تاریخ بولتی بھی ہے صاحب!…..حیدر جاوید سید
مجھے قوی امید ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا جو سلسلہ حضرت علیؑ کی شہادت سے منقطع ہوا تھا اس کی بحالی کا آغاز انشاء اللہ حضرت علیؑ کے ہی عاشقوں میں سے ایک شخص کے ہاتھوں پاکستان کی سرزمین سے ہوگا
14 دسمبر 1969 کے ہفتہ روزہ ’’ایشیاء‘‘ (یہ جماعت اسلامی کر فکری ترجمان جریدہ تھا) میں جماعت اسلامی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل (بعدازاں جماعت اسلامی کے امیر بھی بنے اور جنرل ضیاء الحق کے ’’ماموں‘‘ کے طور پر شہرت بھی پائی) میاں طفیل محمد نے لکھا
’’مجھے قوی امید ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا جو سلسلہ حضرت علیؑ کی شہادت سے منقطع ہوا تھا اس کی بحالی کا آغاز انشاء اللہ حضرت علیؑ کے ہی عاشقوں میں سے ایک شخص کے ہاتھوں پاکستان کی سرزمین سے ہوگا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جنرل یحییٰ خان صاحب کو عزم و ہمت اور اس اخلاص کے ساتھ پاکستان میں اسلامی جمہوری نظام بحال کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
1970ء میں اپنی امریکہ یاترا کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سید محمد حسین چشتی ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا
’’پاکستان کو انڈونیشیا بنادیں گے اور سوشلسٹوں کی زبانیں گدی سے کھینچ لیں گے‘‘۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ امریکی سفیر جوزف فارلینڈ جو قبل ازیں انڈونیشیا میں امریکہ کے سفیر تھے اور وہاں کی شدت پسند اسلامی جماعت مجومی پارٹی (جماعت اسلامی) کے گارڈ فادر کا کردار ادا کرتے رہے۔ اب پاکستان میں تھے
مولانا کوثر نیازی نے اپنے ہفتہ روزہ ’’شہاب‘‘ میں اس چیک کا عکس چھاپ دیا جو امریکی سفیر جوزف فارلینڈ نے مولانا مودودی کے نام جاری کیا تھا
یہ بھی غالباً اتفاق ہی تھا کہ ’’یحییٰ خان کا وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان پٹودی بھی وزیر اطلاعات بننے سے قبل انڈونیشیا میں پاکستان کا سفیر تھا‘‘۔
23 مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہعنے والی کسان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا عبدالحمید بھاشانی نے انکشاف کیا کہ
امریکہ مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنوانا چاہتا ہے اور اس کے لئے انہیں 5 کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے دوست ممالک نے مشرقی پاکستان کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ مولانا بھاشانی کا موقف تھا کہ امریکہ پاکستان میں ترقی پسندانہ نظریات کے حاملین کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں اگر ترقی پسند جیت گئے تو خطے میں تبدیلی کی لہر بھارت کی طبقاتی جمہوریت کو بہاکر لے جائے گی۔
امریکیوں کے نزدیک اس کا علاج مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنوانا ہی تھا اس کے لئے بھارت سمیت متعدد ممالک اس کے ہمنوا تھے۔
1970ءکے انتخابات سے قبل (اکتوبر میں) لندن میں عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن نیشنل عوامی پارٹی (روس نواز) کے صدر خان عبدالولی خان، کونسل مسلم لیگ کے صدر میاں ممتاز خان دولتانہ، مغربی پاکستان کے سابق گونر سیٹھ یوسف ہارون کے درمیان ملاقات ہوئی جسے ’’لندن پلان‘‘ کا نام دیا گیا (ذوالفقار علی بھٹو اسے روم پلان کہتے تھے کیونکہ لندن میں ملنے والوں نے اگلی ملاقات روم میں کی تھی) اس ملاقات میں پاکستان کے مستقبل کا منظرنامہ یوں بُنا گیا۔
