مشرق وسطیٰ کی خواتین کو گولف میں بااختیار بنانے کا عزم
عرب نیوز کے مطابق گولف کی ترقی کے لیے امریکہ کے معروف اداروں میں سے ایک گولف ٹیک کا آغاز دبئی کے سٹی واک میں 2023 سے ہی ہو چکا ہے۔
دبئی میں قائم گولف کوچنگ سنٹر ’ گولف ٹیک‘ کی سعودی مالکن 31 سالہ حیا غسان السلیمان نے مشرق وسطیٰ میں گولف کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق گولف کی ترقی کے لیے امریکہ کے معروف اداروں میں سے ایک گولف ٹیک کا آغاز دبئی کے سٹی واک میں 2023 سے ہی ہو چکا ہے۔
گولف ٹیک ادارہ ابتدائی طور پر 1995 میں ڈینور، کولوراڈو، کنٹری کلب میں قائم کیا گیا تھا جس کے بعد سے یہ دنیا بھر میں ایک خاص نام بن گیا ہے۔
گولف ٹیک میں 800 سے زائد گولف کوچز چھ مختلف ممالک کے 210 سے زیادہ مقامات پر تربیت فراہم کر رہے ہیں تاہم مشرق وسطیٰ میں اس کی پہچان ابھی کم ہے۔
حیا غسان متحدہ عرب امارات اور وسیع خطے میں اس کھیل کو زیادہ سے زیادہ خواتین میں روشناس کرانے اور بااختیار بنانے کا عزم رکھتی ہیں، یہ کھیل طویل عرصہ سے مرد کھلاڑیوں کے دائرہ کار میں دیکھا جارہا ہے۔
حیا غسان کا کہنا ہے کہ مردوں کی بالادستی والے کھیل میں واحد خاتون ہوں اور اس سے قبل مملکت میں والد کی آٹوموٹو ڈیلرشپ میں 200 سے زائد مرد کارکنوں کے ساتھ واحد خاتون کے طور پر کام کر چکی ہوں۔
قبل ازیں سعودی عرب میں پلی بڑھی حیا غسان ہمیشہ موسم گرما میں اپنے خاندان کے ساتھ کیلیفورنیا میں چھٹیاں گزارتی تھیں اور اپنے والد کے ساتھ باقاعدگی سے ٹینس کھیلتی تھیں۔
حیا غسان نے بتایا کہ ٹینس کھیلتے ہوئے جب میرے والد کا گھٹنا زخمی ہوا تو میں نے گولف کا رخ کیا اور یہ کھیل سیکھنا شروع کر دیا۔
اس کھیل کے لیے میرے والد نے حوصلہ افزائی کی اور میری بہن بھی اس کھیل میں میرے ساتھ شریک ہو گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ میری بہن نے والد کے ساتھ رہتے ہوئے اس کھیل میں دلچسپی ظاہر کی اور ہم نے گولف ٹیک میں تربیت حاصل کرنا شروع کی۔
بعدازاں انہوں نے 2014 سے موسم گرما کی تعطیلات کے دوران کیلیفورنیا میں گولف کھیلنا شروع کر دیا۔
ہمارا معمول تھا کہ گولف ٹیک سے ایک یا دو کلاسز میں تربیت حاصل کرنے کے بعد گراؤنڈ میں اس پر زیادہ سے زیادہ پریکٹس کی جائے۔ جس کے بعد گولف کورٹ میں جا کر کھیلنا ہمارا معمول بن گیا۔
انہوں نے عالمی وبا کورونا کے بعد دبئی میں اپنے والد کے کاروبار میں شریک ہونے کے بعد مشرق وسطی میں گولف ٹیک کی پہلی برانچ کھولی اور خواتین کو اس کھیل میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دہائی قبل سعودی عرب میں خواتین کے لیے گولف کا تصور بھی نہیں تھا جب کہ سعودی وژن 2030 کے تحت متعدد سماجی اصلاحات کی بدولت گولف اور دیگر کھیلوں میں خواتین حصہ لے رہی ہیں۔