
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کے مطابق یہ کمیٹی ایک برس سے زائد عرصہ پہلے قائم کی گئی تھی لیکن ابھی تک بات چیت شروع نہیں ہوئی۔
اس سوال کا پس منظر اس کمیٹی کے اراکین کا ماضی، حال اور اس سے منسلک نسبتیں ہیں۔
عمر ایوب خان جو اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور عمران خان سے قریب ہونے کے ناتے تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں، وہ نہ صرف پاکستان کے پہلے فوجی صدر ایوب خان کے پوتے اور فوج کے ریٹائرڈ کیپٹن گوہر ایوب کے بیٹے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی سیاست کی ابتدا بھی فوجی دور میں ہی کی تھی جب جنرل پرویز مشرف پاکستان کے حکمراں تھے۔
عمر ایوب کو سیاست میں آتے ہی وفاقی کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا تھا اور بعد ازاں وہ فوجی حکومت کے اہم رکن رہے۔
انہوں نے فوج سے اپنا تعلق کبھی نہیں چھپایا اور ہمیشہ اس بارے میں مثبت بات کی۔
کمیٹی کے دوسرے رکن علی امین گنڈاپور جو کہ اس وقت خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے جانثار ساتھی بھی ہیں، اگرچہ اپنی شعلہ بیانی اور عمران خان کو ‘فیلڈ فورس‘ فراہم کرنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں لیکن حال ہی میں ان کی پشاور کور میں کور کمانڈر سے ملاقاتیں خبروں اور تبصروں کی زینت بنتی رہی ہیں۔
ان کے بارے میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ نو مئی کے بعد اپنی روپوشی کے دنوں میں پشاور کنٹونمنٹ کے کمرشل علاقے میں موجود رہے ہیں۔

اسی طرح شبلی فراز کے بارے میں بھی سیاسی مبصرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کا موقف ہمیشہ مقتدرہ کے موقف کے قریب تر ہوتا ہے اور وہ اپنے سیاسی کیریئر میں کبھی بھی کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں گئے۔
پاکستان کی فوج اور سیاست دونوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ماجد نظامی اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کے مقتدرہ سے تعلقات ایک پہلو ہیں لیکن اس کا دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ کیا یہ اراکین عمران خان سے وہ بات منوا سکیں گے جو اسٹیبلشمنٹ ان سے طے کرے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’علی امین گنڈا پور شعلہ بیان مقرر ضرور ہیں لیکن ان کی توپوں کا رخ کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف نہیں رہا بلکہ یہ ہمیشہ سیاسی جماعتوں کی طرف رہا ہے۔ نو مئی کے بعد ان کی ایک مرتبہ گرفتاری ضرور ہوئی ہے لیکن ان کو ان مشکلات کا سامنا نہیں رہا جو پی ٹی آئی کے کئی دوسرے رہنماؤں کو رہا ہے۔‘
’اسی طرح عمر ایوب کا اسٹیبلشمنٹ سے تیسری نسل کا تعلق ہے۔ اگرچہ گذشتہ دو برس میں ان پر بڑا مشکل مرحلہ آیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے روپوش رہ کر اپنے مسائل پر توجہ دی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہیں کی۔‘
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور ڈپلومیسی کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار طاہر نعیم ملک کے مطابق پی ٹی آئی کمیٹی کے تینوں اراکین کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ایک حقیقت ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو جیل سے باہر ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ جہاں ایک طرف عمر ایوب فوجی پس منظر رکھتے ہیں وہیں علی امین گنڈا پور بطور وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سکیورٹی اداروں کی قیادت سے رابطے میں ہیں اور اس وقت کے نظام کا ایک حصہ ہیں۔
’جہاں تک شبلی فراز کا تعلق ہے تو نہ صرف یہ کہ فوج ان کو ان کے والد معروف شاعر احمد فراز کی نسبت سے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ ان کے قریبی عزیز جنرل افتخار حسین مشرف دور میں خیبر پختونخوا کے گورنر اور بڑے بھائی کرنل (ریٹائرڈ) سعدی فوج کا اہم حصہ رہے ہیں۔‘

تاہم ماجد نظامی کے خیال میں پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس وقت عمران خان کیا سوچ رہے ہیں۔
’عمران خان پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے کئی کمیٹیاں تشکیل دے چکے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی قیادت کے کئی رہنما ایسی کمیٹیوں کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ جب معاملہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آتا ہے تو پھر کوئی ڈیل بن نہیں پاتے یا مذاکرات کامیاب نہیں ہو پاتے۔‘
’ہمارے سامنے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور پرویز خٹک کی مثال موجود ہے کہ وہ مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ سے، سیاست دانوں سے بات چیت کر کے، چیزیں طے کر کے واپس آ جاتے تھے لیکن انہیں عمران خان سے منظوری نہیں ملتی تھی۔‘
