
اسلام آباد (تحقیقی رپورٹ + ایجنسیز) – پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں 19 پاکستانی سپاہیوں کی شہادت نے نہ صرف ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ عالم اسلام کے اہم اور بااثر ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور ترکیہ نے نہ صرف ان واقعات کی سخت مذمت کی ہے بلکہ پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور امن کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا بھی اظہار کیا ہے۔
یہ حملے اس وقت سامنے آئے جب پاکستانی فوج نے افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کئی انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کا آغاز کیا تھا۔ ان آپریشنز کے دوران 45 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا، تاہم 19 سپاہی بھی شہید ہوئے، جن میں اکثریت جنوبی وزیرستان اور لوئر دیر میں شہید ہونے والے جوانوں کی ہے۔
خونریز جھڑپیں: جنوبی وزیرستان اور لوئر دیر میں بڑا جانی نقصان
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، سب سے شدید جھڑپ جنوبی وزیرستان میں ہوئی، جہاں پاکستانی طالبان (TTP) سے منسلک دہشت گردوں نے ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا۔ اس جوابی کارروائی میں 13 دہشت گرد ہلاک کیے گئے، لیکن 12 پاکستانی سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا۔
مزید برآں، 11 ستمبر کو ضلع لوئر دیر میں ایک خفیہ انٹیلیجنس آپریشن کے دوران 10 دہشت گرد مارے گئے، تاہم اس کامیاب آپریشن کی قیمت بھی پاکستانی فوج کو 7 جوانوں کی شہادت کی صورت میں چکانی پڑی۔
ان واقعات کے نتیجے میں سیکیورٹی اداروں نے علاقے میں آپریشنز کو مزید تیز کر دیا ہے، اور فوجی ذرائع کے مطابق، آئندہ دنوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں "مزید شدت کے ساتھ” کی جائیں گی۔
بین الاقوامی ردعمل: عالم اسلام پاکستان کے ساتھ
ان دلخراش واقعات پر سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"ہم ان بزدلانہ دہشت گرد حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں، اور شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ سعودی عرب ہر صورت میں پاکستان کے ساتھ ہے۔”
متحدہ عرب امارات نے بھی اسی نوعیت کا بیان جاری کرتے ہوئے کہا:
"امارات دہشت گردی کے ہر قسم کے عمل کو مسترد کرتا ہے، خاص طور پر وہ جن کا مقصد پاکستان کی سالمیت اور امن کو مجروح کرنا ہو۔”
کویت کی وزارت خارجہ نے بھی پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کے لیے دعا اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی خواہش ظاہر کی۔ قطر اور ترکیہ کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں بھی پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون اور حمایت کا اعادہ کیا گیا، اور دہشت گردی کو "انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا مؤقف: پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے سی ایم ایچ بنوں کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے زخمی فوجیوں کی عیادت کی اور ان کے بلند حوصلے کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"افغان حکومت کو اب فیصلہ کرنا ہو گا: یا وہ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو، یا دہشت گردوں کے ساتھ۔”
وزیراعظم کا یہ سخت بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان ایک عرصے سے طالبان حکومت پر الزام عائد کر رہا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر شدت پسند گروہوں کو افغان سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے۔
افغان حکومت کا ردعمل: پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار
افغان طالبان نے حسب روایت ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جا رہا، اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق "اندرونی سیکیورٹی چیلنجز” سے ہے۔
البتہ زمینی حقائق اور حملوں کی نوعیت، نیز دہشت گردوں کے افغان سرزمین سے پاکستان میں داخل ہونے کی اطلاعات، پاکستان کے مؤقف کو تقویت دیتی ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تو یہ دو طرفہ تعلقات کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔
تجزیاتی جائزہ: خطے میں بڑھتا سیکیورٹی بحران اور پاکستان کے لیے چیلنجز
دفاعی اور خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق، پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر اس بات کا اشارہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، داعش خراسان اور دیگر گروہ ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ ریاستی کمزوری ظاہر کرنا اور عوام میں خوف پھیلانا بھی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کی قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب افغان طالبان بھی عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں اور داخلی سیکیورٹی بحران سے دوچار ہیں۔
نتیجہ: عالمی حمایت اور داخلی اتحاد کی ضرورت
موجودہ حالات میں پاکستان کو نہ صرف داخلی سطح پر سیاسی و عسکری اتحاد درکار ہے، بلکہ عالمی سطح پر سفارتی حمایت بھی ناگزیر ہو چکی ہے۔ سعودی عرب، ترکیہ، قطر، امارات اور کویت کی طرف سے بر وقت یکجہتی قابل قدر ہے، لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان:
علاقائی ممالک کے ساتھ انسداد دہشت گردی تعاون کو وسعت دے؛
افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی میکانزم پر ازسرِ نو بات چیت کرے؛
اور انٹیلیجنس شیئرنگ اور بارڈر مینجمنٹ کو نئی حکمت عملی کے ساتھ استوار کرے۔
عوامی سطح پر بھی ضروری ہے کہ افواج پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، تاکہ دشمن کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے، جو اپنے دفاع، امن اور خودمختاری کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔
رپورٹ: نیوز ڈیسک | تجزیہ: ادارہ خصوصی امور | ماخذ: وزارت خارجہ، آئی ایس پی آر، بین الاقوامی نیوز ایجنسیز