منظر یہ دل ویراں بدل جائے گا ……ناصف اعوان
کیونکہ لوگوں کا مزاج تمام تر کوششوں کے باوجود بدلا نہیں جا سکا بلکہ پختہ ہوا ہے لہذا اس صورت میں اگر سفر سیاست و حکمت ایک ہی سمت کو جاری رہتا ہے
ملکی سیاسی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور جو تبدیل ہو رہی ہے اس سے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچنے کا واضح امکان ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی آنے والے دنوں میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہو سکے گی۔چلیں یہ اچھی بات ہو گی کیونکہ اب تک یہ جماعت کافی صعوبتیں برداشت کر چکی ہے پکڑ دھکڑ سزائیں سب کچھ اس نے دیکھ لیا ہے اب شاید مزید اس کو قانونی گرفت میں لانے کا جواز باقی نہیں رہا کچھ بھی ہے ”سیاست رُت“ میں دھیرے دھیرے بدلاؤ آرہا ہے آنا بھی چاہیے کیونکہ لوگوں کا مزاج تمام تر کوششوں کے باوجود بدلا نہیں جا سکا بلکہ پختہ ہوا ہے لہذا اس صورت میں اگر سفر سیاست و حکمت ایک ہی سمت کو جاری رہتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ویسے بھی اب جب مطلوبہ اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں تو ”کانٹا“بدل لینا چاہیے ایسا ہو بھی رہا ہے جس سے حالات اپنے شہر کے بدلتے چلے جائیں گے۔عوام اب اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ حالت اضطراب میں رہیں انہیں بھی آگے بڑھنا ہے انہیں بھی پر سکون زندگی چاہیے تاکہ وہ مکی تعمیر وترقی میں اپنا کردار بھرپور طور سے ادا کر سکیں لہذا
فریقین کو چاہیے کہ وہ مل کر چلیں اور جو حزب اختلاف چاہتی ہے اگر اس میں کوئی سنجیدہ پہلو ہے تو حزب اقتدار کو ضرور غور کرنا چاہیے تاکہ ملک میں جو افرا تفری کا سماں ہے ختم ہو سکے اس سے عوامی بھلائی اور ملکی ترقی سے متعلق تمام پروگرامز جامد ہیں عوام کی اکثریت منتشرالخیال دکھائی دیتی ہے اور وہ ہر کام میں سطحی دلچسپی لے رہی ہے لہذا اہل اختیار کو اس رجحان میں کمی لانے کے لئے کچھ سوچنا ہو گا نفرت کی دیوار کے پیچھے رہ کر جیا تو جا سکتا ہے مگر جو مزہ محبت و الفت میں ہے اس کے کیا ہی کہنے لہذا اب ماحول میں موجود کشیدگی کو ختم کرکے اپنائیت کے جزبات ابھارے جائیں ۔
جاوید خیالوی کہتا ہے کہ جس طرح عالمی سطح پر تبدیلیاں آ رہی ہیں اس طرح ہمارے ہاں بھی امن پیار کے نغمے فضا میں بلند ہونے جا رہے ہیں . کیونکہ اب اس امر کی گنجائش نہیں کہ ملک میں مسلسل ایک ہی کیفیت رہے جو ہو بھی سیاسی اور اس میں ایک طغیانی سی ہو لہذا اب سیاسی منظر تبدیل ہو رہا ہے تو یہ ایک نیگ شگون ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ موجودہ حکومت جو ” ناپ تول “کر وجود میں آئی ہے اور کہا گیا ہے کہ معیشت ٹھیک ہو جائے گی خارجہ پالیسی کو بہتر بنایا جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بغیر صورت حال میں مطلوبہ تبدیلی نہیں آ رہی معاشی حالت درست ہونے کی فی الحال توقع نہیں کی جا رہی اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی استحکام نہیں آ رہا بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے باہر گئے پاکستانی اپنا پیسا بہت کم بھجوا رہے ہیں آئی ایم ایف ”دھکا سٹارٹ“ حکومت کو قرضہ اپنی سخت ترین شرائط پر دے رہا ہے اگرچہ وہ پہلے بھی قرضہ اپنی شرائط پر ہی دیتا ہے مگر اب کی بار بہت سخت ہیں کہ وہ بجلی کی قیمت لگا تار بڑھوا رہا ہے گیس کے قیمت میں بھی اضافہ کروائے جا رہا ہے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لوگوں میں ان کو ادا کرنے کی سکت نہیں مگر پھر بھی وہ ادا کر رہے ہیں اور احتجاج نہیں کر رہے ؟
