حیدر جاوید سیدکالمز

آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کا اختتام، سوالات اور الزامات….حیدر جاوید سید

یہ دو سوال نہ صرف اہم ہیں بلکہ آزادی صحافت کے حادثاتی علمبراروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ صحافی کا کام تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر تجزیہ کرنا ہے یا کسی کی خوشنودی کے لئے فراہم کردہ پروپیگنڈے کو آگے بڑھانا؟

منگل کی دوپہر جس وقت یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں اس سے کچھ دیر قبل مظفر آباد میں عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ نے اپنی احتجاجی تحریک ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ عوامی ایکشن کمیشن کے مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت اور قبل ازیں احتجاج میں شرکت کے لئے مظفر آباد میں موجود ریاستی باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری پرامن تحریک کو پرتشدد بنانے والے کردار احتساب سے نہیں بچ پائیں گے۔ یہ بھی کہا کہ ریاست کی حدود میں ا نٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ہم مطالبات تسلیم کئے جانے کے اعلان سے لاعلم رہے۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے اولاً یہ دیکھنا سمجھنا ازبس ضروری ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے منگل کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے سوموار کی شام خبروں سے یہ تاثر کیوں دیا کہ مطالبات تسلیم ہونے اور نوٹیفکیشن کے اجراء کے باوجود احتجاج ختم نہیں ہوا بلکہ عوامی ایکشن کمیٹی احتجاج پر مُصر ہے؟ ثانیاً آخر کیا وجہ رہی کہ پاکستان کے حکمران اتحاد کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قریب سمجھے جانے والے صحافیوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے گزشتہ تین چار دن سے یہ کیوں کہا جاتا رہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج (حالیہ احتجاج سال بھر سے جاری احتجاجی تحریک کا دوسرا حصہ تھا) کے پیچھے پی ٹی آئی کی قیادت اور بھارت ہیں۔
یا یہ کہ پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں 9 مئی جیسا واقعہ کرانے کے لئے پیش پیش تھی؟
یہ دو سوال نہ صرف اہم ہیں بلکہ آزادی صحافت کے حادثاتی علمبراروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ صحافی کا کام تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر تجزیہ کرنا ہے یا کسی کی خوشنودی کے لئے فراہم کردہ پروپیگنڈے کو آگے بڑھانا؟
بدقسمتی یہ ہے کہ اس معاملے میں پاکستان پیپلزپارٹی سے قربت رکھنے والے بعض اسلام آبادی صحافی بھی جھوٹ کو آگے بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھائی دیئے۔
ہماری دانست میں یہ رویہ درست نہیں۔ ستم یہ ہے کہ فراہم کردہ پروپیگنڈے پر صحافت چمکانے والے ان نونی و پپلے صحافیوں میں سے کسی نے یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کی کہ جب ریڈیو ٹی وی پر عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کئے جانے اور نوٹیفکیشن کے اجراء کی خبریں نشر کی جارہی تھیں تو رینجرز و پولیس اور بالخصوص مانسہرہ سے براستہ گڑھی حبیب اللہ آزاد کشمیر میں داخل ہونے والے رینجر کے اہلکاروں نے احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کیوں کی؟
یہاں ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم انوارالحق کہہ رہے ہیں کہ ’’ریاستی حکومت نے رینجرز طلب نہیں کی تھی‘‘۔ کیا رینجرز چیف سیکرٹری آزاد کشمیر نے طلب کی نیز یہ کہ کیا بزنس رولز اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ چیف سیکرٹری حکومت پاکستان سے ریاستی کابینہ کی منظوری کے بغیر رینجرز یا فوج بھجوانے کے لئے درخواست کرے؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ اہل صحافت (ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسلام آباد سے ہے) کے ایک حصے نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا ایک صاحب جو چند برس قبل ایک مذہبی برادری کے خلاف سوشل میڈیا پر فتوے بازی کے جرم میں دھرے جاچکے ہیں وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے دوران ایسی کہانی تلاش کرکے لے آئے جس کا سر پیر تو نہیں تھا لیکن نسیم حجازی کے تاریخی رومانوی ناولوں کی طرح ’’تاریخ ساز‘‘ تھی۔
عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر کی سال بھر سے جاری احتجاجی تحریک کے تین بنیادی مطالبات تھے اولاً آزاد کشمیر کی حدود میں بجلی منگلا ڈیم معاہدہ کی روشنی میں فراہم کی جائے۔ ثانیاً آٹے پر سبسڈی بحال کی جائے۔ ثالثاً حکمران اشرافیہ پر عوام کے خون پسینے کی کمائی اور بجٹ میں تعاون کے لئے پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی رقم لٹانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
منگلا ڈیم معاہدہ کے مطابق حکومت پاکستان آزاد کشمیر میں بجلی کے صارفین کو بجلی پیداواری لاگت پر فراہم کرنے کی پابند ہے۔
معاہدے سے انحراف اور بجلی کی قیمتوں کے ساتھ نصف درجن کے قریب ٹیکسوں نے صورتحال کو بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج میں خود آزاد کشمیر کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے کارکنان اور علاقائی رہنما بھی شامل تھے پھر اسے پی ٹی آئی اور بھارت سپانسرڈ احتجاج کا نام کیوں دیا گیا؟
ہم ایک بار پھر رینجرز کی فائرنگ والے سوال پر آتے ہیں۔ ابتداً رینجرز کے دستے کوہالہ کے ذریعے آزاد کشمیر میں داخل ہونے لگے تو مظاہرین کے دبائو پر انہیں واپس جانا پڑا۔ بعدازاں ان دستوں کو گڑھی حبیب اللہ کے راستے سے مظفر آباد لے جانے کے دوران مظفر آباد کے قریب عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔
رینجرز نے احتجاجیوں پر فائرنگ کی جس سے 3 شہریوں کے جاں بحق ہونے کی ابتدائی اطلاع تھی عین اسی وقت پی ٹی آئی کے حامی بعض بیرون ملک مقیم یوٹیوبرز ان میں ڈاکٹر معید پیرزادہ بھی شامل ہیں میدان میں کودے اور انہوں نے رینجرز کی فائرنگ سے 10 سے 14 افراد کے جاں بحق ہونے اور درجنوں شہریوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کردیا۔
اس مرحلہ پر وفاقی حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز میں "بریکنگ نیوز” کا مقابلہ شروع ہوگیا۔
وفاق پرست دعوے کررہے تھے کہ مظاہرین جدید اسلحہ سے لیس تھے انہوں نے رینجرز پر فائرنگ میں پہل کی۔ مظایرین کے پاس اسلحہ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی 9 مئی جیسے حالات بنانا چاہتی اور یہ کہ یہ سب بھارت کے تعاون سے ہورہا ہے۔
پی ٹی آئی کے حامی پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بعض بڑوں کا نام لے کر دعویٰ کرتے رہے کہ آزاد کشمیر میں ریاستی تشدد اور رینجرز کی فائرنگ ہر دو ان کے (سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے) ایما پر ہوئے۔
اپنے اپنے آقائوں کا حق نمک ادا کرنے میں پیش پیش ان صحافیوں اور یوٹیوبرز نے یہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی زمینی حقائق کے مطابق رپورٹنگ کی بجائے وفاداری کے مظاہرے کے لئے کئے جانے والے پروپیگنڈے کے کیا نتائج نکلیں گے۔
چلیں پی ٹی آئی کے حامی صحافی اور یوٹیوبرز تو عدم استحکام کے بڑھاوے کے لئے پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے وہ ایک خاص نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں لیکن وفاق کے حکمران اتحاد کی جماعتوں کے بھونپو سمجھے جانے والے صحافیوں اور یوٹیوبرز نے کیوں آگ بھڑکانے کے لئے گھٹیا الزام تراشی میں حصہ ڈالا؟
ہماری دانست میں یہ کہنا کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے آزاد کشمیر میں عین اس وقت تحریک شروع کی جب بھارت میں مقبوضہ کشمیر سمیت انتخابات کا دوردورہ ہے نیز یہ کہ تحریک کو پرتشدد بنانے کے بھارتی منصوبے کو آگے بڑھایا گیا صریحاً غلط موقف ہے
یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر اس سوال پر غور کیجئے کہ اس حالیہ تحریک کے پہلے دن آزاد کشمیر کے شہر ڈڈھیال میں بچیوں کے سکول پر آنسو گیس پھینکنے کی کارروائی کیا بھارتی وزیراعظم مودی کے حکم یا خوشنودی کے لئے کی گئی تھی؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ کیوں بچیوں کے سکول کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ پرامن احتجاج پر تشدد میں تبدیل ہی بچیوں کے سکول میں آنسو گیس پھینکنے سے ہوا۔ اب کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ اقدام بھی بھارتی قیادت کی الیکشن مہم میں تعاون کا حصہ تھا؟
باردیگر عرض ہے خبر اور تجزیہ زمینی حقائق کی روشنی میں ہوں تو درست ہیں انہیں الزامات کی ہنڈیا میں پروپیگنڈے کی آگ پر پکانے کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔ آزادی صحافت کا مظاہرہ نہیں۔
اس پر دو آراء نہیں کہ پرامن احتجاج پر تشدد احتجاج میں تبدیل ہوا۔ انسانی جانوں کے ساتھ املاک کا بھی ضیاع ہوا مگر سوال یہ ہے کہ تشدد کا دروازہ کس نے کھولا؟
کیا ایک جوڈیشل کمیشن پورا سچ عوام کے سامنے لاسکتا ہے؟ ایسا ممکن ہے تو کسی تاخیر کے بغیر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button