
غیرت کے نام پر قتل: قانون، معاشرہ اور انصاف کی کشمکش………سید عاطف ندیم
حالیہ برسوں میں عدالتوں کے کچھ فیصلے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے ملزمان اکثر قانونی پیچیدگیوں، ناقص تفتیش یا خاندانی دباؤ کے سبب رہا ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ ملک کے عدالتی نظام، سماجی ڈھانچے اور حکومتی رٹ کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں قانون سازی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں سے اس مسئلے پر کچھ توجہ دی گئی ہے، مگر اعداد و شمار، عدالتی فیصلے، اور پولیس کی کمزور تفتیش یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف جنگ ابھی بہت پیچھے ہے۔
سن 2016 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی شخص غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرتا ہے تو اسے لازمی عمر قید کی سزا ہوگی، چاہے مقتول کے ورثا معاف کر بھی دیں۔ اس سے قبل 2005 میں ایک ایسی شق ختم کی گئی تھی جس کے تحت قاتل خود کو مقتول کا وارث قرار دے کر معافی حاصل کر سکتا تھا۔
تاہم، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ قانون اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں ہو رہا۔ کئی کیسز میں خاندان کیس کی نوعیت بدل کر اسے عام قتل ظاہر کرتے ہیں، یوں معافی اور ملزم کی رہائی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ تفتیشی اداروں کی نااہلی اور کمزور استغاثہ بھی ان مقدمات میں انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
حالیہ برسوں میں عدالتوں کے کچھ فیصلے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے ملزمان اکثر قانونی پیچیدگیوں، ناقص تفتیش یا خاندانی دباؤ کے سبب رہا ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
بلوچستان کیس (2024): کوئٹہ کے علاقے دگاری میں ایک خاتون اور مرد کو مقامی جرگے کے حکم پر قتل کیا گیا۔ اس کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس سے ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کیا، لیکن بعد میں بلوچستان ہائی کورٹ نے مرکزی ملزم سردار شیر باز خان ستکزئی کو پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت دے دی۔ اس سے قبل ماتحت عدالت نے ضمانت مسترد کی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ضمانت کو قانون کی ناکامی قرار دیا۔
قندیل بلوچ کیس (2016): سوشل میڈیا پر مشہور قندیل بلوچ کو ان کے بھائی محمد وسیم نے قتل کیا۔ سن 2019 میں انہیں عمر قید کی سزا ہوئی، لیکن 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے والدین کی معافی اور اعتراف جرم کی بنیاد پر انہیں بری کر دیا۔ یہ اپیل اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
کوہاٹ اور دیگر کیسز: سن 2022 میں کوہاٹ کے شریف اللہ کو بیٹی کے قتل پر سزا ہوئی، لیکن 2023 میں کمزور شواہد کی بنیاد پر رہائی ملی۔ اسی طرح 2017 میں سپریم کورٹ نے حافظ آباد کے کیس میں تین ملزمان کو رہا کیا اور 2021 میں پشاور ہائی کورٹ نے دوہرے قتل کے ایک کیس میں ملزم کو بری کر دیا۔
عدالتی حلقوں کا موقف ہے کہ فیصلے شواہد کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور کسی بھی شہری کا منصفانہ ٹرائل اس کا آئینی حق ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ شواہد اکثر جان بوجھ کر کمزور رکھے جاتے ہیں اور تفتیشی عمل میں خاندان، پولیس یا مقامی بااثر افراد کی ملی بھگت شامل ہوتی ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی جرگے یا روایتی پنچایتیں غیر قانونی فیصلے کرتی ہیں جن میں لڑکیوں کو قتل کرنا یا زبردستی شادی جیسے فیصلے شامل ہوتے ہیں۔ سردار شیر باز کیس میں بھی مقامی جرگے نے فیصلہ سنایا تھا جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے دو افراد کو قتل کر دیا گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کے مطابق، ریاست کو ایسے جرائم کو بغاوت تصور کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ’’معاشرے کے کچھ حصے آج بھی صدیوں پرانی دقیانوسی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں، جنہیں توڑے بغیر انصاف ممکن نہیں۔‘‘
HRCP کی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران غیرت کے نام پر پاکستان میں تقریباً 500 خواتین قتل ہوئیں۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب (178)، سندھ (134)، خیبر پختونخوا (124)، بلوچستان (33) اور گلگت بلتستان (18) میں رپورٹ ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف رپورٹ شدہ کیسز ہیں، جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی کیسز میں قتل کو خودکشی یا حادثہ قرار دے کر چھپا دیا جاتا ہے، یا پولیس مقدمہ ہی درج نہیں کرتی۔
انسانی حقوق کی کارکن منیزے جہانگیر کے مطابق، ’’غیرت کے قتل کو عام قتل بنا کر عدالتوں میں پیش کرنا ایک طے شدہ حکمت عملی بن چکی ہے، جس سے معافی کا راستہ کھل جاتا ہے۔‘‘ ان کی والدہ، معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ہر خاتون کے قتل کو غیرت کا قتل سمجھا جائے تاکہ ریاست ذمہ داری لے اور کارروائی کرے۔
سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک معاشرے میں عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا ہے، غیرت کے نام پر قتل کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ اسکولوں، میڈیا، اور مذہبی حلقوں میں اس موضوع پر کھل کر بات کرنا ہوگی تاکہ عوامی شعور بیدار ہو۔
غیرت کے نام پر قتل کے مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
جرگوں اور غیرقانونی پنچایتوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
تفتیشی اداروں کی تربیت اور احتساب کا سخت نظام نافذ کیا جائے۔
عدالتی نظام میں استغاثہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ثبوت ضائع نہ ہوں۔
میڈیا اور اسکولوں میں خواتین کے حقوق اور عزت نفس پر خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
غیرت کے نام پر قتل کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جائے تاکہ معافی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو۔
غیرت کے نام پر قتل پاکستان کے سماجی اور عدالتی نظام کا ایک ایسا زخم ہے جو اب ناسور بنتا جا رہا ہے۔ قانون موجود ہے، مگر اس پر عملدرآمد کی کمی، روایتی سوچ، خاندانی دباؤ، اور ناقص تفتیش انصاف کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں۔ جب تک ریاست اس جرم کو صرف قانون شکنی نہیں بلکہ انسانی عظمت کی توہین سمجھ کر سنجیدگی سے نمٹے گی، تبھی کوئی حقیقی تبدیلی ممکن ہو سکے گی۔