اطہر قادرحسنکالمز

مڈل کلاس کی پاکستان سے ہجرت…..اطہر قادرحسن

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہ معاشرہ ابھی بھی ترقی پذیر ہے اور بڑھتی آبادی اس ترقی میں مزید دشواریاں پیدا کرنے کاباعث بن رہی ہے۔ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس ملک کی طاقت ہوتی ہے لیکن اگر ملک میں کاروبار اور صنعت زوال پذیر ہو تو یہی افرادی قوت ایک بوجھ اور وبال جان بن جاتی ہے

یہ ایک فطری عمل ہے کہ ہر انسان بہتر مستقبل کی خواہش رکھتا ہے اور اس بہتری کے لئے وہ مسلسل تگ و دو میں رہتا ہے۔ ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کر لے جس کی اسے ضرورت ہے اور اس سب کچھ کے حصول کے لئے محنت کے علاوہ ہر وہ ذریعہ اور طریقہ کار اپناتا ہے جس سے اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہ معاشرہ ابھی بھی ترقی پذیر ہے اور بڑھتی آبادی اس ترقی میں مزید دشواریاں پیدا کرنے کاباعث بن رہی ہے۔ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس ملک کی طاقت ہوتی ہے لیکن اگر ملک میں کاروبار اور صنعت زوال پذیر ہو تو یہی افرادی قوت ایک بوجھ اور وبال جان بن جاتی ہے کیونکہ اگر مسلسل بڑھتی افرادی قوت کے ساتھ روزگار کے مزید مواقع پیدا نہ کئے جائیں تو آبادی کا یہ مسلسل اضافہ معیشت میں بگاڑ کا اصل سبب بن جاتا ہے اور معاشی ترقی معکوس زاویے میں چلی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی آبادی میں تو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن بد قسمتی سے روزگار کے موقع بڑھنے کی بجائے سکڑتے جارہے ہیں اور پچھتر برس کے بعد ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ زندگی کی بنیادی ضروریات کی حصول کے لئے اور زندگی کی ڈور کو برقرار رکھنے کے لئے سر توڑ کوشش میں ہے۔
ملک کے موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر زندگی کی بنیادی ضروریات کوپورا کرنے اوربہتر مستقبل کی خواہش لئے ہمارے ملک سے قابل اور ہنر مند افرادی قوت کی نقل مکانی کا سلسلہ بڑھ رہا ہے اور اس میں گزشتہ ایک برس میں بہت تیزی آئی ہے۔ہمارا اشرافی طبقہ جس کے ہاں پہلے ہی وسائل کی کمی نہیں ہے اور یہ وسائل پاکستان کے مرہون منت ہیں ان وسائل کوبہتراور آسودہ طرززندگی گزارنے کے لئے
۲
وہ کسی غیر ملک منتقل کر دیتا ہے جہاں پر اسے زندگی کی تمام تر سہولیات اور عیاشیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ اس اشرافی طبقے کے علاوہ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جس کو مڈل کلاس کہا جاتا ہے جن کے پاس زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے وسائل تو ہوتے ہیں لیکن یہ وسائل اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ وہ ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو محنت اور ترقی کے لئے مسلسل تگ و دو میں رہتا ہے تا کہ اس کے پاس وسائل کی جوکمی ہے اس کو پورا کر کے وہ آسودگی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ ہماری بدقستی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی ناقص اقتصادی پالیسیوں اور سیاسی پیچیدگیوں نے مڈل کلاس کو ملک سے بددل کر دیا ہے اورسونے پہ سہاگہ کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں نے ان پڑھے لکھے اور ہنرمند لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے اصل وطن سے ہجرت کر جائیں اور کسی ایسے ملک میں چلے جائیں جہاں پر ان کو محنت کا حقیقی پھل مل سکے۔ آج کل مڈل کلاس کی جس محفل میں بھی بیٹھیں گفتگو کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں رہے کہ یہاں پر مزید رہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ان میں بہتری کی کوئی گنجائش نظر آرہی ہے۔اس مڈل کلاس کا جرم یہ ہے کہ یہ اس طبقے کے لوگ ہیں جو پاکستان سے بے انتہاء محبت کرتے ہیں اور اپنا اوڑھنا بچھونا پاکستان کو ہی سمجھتے ہیں لیکن مڈل کلاس میں یہ سوچ جس تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے یہ ملکی ارباب اختیار کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ جس ملک سے مڈل کلاس کا وجود ختم ہو جاتا ہے اس ملک کا وجود خدانخواستہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ مڈل کلاس کو ختم کرنے یا اس کی بیرونی ملک منتقلی کی سوچ یکایک وارد نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ملک چلانے والوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے مڈل کلاس کا وجود پاکستان سے تقریباً ختم ہونے کوہے اور اب یہاں پر یا تو امراء، رؤساء اور وڈیرے ہیں یا پھر وہ غریب طبقہ ہے جو مسلسل پستا چلا آرہا ہے اور اس غریب طبقے کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی معقول تعلیم ہے جس کی
۳
وجہ سے وہ نقل مکانی کا سوچ سکے۔
ایک معاصر کی خبر کے مطابق ملک کے اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں تقریباً چار لاکھ لوگ بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو کہ سرکار کے پاس موجود ہیں جبکہ اس قانونی طریقہ کار کے ساتھ ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کے علاوہ ایک کثیر تعداد وہ بھی ہے جو غیر قانونی طریقے سے روزگار کے لئے بیرون ملک منتقلی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے کئی اپنے اس سفر میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور کسی کے نصیب میں ڈالروں کی بجائے وطن واپس لوٹنا بھی نہیں ہوتا اور بہتر مستقبل کے لئے اس غیر قانونی سفر میں دیا رغیر میں بارڈر پر ان دیکھی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں یا سمندر کی بے رحم لہریں ان کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہیں اور وہ اپنے اہل خانہ کو زندگی بھر کے لئے دکھی چھوڑ جاتے ہیں۔
بیرون ملک منتقلی کے اس رجحان کے پس منظر میں صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع ناپید ہو چکے ہیں اور جوکاروبار چل رہے ہیں ان کے حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ وہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے عفریت کا ساتھ دے سکیں۔اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ جب تک ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام نہیں آئے گا صنعت کا پہیہ نہیں چلے گا بیرون ملک یہ ہجرت یوں ہی قانونی اور غیر قانونی طریقے سے جاری رہے گی۔ ریاست پاکستان کے من جملہ وارثان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے لیکن ابھی تک یہ من جملہ وارثان معیشت کی بہتری اور ترقی کے لئے کسی پائیدار حل کی تلاش میں ناکام نظر آتے ہیں اور پاکستانی عوام کے لئے ان کے پاس کوئی امید سحر نظر نہیں آتی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button