پاکستان کے وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم تعینات کر دیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار کی ڈپٹی وزیراعظم کے طور پر تعیناتی کا نوٹیفیکشن اتوار کو کابینہ ڈویژن نے جاری کیا ہے۔
وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تعیناتی کی منظوری دی ہے۔
اسحاق ڈار کی ن لیگ سے وابستگی
مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نواز شریف کے سمدھی ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے سب سے قریبی ساتھیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ اس سے قبل ن لیگ کی سال 2013 سے 2018 کی حکومت میں بھی وہ وزیراعظم نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ بااختیار وزیر تصور کیے جاتے تھے۔
ماضی میں اسحاق ڈار کو ن لیگ کی حکومتوں میں متعدد بار وزیر خزانہ کی ذمہ داری سونپی جا چکی ہے تاہم اس مرتبہ ان کی جگہ محمد اورنگزیب کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے جبکہ انہیں وزیر خارجہ کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
اسحاق ڈار پہلی مرتبہ 1998 میں نواز لیگ کے دور میں وفاقی وزیر خزانہ بنے تھے۔ اس کے بعد 2013 میں نواز لیگ کی حکومت میں دوسری مرتبہ پھر وزیر خزانہ بنائے گئے تھے۔
اسحاق ڈار ملک کے دوسرے ڈپٹی وزیراعظم
اسحاق ڈار ملک کے دوسرے ڈپٹی وزیراعظم ہوں گے۔ ان سے قبل چوہدری پرویز الہٰی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ڈپٹی وزیراعظم رہ چکے ہیں۔
سینیئر قانون دان کامران مرتضیٰ کے مطابق آئین میں ڈپٹی وزیراعظم کی تقرری کا کوئی ذکر نہیں۔ قانونی طور پر اس عہدے کی اہمیت نہیں ہو گی۔
گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’وفاقی کابینہ میں سینیئر وزیر کے عہدے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے لیکن پاکستان میں سینیئر وزیر بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ ڈپٹی وزیراعظم کا ہے، اب اسحاق ڈار کو بطور ڈپٹی وزیراعظم تعینات کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’نوٹیفکیشن میں ابھی یہ واضح نہیں کہ بطور ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی موجودہ حکومت میں کیا ذمہ داریاں ہوں گی تاہم بظاہر وزیراعظم شہباز شریف کی عدم موجودگی میں اسحاق ڈار اپنا ڈپٹی وزیراعظم کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔‘
’اس سے قبل چوہدری پرویز الٰہی بھی ملک کے ڈپٹی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ لیکن اُن کا یہ عہدہ علامتی ہی تھا۔ اُس عرصے کے دوران اُن کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات ہمیں نظر نہیں آئے۔‘
’یہ عہدہ آئینی نہیں انتظامی ہے‘
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حسن رضا پاشا نے گفتگو میں کہا ہے ’آئین پاکستان میں ڈپٹی وزیراعظم کی تقرری کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تعیناتی آئینی نہیں انتظامی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اسحاق ڈار کا بطور ڈپٹی وزیراعظم کردار واضح نہیں کیا گیا۔ ہو سکتا ہے حکومت آنے والے دنوں میں اِنہیں کوئی مخصوص ذمہ داریاں سونپے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ کون سے کام وزیراعظم کریں گے اور کون سے ڈپٹی وزیراعظم۔‘
’تقرری چیلینج ہو سکتی ہے‘
حسن رضا پاشا کے مطابق ڈپٹی وزیراعظم کی تعیناتی کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ حکومت میں آئینی عہدے بتا دیے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تعیناتی عدالت میں چیلنج بھی ہو سکتی ہے۔
’اگر کوئی اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرے تو وہاں اس پر بحث کو سکتی ہے۔ ماضی کے اندر بھی ایک بار ملک کے ڈپٹی وزیراعظم کی تعیناتی کی جا چکی ہے۔حکومتیں ایسے فیصلے کرتی رہتی ہیں۔‘
’یہ تقرری شہباز شریف کو کمزور کر سکتی ہے‘
سینیئر تجزیہ کار عامر ضیا نےگفتگو میں کہا ہے کہ ’اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تعیناتی وفاق میں نواز شریف کی جھلک ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم ایک غیرضروری عہدہ ہے۔ اس فیصلے سے شہباز شریف بحیثیت وزیر اعظم کمزور پڑ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’اس فیصلے سے ایک تأثر یہ بھی ملتا ہے کہ شاید شہباز شریف اکیلے حکومت نہیں چلا سکتے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ اسحاق ڈار کو بطور ڈپٹی وزیراعظم کیا ذمہ داریاں ملتی ہیں۔‘
’اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں ناہموار ہونے کا خدشہ‘
عامر ضیا کے مطابق ’نواز شریف باہر رہ کر پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی نظر رکھنا چاہتے ہیں۔ چونکہ اسحاق ڈار نواز شریف کے قریب ترین سمجھے جاتے ہیں، اسی وجہ سے اُنہیں یہ اضافی چارج دیا گیا ہے۔ لیکن نواز شریف کا پنجاب اور وفاقی حکومتوں میں زیادہ کردار اُن کی جماعت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب کر سکتا ہے۔‘
’اسحاق ڈار کے لیے ذاتی طور پر یہی بہتر تھا کہ وہ بحیثیت وزیر خارجہ اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیتے تاہم اب نئی ذمہ داری ملنے کے بعد اُن کے لیے خارجہ اُمور پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو گا۔‘