اب آپریشن ” عزمِ استحکام "…..حیدرجاویدسید
اس قومی شعور پر ہمارے ہاں کبھی کھلا مکالمہ نہیں ہوا بالکل اسی طرح خود افغانوں کے ہاں بھی اس پر مکالمہ نہیں ہوا کہ کیا وہ دودھ پیتے بچے تھے کہ انہیں دنیا نے امریکہ سوویت جنگ میں حصہ لینے پر مجبور کیا،
دہشت گردی کے ناسور کے خلاف گرینڈ آپریشن پر دو آراء نہیں اسی سبب گزشتہ روز نیشنل ایکشن پلان کی مرکزی ایپکس کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن عزم استحکام کے لئے دی گئی منظوری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن پچھلے چند برسوں اور بالخصوص افغان طالبان کی کابل واپسی کےبعد پاکستان میں دہشت گردی کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا اس کی وجوہات پر غوروفکر اور ان وجوہات پر عوام کو اعتماد میں لئے جانا ازبس ضروری ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی ابتداء سے اب تک ایک بڑا طبقہ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے ساتھ اس امر پر بھی متوجہ کرتا چلا آیا کہ ریاست علاقائی حاکمیت کے اندھے خوابوں کا تعاقب چھوڑ کر حقیقت پسندانہ طرزعمل اپنائے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ افغانستان میں پسندوناپسند کے کھیل کو بند کردیا جائے کیونکہ افغانستان میں حکومت کسی کی بھی ہو پاکستان سے اس حکومت کا معاندانہ رویہ افغانوں کے قومی شعور کا حصہ ہے۔
اس قومی شعور پر ہمارے ہاں کبھی کھلا مکالمہ نہیں ہوا بالکل اسی طرح خود افغانوں کے ہاں بھی اس پر مکالمہ نہیں ہوا کہ کیا وہ دودھ پیتے بچے تھے کہ انہیں دنیا نے امریکہ سوویت جنگ میں حصہ لینے پر مجبور کیا، زبردستی بندوقیں تھماکر میدان جنگ میں اتاردیا تھا؟ اپنی جنگجوآنا فطرت کے باعث خود افغانوں کے بڑے طبقے کو بھی نیا کاروبار مل گیا تھا۔
اس نکتہ پر ہمیں بھی غور کرنا ہوگا کہ جنگ کے کاروبار کو بڑھاوا دینے، مجاہدین پالنے پوسنے، چالیس لاکھ افغانوں کو اپنی جغرافیائی حدود میں مادر پدر آزاد چھوڑ دینے سے ہمیں (پاکستان) کو کیا ملا؟
مثال کے طور پر ڈاکٹر نجیب اللہ کے بعد جو بھی گروہ افغانستان میں برسراقتدار آیا اس نے پاکستان کو اپنا قومی مجرم قرار دیا جیسا کہ آج بھی افغان طالبان کی قیادت ہم پر بعض سنگین الزامات لگاتی ہے حالانکہ اس قیادت کو دنیا بھر کی تنقید کے باوجود ہمارے یہاں لاڈلوں کی طرح پالا گیا۔
اسی طرح ایک سابق افغان صدر حامد کرزئی برسوں تک خاندان سمیت پاکستان میں مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے لیکن جب وہ امریکہ کی گڈبک میں آکر افغانستان کے صدر بنے انہوں نے ’’اپنی توپوں‘‘ کا رخ پاکستان کی طرف کردیا۔ فقط یہی نہیں بلکہ انہوں نے بھارت کے اشتراک سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے باقاعدہ مشن شروع کیا جس میں بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں ساجھے دار تھیں۔
اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ طالبان کے دوحا معاہدے کی خلاف ورزی کیوں ہوئی؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر ہمارے یہاں بات کرنا ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ کیوں ملک دشمنی پر مبنی سوال ہے یہ، آخر لوگوں کو یہ حق کیوں حاصل نہیں کہ وہ اپنی ریاست سے دریافت کریں کہ چوالیس برسوں پر پھیلی اس کی افغان پالیسی سے پاکستانی معیشت کو جو چار سو کھرب ڈالر کا نقصان ہوا (نقصان کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے) اس کا ذمہ دار کون ہے؟
