جوبائیڈن کو بین الاقوامی اور مقامی دباؤ کا سامنا…..سید عاطف ندیم
غزہ میں زیادہ تعداد میں امدادی گاڑیوں کو آنے دینے کے علاوہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی اسیران کی رہائی کی اجازت دے۔
جب حماس کے جنگجو سات اکتوبر کو اسرائیل پر طوفان الاقصیٰ کے نام سے چڑھ دوڑے کہ اسرائیلیوں کو ہلاک کریں اور ہرعمر کے سینکڑوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنائیں تو امریکی صدر جوبائیڈن نے حماس کے حملے کو سنگین برائی کا نام دیتے ہوئے اپنے شدید غصے کا فوری اظہار کیا۔
جو بائیڈن جہاز پکڑ کر اسرائیل پہنچے اور اسرائیل سے یہ کہتے ہوئے اپنی ہر طرح کی امداد پیش کرنے کا اعلان کیا کہ یہ اسرائیل کے حق دفاع کے لیے ہے۔ اس موقع پر جو بائیڈن نے یہ بھی کہا اگرخود امریکہ کو اس قسم کے حملے کا سامنا ہوتا تو امریکی جواب بھی تیز، فیصلہ کن اور بہت زبردست ہوتا۔ گویا سات اکتوبر کے حملے کے ساتھ ہی امریکی صدرکا یہ واضح اعلان تھا کہ ‘ امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے۔’
غزہ پر اسرائیل کی غیر معمولی بمباری کے چھ ہفتے گذرنے کے بعد اسرائیل کے لیے امریکہ کی دل بستہ حمایت میں کمی کا احساس ہوا۔ یہ تاثر تب ابھرا جب غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بہت اوپر چلی گئی اور امدادی اداروں نے خبر دار کیا کہ غزہ میں پانی، خوراک، ادویات، بجلی اور ایندھن کی شدید کمی ہو چکی ہے۔
اس لیے امریکہ نے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی کہ وہ جنگ بندی کے لیے اتفاق کرے۔ نیز یہ کہ غزہ میں زیادہ تعداد میں امدادی گاڑیوں کو آنے دینے کے علاوہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی اسیران کی رہائی کی اجازت دے۔
اسرائیل شروع میں جنگ بندی کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا، اس کا خیال یہ تھا کہ جنگ بندی کے نتیجے میں حماس اس وقت کو دوبارہ حملوں کی تیاری کے لیے استعمال کرے گا اور اپنا دفاع مستحکم کر لے گا۔ اس کے باوجود اسرائیل کو آگے بڑھ کر جنگ بندی کرنا پڑی۔ کیونکہ اس پر اندرونی دباؤ کے ساتھ ساتھ امریکی دباؤ بھی تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جائے۔ جبکہ بیرونی دباؤ میں مغربی ملک بھی شامل تھے۔
حماس کی کوشش تھی کہ جنگ بندی کولمبا کرلے اور صرف ایک یا دو امریکی رہا کر کے باقی یرغمالیوں کو روکے رکھے۔ حماس کے خیال میں ان یرغمالیوں کو جتنی زیادہ دیر کے لیے روکے رکھے گا اتنا ہی جنگ بندی کے لیے امریکہ کا اسرائیل پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔
جبکہ اسرائیل نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ اسے حماس کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس کا یہ پختہ ارادہ جنگ بندی کے بعد از سر نو بھی اسی طرح جاری ہے۔ امریکہ خبر دار کر رہا کہ شمالی غزہ میں اسرائیل نے جس طرح بمباری کی ہے وہ اسی طرح اب غزہ میں بمباری نہ کرے۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن بار بار خبر دار کر چکے ہیں کہ پہلے ہی اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ بلنکن نے اپنے حالیہ دورہ اسرائیل سے قبل ہی اسرائیل کو بتا دیا تھا۔ امریکی ترجیحات میں جنگ بندی کے نتیجے میں یرغمالیوں کی رہائی کے علاوہ غزہ میں شہریوں کے تحفظ کو بہتر کرنا اہم تر ہے۔
امریکہ کی ترجیحات میں یہ واضح تبدیلی تھی کہ وہ حماس کو شکست دینا، یرغمالیوں کو رہا کرانا اور غزہ کے شہریوں کا تحفظ چاہتا ہے۔ اس کے پیچھے عالم عرب اور مغرب دونوں کا دباؤ بھی ہے اور امریکہ کے اندر سے بھرنے والا سیاسی دباؤ بھی ہے۔ امریکہ جس نے اگلے سال صدارتی انتخاب سے گذرنا ہے، اس کے ہاں ووٹرز کے لیے غزہ میں اسرائیلی جنگ اہم اور بڑا موضوع بنتا جا رہا ہے۔