ہم معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ ہمیں عوام کے رویے پر افسوس ہے کہ وہ کسی اضافے پر آہیں تو بھرتے ہیں مگر عملاً شور نہیں مچاتے جو ان کا آئنی اور قانونی حق ہے پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک روز سب ٹھیک ہو جائے گا ان کی اس سوچ کی بنا پر حکومت کسی خوف سے آزاد ہو گئی ہے لہذا وہ ”رگڑے پے رگڑا“ دئیے جا رہی ہے اور کہتی ہے کہ ایسا وہ آئی ایم ایف کے کہنے (حکم) پر کر رہی ہے اسے کیوں یہ معلوم نہیں کہ جب وہ غیر عوامی فیصلے کرتی ہے تو اس کی مقبولیت جو پہلے ہی نچلے درجے پر پہنچ چکی ہے مزید نیچے چلی جائے گی بلکہ جا چکی ہے مگر اسے اس کی فکر نہیں شاید کیونکہ وہ خاص لوگوں کی جماعت بن چکی ہے جسے عوام کی ضرورت نہیں رہی؟ خیر وطن عزیز کو ایک مضبوط اور بلند حوصلہ عوامی لیڈر کی جتنی ضرورت اس وقت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ مگر حیرت ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی اور حکومتی گاڑی رواں رکھنے کے لئے پورا زور لگایا جا رہا ہے ؟
بہر کیف وقت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حقائق آشنا ہونے کی کوشش کریں ۔اگر پی ٹی أئی کے مطالبے پر چند حلقے کھول لئے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں جب دوسرا فریق جیتا ہے تو اسے کوئی غم نہیں ہونا چاہیے مگر سچ یہی ہے کہ دال میں کالا ہے لہذا حکومت اس کا مطالبہ ماننے کو تیار نہیں تو پھر وہ بھی چین سے بیٹھنے کے لئے آمادہ نہیں؟ایسا لگتا ہے کہ یہ رولا یا تو چند ماہ کے بعد ختم ہو جائے گا یا پھر ایک عرصے تک جاری رہے گا کیونکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت ملک کے جو قیمتی ترین اثاثے بیچ کر معیشت کو عارضی طور سے سنبھالا دینے کا ارادہ رکھتی ہے اس سے ایک اور طرح کا طوفان برپا ہو سکتا ہے کیونکہ نجی انتظامیہ اپنا مفاد دیکھے گی عوام کا نہیں ویسے ایک بات ہے عوام اب ہر طرح کی سختیوں بے وفائیوں دشواریوں مہنگائیوں اور ٹیکسوں کی اذیتوں کے عادی ہو چکے ہیں لہذا آئی ایم ایف ہو یا حکومت ان کو یقین ہو چلا ہے کہ ان کو چیلنج کرنے عوام سڑکوں پر نہیں آئیں گے مگر یہ بات سو فیصد درست نہیں کیونکہ آخر کار برداشت ختم ہو جایا کرتی ہے اور تنگ آمد بجنگ آمد ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے لہذا اقتدار والوں کو اپنے ”اقدامات“ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔وہ جو آئے روز نئے نئے ٹیکس لگا رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کرتے ہوئے بجلی کے قیمت میں آنکھیں بند کرکے اضافہ کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ انتہائی بے چارگی کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے پاس تو اب دوا خریدنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنا پیٹ پالیں کہ دوا لیں مگر انہیں( حکمرانوں) تو بس اپنا اقتدار عزیز ہے اور وہ دولت جو ڈھیروں جمع کی جاچکی ہے لہذا عوام جس طرح بھی جئیں جیسے بھی خزانہ بھریں حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں وہ سیاست سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں اپنے سیاسی حریفوں کو الجھانے اور جھکانے پر ہی اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں جبکہ ملک کو معاشی حوالے سے ایک قومی یکجہتی کی ضرورت ہے مگر سب بکھرے ہوئے ہیں اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں ایک کی خواہش ہے کہ اس چمن میں وہی اٹھکیلیاں کرے دوسرے کی آرزو ہے کہ وہی اس میں گھومے پھرے جبکہ یہ چمن سب کا ہے اس میں ہر کسی کا حصہ ہے اور اس کی یہ ذمہ داری کہ وہ اسے سنوارے مہکائے مگر افسوس ایک آپا دھاپی ہے سب کواپنی اپنی پڑی ہوئی ہے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اس ”حسن سلوک “ سے عوام میں ان کے خلاف غم وغصہ پایا جانا فطری ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ انہیں ستتر برس کے بعد بھی ان کے خوابوں کی تعبیر نہیں مل سکی مگر حکمران طبقے کو ہر آسائش میسر ہے ہر سہولت حاصل ہےاور وہ پستے چلے جا رہے ہیں ان کے دل کی دھڑکنیں ہر آہٹ پر تیز ہو جاتی ہیں مگر وہ بھول رہے ہیں کہ اب سوچ لہر ابھر چکی ہے کہ جس نے منظر دل ویراں کو بدل دینا ہے !