کالمزناصف اعوان

کوئی حیرانی سی حیرانی ہے

لاٹھی، تلوار اور بندوق تھمانے سے پہلے نتائج مدنظر نہ رکھنے والوں کو بعد میں منہ بسورنے کی بجائے منہ پیٹنا چاہیے وہ بھی دونوں ہاتھوں سے۔

اب پھر حسب الحکم بجلی دو تین روپے مہنگی کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک اس پر عمل درآمد ہو چکا ہوچند روز پہلے پٹرول مہنگا کر دیا گیا یہ سب احکامات جو آئی ایم ایف دیتا ہے ماننے سے کیا حکومت کو سوائے اقتدار کے استحکام کے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟نہیں ہرگز نہیں۔
اسے سوچنا چاہیے کہ وہ جو وعدے کرکے اقتدار میں آئی ہے اس پر جب عمل درآمد ہو گا تو لوگ اسے کیسے قبولیت بخشیں گے اور جو عوام میں غیر مقبول ہو اس کا اقتدار بھی آخر کار ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے پھر خلیل خاں فاختہ اڑانے کے قابل نہیں رہتے۔
کوئی حیرانی سی حیرانی ہے کہ آئے روز کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور غریبوں کی ”تمبی“ (دھوتی) اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ اسے سنبھالتے ہوئے دوڑے پھر رہے ہیں کچھ بولتے ہیں تو محکمہ پولیس ان کی خبر لینے آدھمکتا ہے۔ وہ کریں تو کیا جائیں تو جائیں کہاں ؟
ان پر زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے مگر اہل اختیار خوب مزے کر رہے ہیں لمبی لمبی گاڑیاں اربوں کھربوں کی جائیدادیں بیرونی ممالک میں محل کارخانے فیکٹریاں اور ملیں ان کی ملکیت ہیں ۔عیش ہی عیش ہے ان کے لیکھوں میں اور رسوائیاں ہوائیاں محکوم لوگوں کے حصے میں ۔ ان کا حق چھین کر اپنے گالوں پر لالیاں لاتے ہیں حکمرانی کرتے ہیں پھر خود کو مدبر اہل دانش اور اہل علم بھی ظاہر کرتے ہیں ۔
کسی کی تجویز کی طرف دیکھنا بھی انہیں گوارا نہیں کہتے ہیں کہ یہ تو ”اُلو باٹے“ ہیں ان کا کیا ہے کبھی کبھی تو واقعی یہ ”ألو باٹے“ ہی لگتے ہیں کیونکہ جب ان سے انتخابات میں یہ لوگ (حکمران طبقہ) ووٹ مانگنے آتے ہیں تو یہ ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں گلے ملتے ہیں پورے جوش سے ہاتھ ملاتے ہیں اور کئی کئی روز ان کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے اُڑے اُڑے جاتے ہیں ان کی مسکراہٹوں کو اپنی آنکھوں میں بسائے رکھتے ہیں مگر مجال ہے ان سے کوئی شکوہ کریں بس اسی پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ وہ چل کر ان کے پاس آگئے مگر انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد وہ کہیں دور چلے جائیں گے اور چمڑی ادھیڑ پروگراموں کا آغاز کر دیں گے؟
اور پھر قومی دولت سمیٹ کر ایسے ملکوں میں جا بسیں گے جہاں زندگی سہل ہے تفکرات سے آزاد ہے پُرسکون ہے اور آزاد ہے۔ اگر ان کااسی طرح آنا جانا رہے گا تو یہ سادہ لوح ذلتوں کی دلدل میں دھنستے رہیں گے۔ہم لکھنےوالے ان کے ترجمان تو بنتے ہیں ان کے دکھوں کا رونا تو روتے ہیں مگر ان کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے ۔اب تو جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر تواتر کے ساتھ افسانہ لکھنا شروع کر دیں کم از کم اپنی تسکین تو ہو گی کالم نگاری میں تو خون ہی جل رہا ہے۔
بہر حال کہتے ہیں جب مزاج میں حساسیت زیادہ ہو تو دوسروں کی تکالیف دیکھی نہیں جاتیں لہذا حکمران طبقہ جب بھی کوئی عوام مخالف پالیسی بناتا ہے تو ہم قلم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں یعنی ہماری یہ مجبوری ہے اور شاید حکمرانوں کی بھی مجبوری ہے کہ وہ عوام کی جیبیں خالی کرکے آئی ایم ایف کا خزانہ بھرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اقتدار بچانا ہے لوگوں کے دل جیتنا نہیں یونہی حیات کا یہ چکر چلتا رہے گا اور لوگ بیتے دنوں کو یاد کرکے گزارا کریں گے ؟ جد وجہد کا راستہ انہیں نہیں معلوم تھوڑا بہت دکھایا بھی گیا مگر دکھانے والوں کو برا بھلا کہا گیا حکمراں مشینری نے انہیں اپنے زہریلے پراپیگنڈے سے کونوں کھدروں میں دھکیل دیا آوازیں اب بھی کہیں کہیں سے اٹھتی ہیں مگر وہ صحرا میں دی گئیں صدائیں ثابت ہوتی ہیں کہ وہاں کون سنتا ہے۔ اگرچہ اس وقت ایک آواز جو خاصی توانا ہے بلند ہو رہی ہے کہ جئیں گے تو اپنی مرضی سے چلیں گے توبھی اپنی خواہش کے مطابق مگر اہل اختیار نہیں سن پا رہے انہی شاید کوئی اندیشہ لاحق ہے جبکہ ایسا نہیں ان مفلوک الحالوں سے کوئی ایک بار ہنس کر مل لے ان کی معمولی خدمت بھی کر دے تو یہ زندگی بھر نہیں بھولتے یہ اس کے صدقے واری جاتے ہیں مگر حکمرانوں میں یہ سوچ پیدا نہیں ہو رہی وہ زورِ بازو سے اپنی حثیت منوانا چاہتے ہیں جو اب ممکن نہیں یہ درست ہے کہ ابھی سادہ لوح بہت ہیں مگر شعور کی وادی میں داخل ہونے والوں کی بھی کمی نہیں جو اپنا حق مانگتے ہیں اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتے ہیں لہذا اس نظام کہنہ کو رد کر رہے ہیں ایک نئے انسان دوست نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی حکمت عملیاں اختیار کی جا رہی ہیں کبھی لاٹھی اور کبھی زنداں کا خوف ان پر طاری کر دیا جاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ حکمرانوں اور عوام کے مابین باقاعدہ ایک محاذ قائم ہو چکا ہے ؟
لوگ تو ستتر برس سے اس آس میں تھے کہ ان کے دن پھریں گے مگر نہیں پھرے کیونکہ دن پھیرنے والے حکمران ہی نہیں آئے جو آئے قرضے لے لے کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے قومی خزانہ چاٹ گئے دیکھ لیں اب ہر ایک چیز مہنگی کر دی گئی ہے ان کاہاتھ اضافوں سے پیچھے ہی نہیں ہٹ رہا وہ یہ بات سمجھ ہی نہیں پائے دیکھ ہی نہیں پائے کہ کوئی ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے انہیں دکھائی ہی نہیں دے رہا کہ باغ اجڑ رہا ہےوہ مست ہیں اس پر ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ انہیں عوام سے ہمدردی ذرابھی نہیں لہذا ”اُلو باٹوں“ کو بھی ہوش میں آجانا چاہیے وہ اپنے نمائندوں پر پھول برسانا اس وقت تک بند کر دیں جب تک وہ ان کے لئے راحتوں کے سامان کا بندوبست نہ کر دیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ستتر برس کے بعد ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں جا کھڑے ہوتے کہ ہمیں اب تک امدادیں اور قرضے بہت ملتے رہے ہیں ہمارے اپنے وسائل بھی اتنے تھے اور ہیں کہ جن سے ہم غربت کے عفریت کو مضبوطی سے قابو کر سکتے تھے مگر نہیں کیا گیا چند گھرانوں چند خاندانوں اور چند با اختیار نے اپنا پیٹ بھر نا ضروری سمجھا ۔افسوس صد افسوس۔اب جب لوگ اذیت و مشکلات سے دوچار ہیں کراہ رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں جینے کا حق دیا جائے تو ان کا یہ مطالبہ حکمرانوں کی طبع نازک پے گراں گزرتا ہےوہ خفا ہو جاتے ہیں اور پھر ہر سو جانا انجانا خوف پھیلا دیتے ہیں مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ و مغرب کے حکمرانوں نے لوگوں کو طویل عرصے تک دبائے جھکائے رکھا تو بیداری کی لہر نے انہیں تبدیل ہونے پر مجبور کر دیا اب وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہیں وہ ایک خواب آگیں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ہاں استحصالی نظام حیات کی چھائی تاریکی میں روشنی کی ایک موہوم سی کرن نظر آرہی ہے اگرچہ حکمران طبقات اسے واضح ہونے سے روک رہے ہیں مگر ارتقا رُکتا نہیں لہذا ہمارے کرتاؤں دھرتاؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی انسان دوست پالیسیوں سے سٹیٹس کو ختم کرنے کی راہ پر آئیں تاکہ کسی انقلاب کو جنم لینے سے روکا جا سکے جو جب آتا ہے تو منظر بدل جاتے ہیں پس منظر بدل جاتے ہیں ۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button