جمہور کی دانش اور تاریخ کے رولے ……حیدر جاوید سید
انکار کی تاب کبھی تھی نہ ہے اقرار ہی اقرار ہے۔ یہی اقرار ہمارے لئے سرمدی نغمہ ہے۔ چلیئے ہم کچھ تاریخ پھرولتے ہیں ۔
سیاست کے ساتھ زمینی موسم بھی گرم ہورہا ہے۔ کچھ کہانیاں ہیں کوچۂ سیاست کی لیکن جی نہیں چاہ رہا کہ ان پر لکھا جائے۔ کون سا ہمارے کہے لکھے سے تبدیلی کاشت ہوتی ہے دوسری وجہ ہفتہ بھر سفر میں رہنے کی تھکاوٹ بھی ہے
ویسے غلامی کو ایمان کا حصہ سمجھنے والوں کے لئے آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اس معاشرے میں جہاں ڈیرہ اسماعیل خان کی ذائقہ دار کھجوریں مدینہ کی کھجوریں کہہ کر فروخت ہوتی ہوں، فارمی شہد پر اسلامی شہد کا لیبل لگ جائے، فقیر ر احموں کے بقول ایمان تک خالص نہ ملے وہاں کس کس بات کو روتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمزاد کی بات ماننا پڑتی ہے۔
پچھلے دو دن چیچہ وطنی میں بھائی جان پروفیسر منیر ابنِ رزمی کے پاس گزرے عزیزم ملک اسد عباس اور رانا علمدار حسین خان سے بھی نشست رہی ان نشستوں میں ہوئے مکالموں کی صداقتوں پر ابھی تک جھوم رہا ہوں اس کی تفصیل ایک آدھ دن میں عرض کرتا ہوں فی الوقت یہ کہ آقائے صادق سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا ’’مطالعہ سے جو حاصل ہو اس میں دوسروں کو شریک کرو کہ اس طور علم بڑھتا ہے‘‘۔
انکار کی تاب کبھی تھی نہ ہے اقرار ہی اقرار ہے۔ یہی اقرار ہمارے لئے سرمدی نغمہ ہے۔ چلیئے ہم کچھ تاریخ پھرولتے ہیں ۔
ہماری تاریخ کا ایک دن 20 اکتوبر 1947ء بھی ہے جب سندھ مسلم لیگ کی صوبائی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے سفارش کی تھی کہ ’’پاکستان کے لئے ایک ایسا سوشلسٹ آئین مرتب کیا جائے جس کے تحت ہر صوبہ اندرونی معاملات میں مکمل آزاد ہو اور پاکستانی یونین کے سارے بڑے یونٹوں کو ایگزیکٹو قانون ساز اداروں میں مساوی نمائندگی حاصل ہو‘‘۔
ویسے 3جون 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کے اعلان سے تقریباً دو ماہ قبل مارچ 1947ء میں سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے اپنے وزیراعلیٰ غلام حسین ہدایت اللہ کی صدارت میں ایک سب کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے سندھ کی آزاد و خودمختار ریاست کےلئے آئین مرتب کرنا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے یہ تجویز جولائی 1947ء میں دہلی میں منعقد ہنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عالمہ کے اجلاس میں بھی پیش کی تھی۔
30 جون 1948ء کو سندھ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ’’ڈان‘‘ اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ سندھی طلباء کا موقف تھا کہ ڈان کی ادارتی پالیسی سندھ دشمنی پر مبنی ہے۔
9 فروری 1948کو سندھ مسلم لیگ کی صوبائی کونسل نے کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی تجویز پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی تحریک 1940ء کی قرارداد لاہور کے منافی ہوگی کیونکہ اس میں پاکستانی یونین میں شامل ہونے والے ہر یونٹ کی علاقائی سلامتی کی ضمانت دی گئی تھی۔
10 فروری کو سندھ اسمبلی نے کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کے خلاف قرارداد منظور کی لیکن 13 فروری 1946ء کو حکومت پاکستان نے ایک آرڈیننس کے نفاذ کا اعلان کیا جو بقول حکومت پاکستان ملک میں رشوت ستانی کے انسداد کے لئے ایک سنٹرل پولیس فورس کے قیام کے لئے ہے ۔
سندھ مسلم لیگ اور سندھی قوم پرستوں کا اس آرڈیننس پر ردعمل یہ تھا کہ مرکزی حکومت سندھی عوام کے احساسات و جذبات کو سمجھنے سے عاری ہے اور مرکزی حکومت کے چند وزراء سندھ میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنا چاہتے ہیں۔ سندھی قوم پرست یہ بھی کہتے تھے کہ جو لوگ ہمیں اسلامی اخوت کا سبق پڑھارہے انہیں اسلامی اخوت سے زیادہ ان جائیدادوں سے دلچسپی ہے جو سندھ سے ہجرت کر کے بھارت جانے والے سندھی چھوڑ گئے ہیں۔
