چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو پنجاب میں تقریباً 500 بچوں کے ہمراہ افطاری کرنے والی سارہ احمد نہ صرف اس بیورو کی چیئر پرسن ہیں بلکہ استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکن بھی ہیں۔
سارہ احمد 2019 سے اس بیورو کی سربراہی کر رہی ہیں۔ گذشتہ برس کے آخری مہینے میں انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سابق پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین سے ملاقات کرتے ہوئے باقاعدہ سیاست کا آغاز کیا۔
سارا احمد نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سیاست میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئی ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے ان کی کاوشوں کا اعتراف امریکہ نے بھی کیا اور گذشتہ دنوں انہیں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی جانب سے اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ’انٹرنیشنل وومن آف کریج‘ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔
یوں سارہ احمد یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئیں ہیں۔
اسی طرح حکومت پاکستان نے بچوں کے حقوق کے تحفظ، بچوں کے استحصال کی روک تھام اور بچوں کے لیے کی گئی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا۔
سارہ احمد اٹلی میں انٹرنیشنل کولیبوریٹو ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں جبکہ اقوام متحدہ میں انہوں نے بچوں کے حقوق پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔
سارہ احمد اپنے بیورو میں گذشتہ پانچ برسوں سے کام کر رہی ہیں اور یہاں یہ اُن بچوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں جنہیں ’بھکاری مافیا‘ اغواء کر کے ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگنے پر لگا دیتا ہے۔
ان کے مطابق پنجاب میں ’بھکاری مافیا‘ بہت مضبوط ہے اور ان کے خلاف کام کرنے کے دوران انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’مجھے اس پورے سفر میں شدید مشکلات کا سامنا رہا، لیکن دل میں یہی تھا کہ بچوں کے لیے کام کرنا ہے اور ان کی دعائیں لینی ہیں، اس لیے ہمت ملتی رہی۔‘
’ہم نے ہزاروں بچوں کو تشدد سے بچا کر تحفظ فراہم کیا۔ انہیں تعلیم دلوائی اور انہیں اپنے گھر والوں سے ملوایا اور بھیک مانگنے والے متعدد بچوں کو بیورو میں ری ہیب میں رکھا تاکہ ان کی مثبت ذہنی نشونما ہو سکے۔‘
انہوں نے 133 لاوارث اور نوزائیدہ بچوں کو ایسے گھرانوں کے حوالے کیا جہاں وہ بہترین ماحول میں پلے بڑھے۔ ان کے بقول ان بچوں میں کئی بچے اب لندن، دبئی اور سنگاپور سمیت دیگر ممالک میں ہیں۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سارہ احمد پنجاب اسمبلی میں جانے کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’میں نے اسمبلی جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ میں اپنے کام کو مزید بہتر کر سکوں اور بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کر سکوں۔ اسی مقصد کے تحت پنجاب اسمبلی کا رخ کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ آئی پی پی میں آنے کے لیے انہیں پارٹی نے خود پیشکش کی تھی۔
چیئر پرسن و رکن صوبائی اسمبلی سارہ احمد رمضان میں بیورو میں بچوں کے ساتھ افطار کرتی ہیں اور ایک سپیکر لگا کر بچوں کو مائیک دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا ما فی الضمیر تمام بچوں کے سامنے بیان کر سکیں اور انہیں اعتماد ملے۔
وہ ہر بچے سے مل کر دن بھر کی سرگرمیوں کے بارے میں دریافت کرتی ہیں۔ ہمارے انٹرویو کے دوران دو بچے گلاب کا پھول ہاتھ میں تھامے ان کے پاس آئے اور ان کو پھول پیش کر کے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
سارہ احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ سارے بچے مجھے ماں کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک خوبصورت چمک اور خوشی ہوتی ہے اور سب مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیے آتے ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ افطاری کر کے بہت خوشی ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اب پنجاب اسمبلی میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے قانون سازی کے لیے متحرک ہیں۔
’میری قانون سازی کا محور بچوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ اب میری کوشش ہے کہ اسمبلی میں کم عمری کی شادیوں پر قانون سازی کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔ ایسے بہت سارے قوانین ہیں جن میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی دو برسوں سے التواء کا شکار ہے، اب میں اس کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہوں۔ اس لیے میرا اسمبلی میں رہنا ضروری ہے۔‘
سارہ احمد بحیثیت چیئر پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو کوئی تنخواہ نہیں لیتیں۔ ان کے مطابق وہ اس عہدے پر بغیر معاوضے کے کام کر رہی ہیں۔
گذشتہ نگراں حکومت میں خبریں گردش کرتی رہیں کہ سابق نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کابینہ اجلاس میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا تھا، تاہم سارہ احمد کا کہنا ہے کہ ان خبروں میں صداقت نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’اگر ہماری کارکردگی بہتر نہ ہوتی تو ہمیں اتنے ایوارڈز نہیں ملتے اور ہمارا جب بھی کوئی مسئلہ آیا ہے نگراں حکومت نے ہماری بھرپور مدد کی۔‘ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ان کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا اور ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں ایوارڈ دیا۔ ’یہ ایوارڈ مجھے صرف بچوں کی دعاؤں کے عوض ملا ہے۔‘
پنجاب میں بھکاری مافیا سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب تک دو گینگز کو پکڑا ہے۔ ان کے بقول ’ہم نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے اور آگے بھی ان کے تمام نیٹ ورکس توڑیں گے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہوتا کیونکہ مجھے میرے ذاتی نمبر پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ہماری ٹیم کو بھی بہت مار پڑی ہے۔ ان گینگز کی طرف سے پتھراؤ کرنا اور گاڑی کے شیشے توڑنا تو نارمل ہوتا ہے۔‘
’ان مافیاز کے پاس بہت پیسے ہیں جو جب پکڑے جاتے ہیں تو مہنگے وکیل ہائر کر کے ہمارے ہی خلاف کیس کر دیتے ہیں۔‘
سارہ احمد کے مطابق ’ہماری اپنی عدالت ہے۔ جب ہم ان بچوں کو عدالت پیش کرتے ہیں تو ان کے پاس دن بھر کے دو ہزار روپے ہوتے ہیں اور یہ اپنے گینگز کو ہر مہینے کے 60 ہزار روپے تک دیتے ہیں۔‘