چوالیس برسوں پر پھیلی افغان پالیسی نے پاکستانی سماج کی وحدت، معیشت، مذہبی ہم آہنگی کو جو گہرے گھائو لگائے ان کے ذمہ داروں کے تعین اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ساتھ ماضی کے افغان جہاد اور پھر طالبان پروری کو پاکستان میں اپنے مسلکی و معاشی مفادات کا حصہ بناکر پالنے پوسنے والی قوتوں کی گوشمالی کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف جتنے مرضی آپریشن کرلیجئے اس کا نتیجہ صفر جمع صفر ہی نکلے گا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن (جیسا کہ اب آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی ہے ) سے قبل طالبانائزیشن سے ہمارے یہاں جن قوتوں اور عناصر کے مفادات بندھے ہوئے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے دور میں ہونے والے کابل مذاکرات کے پس منظر اور نتائج دونوں پر عوامی سطح پر نہ سہی پارلیمان میں تو بحث ازحد ضروری ہے۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس وقت کے صدر مملکت نے تحریک انصاف کی اس وقت کی صوبائی حکومت کے ایما پر جن 250 یا اس سے کم زیادہ افراد کی رہائی کا صدارتی حکم دیا اس کے لئے مجبوری کیا تھی نیز یہ کہ یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ کابل مذاکرات میں طلب کی گئی تاوان کی رقم میں سے کتنی رقم ٹی ٹی پی کو ادا کی گئی۔
ثانیاً اعدادوشمار کے ساتھ بتایا جائے کہ عمران خان کی قومی مفاہمت کے نام پر ٹی ٹی پی کے ہم خیال جن لوگوں کو واپس لاکر آباد کیا گیا ان کی تعداد کیا تھی؟
ہماری دانست میں د ہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوئی بھی آپریشن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم نہ ہوں اور خود پاکستان میں ان کے ہم خیالوں کی بیخ کنی نہ ہو۔
یہ امر بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہوا میں تلواریں چلانے جیسا نہیں عملی طور پر اس پر بھاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے دیکھا جانا چاہیے کہ سوات آپریشن سے آج تک جاری انسداد دہشت گردی مہم پر کل کتنے اخراجات ہوئے اور نتائج کیا ملے؟
اس امر سے کسی ذی شعور شہری کو انکار نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے تک اس سے جنم لینے و الے مسائل سے نجات نہیں مل سکتی لیکن بصد احترام یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ پسند و ناپسند اور گڈ طالبان و بیڈ طالبان کے جھمیلے مزید پالنے کی ضرورت ہے نہ ان کے مقامی ہم خیالوں سے کسی قسم کی رعایت برتنے کی کیونکہ جب تک شدت پسند تیار کرنے والی نرسریوں کی بھل صفائی نہیں ہوگی دہشت گردی کے خلاف آپریشن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کی صدارت میں نیشنل ایکشن پلان کی مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ اجلاس کے فیصلوں کی ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی تائید کی ہے ان کا صوبہ خیبر پختونخواہ ہی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ان کی جماعت پر ٹی ٹی پی کے لئے نرم گوشتہ رکھنے اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے الزامات عائد ہوتے آئے ہیں ۔
ایک نئی پاکستان دشمن مسلح تنظیم تحریک المجاہدین کے حوالے سے بھی بعض سوالات اٹھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے ان خاندانوں سے ہے جو ماضی میں جہاد پروری اور طالبانائزیشن کے بڑھاوے میں پیش پیش رہے۔
عین ممکن ہے کہ یہ رہنما اپنے خاندانوں کے ماضی کے نظریات سے متفق نہ ہوں مگر افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے ان کی محبت کے جو سوتے پھوٹے تھے ان سے کیسے صرف نظر کرلیا جائے؟
اندریں حالات بہت ضروری ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے آغاز سے قبل پارلیمان میں افغان پالیسی اورآپریشن عزم استحکام پر کھلی بحث کرالی جائے تاکہ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے 25 کروڑ لوگ متفق و متحد دیکھائی دیں۔