گورونانک مہاراج کے حضور….حیدر جاوید سید
کتابی روایات کے مطابق ’’گورونانک مہاراج‘‘ نے چھ سال کی عمر میں سنسکرت و ہندی اور پھر گیارہ سال کی عمر میں عربی و فارسی کی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ ان زبانوں پر عبور حاصل کرچکے تھے‘‘۔
’’اے سورج، چاند، اے دن ہمارے لئے تو ہی جنت ہے تو ہی جہنم۔ تیرے لئے گناہ چھوڑنا گناہ ہے۔ تجھ سے عار خود سے عار ہے ، تیرے لئے لوگ ہر عذر چھوڑدیتے ہیں لیکن وہ جس کے پاس کوئی عذر ہی نہ ہو؟‘‘ حسین بن منصور حلاج شہیدؒ،
طالب علم کے دل و دماغ پر شہید حسین بن حلاجؒ کی یادوں نے عین ان سموں دستک دی جب گزشتہ دوپہر گورونانک مہاراج کے حضور حاضری کے لئے گوردوارہ کرتار پور کے صحن میں قدم رکھتے وقت ان کی آخری آرام گاہ پر نگاہ پڑی۔
متحدہ برصغیر کے شیخوپورہ کے علاقے ننکانہ صاحب کے مضافات میں جنم لینے والے گورونانک مہاراج نے ایک نئے دھرم کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ صلح کُل، ایثار اور محبت کے داعی تھے۔ انہوں نے ا پنے عہد کے ہندو سماج کی چھوت چھات، رجعت پسندی اور دیگر سماجی خرابیوں کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ کُل کی خیر کی صدا لگائی۔
کتابی روایات کے مطابق ’’گورونانک مہاراج‘‘ نے چھ سال کی عمر میں سنسکرت و ہندی اور پھر گیارہ سال کی عمر میں عربی و فارسی کی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں وہ ان زبانوں پر عبور حاصل کرچکے تھے‘‘۔
گورونانک ہی کہتے ہیں
’’جو اس کی رضا جان لیتا ہے وہ تکبر کا شکار نہیں ہوتا‘‘۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، میں عزیزم سید تجمل حسین نقوی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھ طالب علم کے لئے زحمت اٹھائی اپنی دفتری مصروفیات میں سے وقت نکال کر لاہور سے کرتارپور لے گئے ان کی بدولت ہی عزیزم سید معصوم بخاری (مومی بخاری) سے ملاقات ممکن ہوئی۔ مومی بخاری کے ہمراہ ان کے دوست میاں عدنان بھی تھے۔
نارووال سے کرتارپور پور روانگی کے وقت پانچویں مسافر ظہیر بابر بیگ ایڈووکیٹ تھے۔ یہ نوجوان اور ہنس مکھ قانون دان نارووال میں وکالت کرتے ہیں۔
عزیزم سید تجمل حسین نقوی کی بدولت ہی یہ سہولت رہی کہ بہت زیادہ پیدل چلنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی۔ مومی بخاری اور میاں عدنان کا بطور خاص شکریہ کے وہ زحمت کرکے ظفر وال سے نارووال آئے اور لگ بھگ چھ گھنٹے ہمارے ساتھ رہے ان سے مختلف موضوعات پر خوب گپ شپ ہوئی۔
میاں عدنان کے سوالات عصری سیاست اور ملکی معیشت کے حوالے سے تھے۔ ایک شاندار دن جو نارووال میں بسر ہوا بھلے اور اجلے دوستوں سے ملاقات کے علاوہ کرتار پور میں بابا گورونانک مہاراج کے حضور حاضری کی سعادت طالب علم کو اور کیا چاہئے
نصف صدی سے اس بات پر ایمانِ کُل کی طرح قائم ہوں کہ ’’مطالعے مکالمے ، کتابوں اور دوستوں کے سوا زندگی کچھ بھی نہیں‘‘۔
