار (سمہ حکمرانی) کو بچانے کے لئے حملہ آور ارغون بیگ کے خلاف بھرپور جدوجہد کی)
متحدہ ہندوستان میں کسانوں کی مالکی تحریک کے بانی حضرت شاہ عنایتؒ، مخدوم محمد معین ٹھٹھویؒ، مخدوم محمد، صاحب ڈنو فقیر، مخدوم محمد زمان الواری والے، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مدن بھگت او مخدوم عبدالرحیم گردیزی نہ صرف شاہ کے ہمعصر بزرگ تھے بلکہ شاہ لطیفؒ اپنی ان ہم عصر شخصیات سے مکالموں کے نتیجہ میں زندگی بھر دوٹوک انداز میں زمین زادوں کے فکری و سیاسی اور مذہبی استحصال کے شدید ناقد رہے
اسی لئے فرماتے ہیں ’’سب اپنے محبوب کے ذکر میں مصروف ہیں۔ سب کو حضوری بھی حاصل ہے اور ملک بھی ان کا۔ سب مل کر نعرہ منصور بلند کررہے ہیں تو کتنوں کو قتل کر کے کتنوں کو قتل کرے گا؟‘‘
یہ شاہ ہی تھے جنہوں نے ایک مرحلہ پر بدلتے ہوئے حالات کو بھانپ کر باآواز بلند کہا ’’طالبان حق کی آوازیں سنائی نہیں دے رہیں۔ صد حیف کہ دلوں کو زندہ کرنے والے لاہوتی سدھار ہوگئے‘‘۔ شاہ لطیف اپنے دم ساز دوست شاہ عنایتؒ کی طرح ملائوں کی ضد و ہٹ دھرمتی اور سندھی سماج کے لئے زہرقاتل بنتی فرقہ پرستی کے شدید مخالفت تھے۔
شاہ، انسان کے کسی بھی طور پر استحصال کو شدید ناپسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بزرگوں کے احترام کے قائل تو تھے لیکن احترام کو کاروبار بنالینے والوں سے شدید نالاں تھے۔ شاہ سمجھتھے تھے کہ
’’بزرگی کو کاروباربنالینے والے یہ نہیں دیکھتے کہ نذر نیاز چڑھانے والے مرید کے اپنے گھر میں کتنے پہروں سے چولہا نہیں جلا‘‘۔
وہ نفس سے جنگ کے علمبردار بن کر ابھرے اور اپنے سماج کو طمع و لالچ سے بے نیاز ہونے کی تلقین کرتے دکھائی دیئے۔ سندھی، عربی، فارسی، ہندی اور ملتانی زبانوں پر یکساں عبور رکھنے والے شاہ لطیفؒ اس فکر کے حامی تھے کہ ’’زمین اس کی جو کاشتکاری کرے‘‘۔
وہ طمع اور جمع پر یقین رکھنے والوں کو محبت، تقسیم اور مدد کا درس دیتے رہے۔ ان کی زندگی کا مقصد سندھی سماج کی اصلاح ٹھہرا اور انہوں نے ہمیشہ طبقاتی گراوٹ کو سماجی وحدت و امن کے منافی قرار دیا۔ سرمدی نغمہ الاپنے کا درس دینے والے شاہ لطیف نے خود بھی آخری سانس تک آزادی اظہار و افکار اور قومی آزادی کے تحفظ کا درس دیا۔
فرقہ واریت میں گردن تک دھنسے پیٹ پرست ملائوں کے وہ شدید مخالف تھے اسی لئے کہتے تھے
’’ملا نے جب باری تعالیٰ کی حقیقت کو جانا تو خودکشی کرلی‘‘۔ وہ رب العالمین ہے شاہ کہتے تھے ’’پھر وہ بالا دستوں پر کرم اور محکوموں کے حال سے عدم آگاہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘۔ شاہ نے ہی کہا تھا ’’میری روح کو شمس تبریز کے جھونکے سرشار کررہے ہیں‘‘۔ حضرت سید شمس تبریزؒ کےبقول :
عطار بنود خدا بود خدا بود
آں سر حقیقی خدا بود خدا بود
’’صوفیاء کا مذہب عشق ہے، ملائوں والی کدورت اور تنویت ان کے قریب نہیں پھٹکتی۔ انہیں ہر شے اور ہر جا میں محبوب اپنا جلوہ دکھاتا نظر آتا ہے۔ ان کا سر محبوب حقیقی کے حضور تو جھکتا ہے ملا کے بنائے ضابطوں پر ہرگز نہیں‘‘۔
بلاشبہ شاہ لطیفؒ ایک بلند پایہ قادرالکلام شاعر، فلسطفی، سالک اور ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر قائم معیارات کے شدید مخالف رہے۔ ان کاکہنا تھا ’’آزادی اور حق خود اختیاری ہر انسان کا حق ہے۔ آقاو غلام نہیں، انسان فقط انسان ہوتا ہے۔