امریکی ٹی وی ‘ این بی سی’ کے ایک تازہ پول کے مطابق صدر جوبائیڈن کی مقبولیت انتہائی سکڑ کر چالیس فیصد رہ گئی ہے۔ جوبائیڈن کا اسرائیل حماس جنگ میں موقف اور پالیسی مقبولیت کی حالت اس قدر پتلی حالت ہو جانے میں اہم سبب ہے۔ امریکی ووٹرز کی 56 فیصد تعداد اور ڈیمو کریٹس کی 41 فیصد تعداد اسرائیل حماس جنگ کو ڈیل کرنے کے جوبائیڈن انداز کو پسند نہیں کر رہی ہے۔
ڈیموکریٹ ووٹر کی نصف تعداد کہہ رہی ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوجی حملہ بلا جواز ہے، اس لیے امریکہ کو اسرائیل کی حمایت سے رجوع کر لینا چاہیے۔ ڈیموکریٹس کے 70 فیصد نوجوان ووٹرز نہ صرف اسرائیل کی امریکی حمایت کے خلاف ہیں بلکہ مستقل جنگ بندی کی امریکی مخالفت کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں۔
نوجوان ڈیموکریٹس یہ تو نہیں کریں گے کہ اپنے ووٹ ٹرمپ کے حق میں استعمال کر دیں، لیکن ان کا ووٹنگ کے روز گھروں میں بیٹھے رہنا جوبائیڈن کا دوسری مدت کے لیے صدر بننا مشکل بنا سکتا ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ اپنے مخالف امیدوار جوبائیٖڈن پر جاری اس تنقید کو استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ اس میں بھی ناکام رہی ہے کہ حماس سے رہائی پانے والے یرغمالیوں میں شامل امریکی پہلے گروپ میں رہائی پا لیں گے۔
ٹرمپ سوشل میڈیا پر اس چیز کو اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ اس کی وجہ جوبائیڈن کی بطور ایک لیڈر کے عزت نہ ہونا ہے۔ ٹرمپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صدارت کے منصب پر وہ ہو تے تو حماس یہ حملہ کر ہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت گیری اپنا رکھی تھی۔
ڈیموکریٹس کے اندر جوبائیڈن کی پیدا ہونے والی مخالفت اب امریکی کانگریس میں بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ جہاں ایوان نمائندگان کے 24 ڈیموکریٹ ارکان نے رواں ماہ جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں فوری اور مکمل جنگ بندی کے لیے زور لگائیں۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس ابھی تک مکمل جنگ بندی کے مطالبے کی مزاحمت کررہا ہے۔ اگلا مرحلہ وہ آرہا ہے جب کانگریس جوبائیڈن انتظامیہ کے اسرائیل کے لیے 14 اعشاریہ تین ارب ڈالر کے مطالبے پر بحث کرنے جا رہی ہے۔ بعض ڈیموکریٹس کی طرف سے یہ بھی تیاری ہے کہ وہ اس امداد کے بل میں کچھ شرائط کے لیے ترمیم پیش کریں گے کہ اسرائیل کو امداد غیر مشروط دینے کے بجائے اس سے کچھ شرائط منوائی جائیں۔ اگر اسرائیل کی امداد کے لیے شرائط شامل کر دی جاتی ہیں تو یہ امریکہ میں ایک انوکھا واقعہ ہو گا۔
کئی ارکان کانگریس اسرائیل سے غزہ میں شہریوں کے تحفظ کے لیے’ ڈومور’ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ماہ نومبر کے شروع میں سینیٹ میں ڈیمو کریٹس کی اکثریت نے جوبائیڈن کی اسرائیل کے لیے ہنگامی امداد کی درخواست چیلنج کردی۔ نیز یہ مطالبہ کیا کہ اسرائیل سے’ گارنٹیز’ مانگی جائیں کہ وہ شہری ہلاکتوں کو کم سے کم کرے گا۔ ان ڈیموکریٹس کا دباؤ اس وقت ثمرآور ثابت ہوا جب جوبائیڈن نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا اسرائیل کے لیے امداد کو مشروط کرنے کا ‘ آئیڈیا’ قابل قدر سوچ ہے۔
صدر جوبائیڈن نے خود کو حماس کے خاتمے کے لیے اسرائیلی حمایت کا پابند بنا رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حماس کا یہ خاتمہ تیزی سے ہو، فیصلہ کن ہو اور زبردست ہو۔ اسرائیل نے فوجی ایکشن جس طرح سے شروع کیا ہے وہ شکوک و شبہات کی زد میں آچکا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جنگ شمالی غزہ سے جنوبی غزہ میں منتقل ہو چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہری مسلسل جنگ کی زد میں ہیں۔ اس صورت حال میں جوبائیڈن کو بین الاقوامی اور مقامی دباؤ کا سامنا کرنا ہو گا کہ وہ کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ ان کا دوبارہ الیکشن جیتنے کا امکان بن سکے اور خطرات ٹل جائیں۔