صدر ایئرمارشل اصغر خان، وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن، وزیر خارجہ خان عبدالولی خان، قومی اسمبلی کا سپیکر مشتاق کھنڈکر محمود ہارون سندھ کا گورنر، ارباب سکندر خان خلیل صوبہ سرحد کا گورنر، اکبر بگٹی گورنر بلوچستان، وائس ایڈمرل (ر) احسن گورنر مشرقی پاکستان، سردار شوکت حیات وزیراعلیٰ پنجاب، کیپٹن (ر) منصور علی خان وزیراعلیٰ مشرقی پاکستان، جی ایم سید وزیراعلیٰ سندھ، عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبہ سرحد کا وزیراعلیٰ خان عبدالولی خان کا نمائندہ ہوگا۔
یوسف ہارون نے اپنے لئے امریکہ میں سفیر کا منصب مانگا تھا۔
لندن پلان میں طے کرلیا گیا تھا کہ ’’معاہدہ تاشقند‘‘ پر فوری عمل کر کے کشمیر میں ایل او سی کو دونوں ملکوں کی مستقل سرحد بنادیا جائے گا۔ چین کے ساتھ خصوصی تعلقات ختم کردیئے جائیں گے۔
اسرائیل کے خلاف ملک میں موجود نفرت کو ختم کیا جائے گا‘‘۔ 28 فروری 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں مینار پاکستان کے گرائونڈ میں عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا
’’اگر مغربی پاکستان بالخصوص پی پی پی کے ارکان قومی اسمبلی نے مشرقی پاکستان جاکر مجیب الرحمن کے بنائے ہوئے آئین پر انگوٹھا لگایا تو پھر واپسی پر ہم ان کی ٹانگیں توڑدیں گے‘‘۔ بھٹو نے اپنی تقریر میں مزید کہا ’’خدا گواہ ہے اے شاہی مسجد کے مینارو ، مینار پاکستان اور راوی کی لہرو تم بھی گواہ رہنا ہم ایک پاکستان چاہتے ہیں، ہم انتقال اقتدار چاہتے ہیں انتقال پاکستان نہیں۔ ہم مارشل لاء کا خاتمہ چاہتے ہیں، فوجی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں ، پاکستان کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ کسی بھی صورت میں نہیں چاہتے کہ مشرقی پاکستان کی قیادت کے ساتھ ہمارا سمجھوتہ نہ ہو۔ ہم ایک پاکستان چاہتے ہیں عوامی پاکستان‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر کے اختتام پر شیخ مجیب الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے سندھ کے صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا شعر پڑھا
’’میں ان کی (محبوب کی) منتیں کروں گا، قدم پکڑلوں گا کہ آج کی رات یہاں رک جائو‘‘۔
بھٹو نے مطالبہ کیا کہ ’’قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا جائے تاکہ میں ڈھاکہ جاسکوں اور بڑے بھائی شیخ مجیب الرحمن سے بات کرسکوں‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے 28 فروری 1971ء کو قومی اسمبلی کے مارچ میں بلائے گئے اجلاس کو ملتوی کرنے کے مطالبہ کو ملک دشمنی پر مبنی قرار دینے والے رجعت پسند اور لندن پلان کے سارے کردار ، شیخ مجیب الرحمن کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے مطالبہ پر منہ سے کچھ نہیں پھوٹے۔
نہ ہی وہ یحییٰ خان کے اس ظلم پر کچھ بولتے ہیں کہ اگر قومی اسمبلی نے 120 دنوں میں دستور سازی کا کام مکمل نہ کیا تو اسمبلی خودبخود تحلیل ہوجائے گی۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ مغربی پاکستان کی مہاجر پنجابی او پشتون اشرافیہ کا رویہ پہلے ہی دن سے نامناسب تھا۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں
’’میں نے صدر ایوب خان سے کہا کہ جب دونوں صوبوں میں کوئی قدر مشترک نہیں تو کیوں نہ بنگالیوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور انہیں خود سنبھالیں۔
ایوب خان نے میری بات سنی اور کہا شہاب!