ہندو خاندان میں جنم لینے والے نانک (گورونانک مہاراج) کے والد کا نام لالو مہتا تھا۔ اپنے دوست ، ساتھی اور فکری معاون بھائی مردانہ کے ساتھ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ فارس ( ایران ) حجاز مقدس ( مکہ اور مدینہ ) ، سامرہ و بغداد، ایک روایت کے مطابق بیت المقدس کی سیاحت بھی کی۔
اپنی فکر کے حوالے سے گورونانک صلح جو توحیدی کہلائے۔ ہندو دھرم کے مذہبی پیشوائوں (پنڈت وغیرہ) کے استحصال اور بڑی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں کے جبر کا شکار لوگوں میں ان کی تعلیمات اور فکر کو خاصی قبولیت حاصل ہوئی۔
گورونانک مہاراج کے ہمدم دیرینہ بھائی مردانہ کا تعلق مسلمان خاندان سے تھا دہی سماج میں ذات پات کی گہری تقسیم کی بنیاد پر بھائی مردانہ میراثی خانوادے سے تھے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اپنے دوست بھائی مردانہ کے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے دو تین دن قبل گورو نانک مہاراج نے ان سے دریافت کیا کہ
’’بھاری مردانہ تمہاری آخری رسومات کس طرح ادا کرنی ہیں مسلمانوں کی طرح یا کسی اور طریقے سے؟ بھائی مردانہ نے جواب دیا، میں ہی نہیں ہوں گا تو پھر جیسے جی کریں یا جیسے بھی آخری رسومات ادا ہوں’’۔
کہا جاتا ہے کہ بھائی مردانہ کے انتقال کے بعد گورونانک مہاراج نے انہیں مسلمانوں کی طرح غسل دیا کفن پہنایا۔ موقع پر موجود عقیدت مندوں کے سامنے بھائی مردانہ سے دوستی کے رشتے کے ماہ و سال کی یادیں تازہ کیں پھر ان کی نعش کو راوی (دریائے راوی) کے پانیوں کے سپرد کردیا۔
خود گورونانک مہاراج کے سفر آخرت کے حوالے سے صدیوں سے قائم متھ یہ ہے کہ کرتار پور میں جہاں ان کی سمادھی ہے اس کے پہلو میں ہی مسلمانوں کی جانب سے بنائی گئی نانک مہاراج کی تربت بھی ہے۔
کہاجاتا ہے کہ گورو نانک مہاراج کی توحیدی فکر کی بدولت اس وقت کے مسلمانوں کا بڑا حصہ انہیں مسلمان صوفی سمجھتا اور احترام کرتا تھا۔ ہندو ان کے خاندانی پسن منظر کی بنیاد پر دعویدار تھے ان کے عقیدت مندوں کا بڑا حصہ اس امر کا خواہش مند تھا کہ ان کی آخری رسومات اس طرح ادا کی جائیں جس طرح گورو نانک نے بھائی مردانہ کی آخری رسومات ادا کیں۔
آخری رسومات کے تنازع پر دن بھر جاری رہنے والے مسلمانوں ہندوئوں اور عقیدت مندوں کے درمیان مذاکرات شام تک کامیاب نہ ہوسکے تو فیصلہ یہ ہوا کہ اگلی صبح دوبارہ اس پر مل بیٹھ کر صلاح مشورے سے حتمی حل نکالا جائے گا۔
اسی مقام پر جہاں صدیوں سے ان کی سمادھی اور قبر ہے ایک بڑا ہال کمرہ تھا ان کی نعش پر چادر ڈال کر تدفین اگلی صبح تک ملتوئی کرکے تمام لوگ گھروں کے لئے رخصت ہوگئے۔
اگلی صبح جب کمرے کا دروازہ کھولا گیا تو میت والی چارپائی پر گورو نانک کی نعش نہیں بلکہ چند پھول رکھے تھے۔ ان پھولوں کے دو حصے کئے گئے۔ مسلمانوں نے قبر بنادی اور عقیدت مندوں نے سمادھی۔
سمادھی اور قبر کے قریب چند گز کے فاصلے پر ہی وہ تاریخی کنواں ہے جسے سکھ دھرم میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ساعت بھر کے لئے موضوع سے ہٹ کر طالب علم یہ عرض کرنا ازبس ضروری سمجھتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ
’’آگ، پانی اور پتھر‘‘ ان تین چیزوں کو تقریباً تمام مذاہب میں کسی نہ کسی حوالے سے اہیمت حاصل ہے کہیں کہیں تو یہ مقدسات میں شامل ہیں‘‘۔
چلیں ہم اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں ، گورو نانک جی مہاراج کی ان 38 نظموں جنہیں سکھ دھرم میں ’’جپ جی‘‘ یعنی پیغام توحید کہا لکھا گیا انہیں پوڑیوں کی صورت میں دی گئی پوڑی نمبر1 سے پوڑی نمبر38 تک کا مطالعہ ایک بات روز روشن کی طرح واضح کردیتا ہے کہ گورو نانک جی مہاراج کو اپنے سفرِ جہاں کے دوران جس بھی مذہب کی جو چیز دل کو بھائی انہوں نے اسے اپنے انداز میں لکھ لیا۔
ہماری دانست میں یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ انہیں (گورو نانک) صلح کُل، ایثار، محبت، تعلیم، تعاون اور ہر وہ بات جو انسانی سماج کے لئے خیر کا باعث ہو جہاں سے بھی ملی انہوں نے اس سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اسے اپنی تعلیمات کا حصہ بنالیا۔
آپ ان کے اس شلوک کو ہی دیکھ لیجئے جس میں گورو نانک مہاراج کہتے ہیں
’’روزِ اول سے پہلے بھی وہی سچا اور ازل بھی اسی کی سچائی ہے۔ وہ آج بھی موجود ہے اور کل بھی وہی ہوگا‘‘ یا ’’جس نے اسے جان لیا اس نے خود کو پایا اور سُکھ آرام حاصل کیا‘‘۔
” ان فقیروں کی خدمت اور ان کی سنگت میں رہنا خوش نصیبی ہے "جو خدائے واحد کا ذکر کرتے ہیں نانک وہ خدا کی رحمت سے دنیا میں ثمر پاتے ہیں”
"جو اس سے لو لگالے اس کے چہرے پر نور بکھرتا ہے وہ نور درحقیقت اس کی تجلی ہے‘‘۔ ’’جس نے اس کا راز پالیا وہی ہمیشہ راز کی مستی میں رہتا ہے‘‘۔
گورو نانک جی مہاراج کہتے ہیں
” ذات پات جھوٹ ہے، دنیاوی رتبے اور شہرت سے حاصل کردہ عزت اور خطاب بھی جھوٹے ہیں” سارے انسان برابر ہیں، "تیری نماز مخلوق کی بھلائی ہے” ” عبادت کے لائق وہ ہے اس کی بنائی ہوئی چیزیں نہیں‘‘۔
’’دنیا میں رہ کر لالچ سے محفوظ رہنا ہی دھرم کا بھید ہے‘‘۔ دھرم یوگی کے پیوند لگے کپڑوں میں نہ اس کے عصا میں اور نہ ……بدن پر راکھ مل لینے میں‘‘۔ ’’سچائی سب سے بلند ہے‘‘۔ ’’روح نہ مرتی ہے نہ دبتی ہے‘‘۔
’’اچھے اعمال کا ڈول بنائو جن سے پانی بھرا جاتا ہے‘‘۔ گوردوارہ کرتار پور سکھ دھرم کے پیروکاران کے لئے ننکانہ صاحب کی طرح مقدس مقام کا درجہ رکھتا۔ کرتار پور کے گوردوارہ کے احاطے میں موجود قدیم مقدس کنویں کے پانی کے حوالے سے متعدد روایات اور متھیں موجود ہیں سکھ دھرم میں اس کنویں کے پانی کو آب زم زم سا تقدس حاصل ہے اب سنائی دے رہا ہے کہ اس مقدس کنویں کے پانی کو کاروبار کا حصہ بنانے پر غور ہورہا ہے۔
کالم کے دامن میں مزید گنجائش نہیں پھر بھی یہ عرض کردوں کہ مجھ طالب علم کو گورو نانک مہاراج کے حضور حاضری پر ویسی ہی قلبی مسرت حاصل ہوئی جیسی مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کی خانقاہ میں حاضری پر حاصل ہوتی ہے۔