شاہ کا کہنا تھا ’’کتابیں پڑھنے سے نہیں خدمت اور محبت سے کثافت دور ہوتی ہے جو اس حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں‘‘۔
شاہ لطیفؒ کا کہنا تھا ’’وہ تیرے خلاف جو کہتا ہے کہنے دے، پلٹ کر ویسا جواب نہ دے جارحیت میں پیش دستی کرنے والے کو بالآخر شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے‘‘۔ شاہ لطیفؒ امارت و سلطانی اختیار کرنے کی دوڑ کو وقت کا ضیاع قرار دیتے اور ہمیشہ تلقین کرتے ’’نفس پر قابو پائو، ہوا و ہوس سے دامن بچائو، ایک دوسرے کا احترام کرو، ایثار میں پہل کرو‘‘۔
وہ چاہتے تھے کہ دشمن سے بھی اس طور خطاب کیا جائے ’’تونے کمانمیں تیر تو کھینچ لیا، میرا نشانہ بھی لے لیا ہے مگر خبردار تیر نہ چھوڑدینا ۔ جان لو کہ میرے اندر بھی تم موجود ہو۔ ایسا نہ ہو تیرا وار تجھے ہی زخمی کردے‘‘۔
شاہؒ ہی کہتے دکھائی دیتے ہیں ’’ہم جس کی محبت میں پریشان تھے وہ تو ہم خود ہیں۔ اے وہم چلا جا کہ ہم نے اپنے محبوب کو پہچان لیا ہے‘‘۔
وہ جان چکے تھے کہ خودشناسی اور قربانی کا جذبہ ہی ایسے مثالی معاشرے کے قیام میں مدد دے سکتا ہے جو جبرواستحصال، ملائیت، مرید کے ٹھنڈے چولہے کے اوپر بچھی چارپائی پر بیٹھ کر شکر ریزی کرتے پیروں سے پاک ہو۔
ان کے خیال میں تعمیروترقی، خدمت خلق اور محبت و علم ہی امن و سلامتی کے ضامن ہیں۔ شاہؒ جان چکے تھے کہ ’’خود نہ رہے باقی پردے بھی دور ہوجائیں گے‘‘۔ ان کا کہنا تھا ’’جو لالچ نہیں چھوڑتا وہ معبود حقیقی تک نہیں پہنچ پاتا‘‘۔
شاہؒ کے خیال میں ’’ہجر اوررسوائی دونوں ایک جیسے ہیں۔ دونوں کا مقصد جان لئے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ عاشقکے لئے ان راہوں پر قیام کرنا ضروری ہے ‘‘۔
شاہ لطیفؒ کی شاعری کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے واقعہ کربلا کے علاوہ باقی ساری کہانیوں کے کردار سندھی سماج سے ہی لئے۔ شاہ لطیف وحدت الوجود کے داعی تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’سولی سچے عاشق کا سنگھار ہے، اس سے کترانا یا منہ موڑنا عاشقوں کے لئے باعث ننگ ہے، عاشق تو مردانہ وار مقتل کو سجاتے ہیں، ان کا تو شیوہ ہی قتل ہوتا ہے‘‘۔
شاہ نے ہی کہا تھا ” سولی جنگ کے لئے سنبھار ہے اور سر کٹ کر نیزہ پر چڑھ جائے تب بھی اقرار کا نغمہ لبوں کے ملاپ سے پھوٹتا ہے۔ یہ جھوٹے طلبگار شراب کی کیا باتیں کرتے ہیں۔ مے فروش چھری نکال کر ان کے سامنے رکھتا ہے تو خوفزدہ ہو کر پیچھے پلٹ آتے ہیں۔ جام پر جام تو صرف وہی لنڈھا سکتے ہیں جو اس راہ میں سر ہتھیلی پر لے کر آئے ہیں” ۔
"جو لوگ توکل کو اپنا تکیہ یا بھروسہ بنالیتے ہیں وہی دریائوں کے تیز دھاروں سے کامیابی کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ وہ سامان خرید جو رکھنے سے بوسیدہ یا خراب نہ وہ اور کسی بھی جگہ دیا جاسکے۔ جن کے دل محبت اور فراق سے ناآشنا ہوں وہ کس طرح منزل پر پہنچ سکتے ہیں”
شاہ لطیفؒ بھی سچل سرمستؒ کی طرح روٹی کے لئے اذان دیتے ملائوں کو شریعت کا ٹھیکیدار ماننے سے انکاری رہے۔ انہوں نے کیا خوب کہا
’’بندہ خالق سے علم، صدق، محبت ، قربانی اور توکل کے راستے مل سکتا ہو تو ملا کی ٹھیکیداری کیسی‘‘۔
نوٹ: اس کالم کے لئے شاہ لطیف بھٹائیؒ کے کلام کے اردو ترجمہ از شیخ ایاز اور پیغام لطیفؒ از مرشد جی ایم سید سے استفادہ کیا گیا)

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button