یونیورسٹی کے نمائندگان اور داخلے کے مقامی پیشہ ور افراد نے "سٹڈی اِن دبئی” میلے کے دوران نوٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستانی طلباء کے لیے اعلیٰ تعلیم کے ایک بڑے مقام کے طور پر توجہ حاصل کی ہے۔ یہ چھے روزہ تعلیمی میلہ ہفتے کے روز مختلف شہروں کے دورے کے بعد لاہور میں اختتام پذیر ہوا۔
چھے سال سے زیادہ عرصہ قبل قومی حکمتِ عملی برائے اعلیٰ تعلیم 2030 کے آغاز سے دبئی میں غیر ملکی طلباء کے اندراج میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکام نے اس ماہ رپورٹ کیا کہ 2022-23 کے تعلیمی سال سے بین الاقوامی اندراج میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں پاکستانی طلباء کی تعداد میں سات فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔
تعلیمی ماہرین کا خیال ہے کہ دبئی تیزی سے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے روایتی تعلیمی مقامات سے مقابلہ کر رہا ہے۔
محمد شعیب نے منگل کو راولپنڈی میں تعلیمی میلے کے انعقاد کے موقع پر بتایا، "ہم نے جو مشاہدہ کیا وہ یہ ہے کہ پاکستانی طلباء نے امارات کی طرف توجہ دینا اور منتقل ہونا شروع کر دیا ہے۔”
انہوں نے بات جاری رکھی، "یہ بالخصوص اس وجہ سے ہے کہ مرکزی دھارے کے مقامات مثلاً کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ میں کچھ پالیسی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مزید ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی کئی معروف یونیورسٹیوں نے دبئی میں اپنے کیمپس کھولنا شروع کر دیئے ہیں۔”
دبئی اس وقت 45 نجی یونیورسٹیوں کا مسکن ہے جو 650 سے زیادہ پروگرام پیش کر رہی ہیں جن میں بزنس، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کی اسناد طلباء میں سب سے زیادہ مطلوب ہیں۔
نیو یارک یونیورسٹی، یونیورسٹی آف برمنگھم، اور آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی سمیت کئی اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں نے حالیہ برسوں میں وہاں اپنے کیمپس کھولے ہیں۔
پاکستان میں کرٹن یونیورسٹی کے دبئی کیمپس کے کنٹری منیجر ولی الرحمٰن نے کہا، بین الاقوامی طلباء کے اندراج میں اضافے کی وجہ پوسٹ گریجویٹ فنڈنگ میں اضافہ اور دبئی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ملازمت کے زیادہ مواقع ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم نے 2023 سے 2024 تک [دبئی کی] مارکیٹ میں [طلبہ کی درخواستوں کے لحاظ سے] 40 فیصد کی بڑی ترقی دیکھی ہے جو خاص طور پر پاکستان سے آتی ہیں۔”
دبئی میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند 19 سالہ امیدوار دانیال احمد نے متحدہ عرب امارات کو اپنے لیے ایک "مثالی آپشن” قرار دیا۔ اس کی وجہ ملک کی پاکستان سے قربت ہے۔
انہوں نے کہا، "دبئی میں اب نیویارک یونیورسٹی اور خلیفہ یونیورسٹی جیسی معروف یونیورسٹیاں ہیں جو کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔”
اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند طلباء کی طرف سے روایتی تعلیمی مقامات کو ترجیح دینے کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا، پاکستانی طلباء یورپی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ویزا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنے لگے ہیں۔
احمد نے دبئی کے تعلیمی طریقہ کار کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا، اس میں پیشہ ورانہ تجربے کا ایک توسیعی اقدام شامل ہے جس میں طلباء کو مختلف قسم کے کیرئیر ٹریننگ پروگرام فراہم کیے جاتے ہیں مثلاً کیمپس میں کام، دورانِ ملازمت تربیت، مشترکہ منصوبے اور پیشہ ورانہ تربیت۔