مشرقی پاکستان کے بااثر لیڈروں سے بات کرو۔ اس مشورے کے تحت ایک دن میں نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر رمیض الدین سے بات کی تووہ برجستہ بولے
’’کیا میں علیحدگی کی بات کررہا ہوں؟ میں نے جواب دیا فیڈریشن میں زیادہ خودمختاری یا کنفیڈریشن جو بھی مناسب ہو۔
انہوں نے کہا ہم ہیں اکثریتی صوبہ اور یہ معاملہ ہے اقلیتی صوبہ کا، وہ چاہے تو الگ ہوجائے ہم تو پاکستانی ہیں‘‘۔
1948ء میں بھارت نے راوی، بیاس اور ستلج سے نکلنے والی نہروں کا پانی بند کردیا۔ 4 مئی 1948ء پاکستان کی طرف سے غلام محمد، سردار شوکت حیات اور میاں ممتاز دولتانہ نے بھارت سے معاہدہ کیا جس کی رو سے تین دریائوں پر بھارت کا حق ملکیت تسلیم کرلیا گیا۔
’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ قرار پانے والے اس معاہدہ کی ایوب خان نے 1960ء میں منظوری دی۔
بدنام زمانہ جج سابق چیف جسٹس محمد منیر جسے ایوب نے بعدازاں اپنا وزیر قانون بنالیا تھا، ایک دن ایوب خان سے کہا ’’قومی اسمبلی میں کوئی تعمیری کام تو ہوتا نہیں سارا دن بنگالی ارکان کی سخت سست باتیں سننا پڑتی ہیں‘‘۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ المیوں سے عبارت ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ روشن خیال کہلانے والوں نے جدوجہد تو کی مگر بہت کم (نہ ہونے کے برابر) لوگوں نے اس جدوجہد کے ہر قدم اور مرحلہ کو تاریخ کے اوراق پر محفوظ کرنے کی شعوری کوشش کی۔
تاریخ بولتی ہے اس کی زبان بندی بہت مشکل ہے۔ یہ بدقسمتی فقط ہماری نئی نسل کی میراث نہیں بلکہ ہماری نسل کے ساتھ یہی ہوا کہ اسے یک رخی تاریخ پر قناعت کرنا پڑی۔
ذوالفقار علی بھٹو ہماری نسل اور ہم سے چند برس بڑوں کے محبوب رہنما تھے (ذاتی طور پر وہ مجھے آج بھی محبوب ہیں) مگر ا ن کے حوالے سے رجعت پسندوں اور امریکی ٹوڈیوں کا پھیلایا گند تاریخ کے نام پر اب بھی دستیاب ہے لیکن ان کی پرعزم جدوجہد اور اس دور کی تاریخ کے دونوں رخ سامنے رکھ کر بہت کم لکھا گیا۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ مجھ سمیت سارے لوگ سیاستدانوں سے حساب بھی مانگتے ہیں اور منہ بھر کے گالیاں بھی دیتے ہیں لیکن 33سال براہ راست اور 10 سال ڈوریاں ہلاکر اقتدار کرنے والوں سے سوال کرنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا۔
پسِ نوشت //
دس برس قبل لکھی گئی اس تحریر کیلئے کتاب
” باہر جنگل اندر آگ ” ( آپ بیتی ) لکھنے پر
مجھ ایسے طالب علم کو مکرر سید علی جعفر زیدی صاحب کا شکر گزار ہونے میں کوئی امر مانع نہیں جنہوں نے ہزاروں صفحات میں گم سچائیوں کو کھوج کر ترتیب کےساتھ لکھا اور ساتھ ساتھ بھرپور تجزیہ بھی کیا۔ تاریخ بولتی بھی ہے صاحب!اسے کون چپ کرواسکتا ہے۔
ہاں جو اس کی آواز پر کان نہیں دھر رہے ان کیلئے ایک سورۃ فاتحہ کی ضرورت ہے۔