قوم پرستوں کے اس موقف کی تائید مولانا عثمانی کی سربراہی میں قائم ہونے والی جمیعت المہاجرین پاکستان کے مطالبات سے بھی ہوجاتی ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی جمعیت علمائے ہند چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ مہاجرین کے لئے نئی سیاسی جماعت بنانے میں مولانا عثمانی اور عبدالحامد بدایونی پیش پیش تھے مگر بدایونی صاحب نے مولانا عثمانی سے الگ ہوکر اپنی جماعت بنالی۔ ان کا موقف تھا کہ مولانا عثمانی اپنے دیوبندی مسلک کے مہاجرین کو قیمتی جائیدادوں پر قبضہ کے لئے تعاون فراہم کررہے ہیں۔
تقسیم کے بعد دیوبندی، بریلوی مسلک کے بڑوں کا فرقہ وارانہ بنیادوں پر یہ پہلا اختلاف تھا۔
قبل ازیں بھی ان کالموں میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ مذہب اور یک قومی نظریہ کے ذریعے انڈس ویلی (موجودہ پاکستان جو قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کہا گیا) میں ہزاروں سال سے آباد قومیتوں کی تہذیبی و تاریخی حیثیت سے کھلا انکار تھا۔ اس انکار اور چند دیگر مسائل نے جن اختلافات کی بنیاد رکھی وہ آگے چل کر شدید نفرتوں میں تبدیل ہوئے۔
ہمارے جو دوست مہاجرازم کے نعرے کو محرومیوں سے جوڑتے ہیں ا نہوں نے کبھی اس امر پر غور نہیں کیا کہ اگست 1947ء سے جولائی 1977ء بلکہ کسی حد تک 1988ء تک مہاجرین کا اہم ریاستی اداروں میں تناسب کیا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چار بار مارشل لاء لگانے والے فوجی آمروں میں سے دو کا تعلق 1947ء کے مہاجرین سے تھا اور دونوں نے مجموعی طور پر 20سال حکمرانی فرمائی ۔
وزیراعظم کا منصب اس وقت بھی 47ء کے مہاجرین کے پاس ہی ہے۔ شکوہ پھر بھی یہ ہے کہ ’’ہم وفادار نہیں‘‘۔
یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کو سمجھ لیجئے اگست 1947ء میں ہندوستان دو ملکوں میں تقسیم ہوا۔ اکتوبر 1947ء میں بھارت کی مرکزی حکومت نے ملک بھر میں موجود فوجی زرعی فارمز کی زمینیں بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کرکے کانگریس کا پرانا وعدہ پورا کردیا۔
مگر ہمارے یہاں لگ بھگ 76 برس ہونے کو ہیں نہ صرف فوجی فارمز موجود ہیں بلکہ کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب مزارعین اور فوجی حکام کے درمیان تنازع نہ کھڑا ہوتا ہو مگر کیا مجال اس حساس مسئلہ پر کوئی بڑی سیاسی جماعت یا اسلامی اخوت کے علمبردار کبھی بولے ہوں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پاکستانی ریاست کے لئے جمہویرت کو ناگزیر سمجھنے کی فہم پر مبنی ایک گزشتہ کالم پر ایک مہربان نے اپنے انداز میں دست درازی کی۔ ان کی علمی حیثیت کا مجھے احترام ہے لیکن جو چند سوال انہوں نے اٹھائے ان کا جواب لکھنے میں مجھے کوئی امر مانع نہیں ماسوائے اس کے کہ تاریخ کی بے رحم کاٹ سے خاندانی عقیدے پاش پاش ہوں تو لوگ مکالمے کی بجائے فتوئوں کی چاند ماری شروع کردیتے ہیں۔
سو فقط اتنا ہی عرض کرسکتا ہوں کہ قرآن نے مشاورت کے لئے شوریٰ کا جو تصور دیا وہ کب اور کس وقت قابل عمل سمجھا گیا؟
یزید کی خلافت جمہوری اصول پر نہیں وراثت کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ امام حسین علیہ السلام آج بھی جمہور کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔ وراثت و طاقت یا سازشوں کے ذریعے حاصل کیا گیا اقتدار کبھی بھی جمہور کا نمائندہ نہیں سمجھا گیا۔
بہت ادب کے ساتھ عرض ہے جو دوست آج بھی مذہبی ریاست اور نظام ہائے مذہب کا خواب دیکھتے ہیں وہ بھی دراصل بالادست طقبات کی اجارہ داری کو حکومت الٰہیہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
مجھ سے طالب علم کی رائے دوٹوک ہے وہ یہ کہ مذہب یا عقیدہ انسان سے اس کے حق آزادی اور حکومت سازی میں کردار کی قربانی نہیں مانگنے البتہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مذہب ہمیشہ منافع بخش کاروبار رہا ہے اور آج بھی ہے ۔
اگر ہم ہندوستان کی تقسیم کے ظاہری منظرنامے کو درست مان رہے ہیں تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستانی عوام الناس کی ترجمانی کرنے والی 1940ء کی قرارداد لاہور کا نتیجہ ہے۔
اس قرارداد کا متن جمہوری دانش سے عبارت ہے۔ جمہور کی دانش کے عدم احترام کا نتیجہ 16 دسمبر 1971ء کو سامنے آیا۔
اب بھی کئی طوفان مچل رہے ہیں ان طوفانوں کو دبانے کے بجائے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو ان کی شدت میں کمی لائیں اور اس امر کی ضمانت فراہم کریں کہ جمہور کی دانش پر شب خون مارنے والوں کی پذیرائی نہیں ہوگی۔