اسلام آباد پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی):سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف صدارتی ریفرنس پر اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ایک بے گناہ شخص کو شفاف ٹرائل کے بغیر پھانسی دی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جناب سے پیر کو جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کے دوران ملک میں مارشل لا تھا اور عدالتوں کی آئینی حیثت نہیں تھی۔ ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لا کی قیدی تھیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48 صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس سردار طارق مسعود تحریری رائے میں اضافی نوٹ دیں گے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالت پھر عوام کی عدالت نہیں رہتی۔
’ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ ضیا الحق کو ہوا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیا الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔‘
عدالت نے کہا ہے کہ ایف آئی اے نے بھٹو کیس کی فائل ملنے سے پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا، پولیس تفتیش مکمل کر چکی ہو تو ایف آئی اے کو فائل دوبارہ کھولنے کا اختیار نہیں۔
’بھٹو کیس کی تفتیش دوبارہ کرنے کا کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔ ہائی کورٹ نے خود ٹرائل کر کے قانون کی کئی شقوں کو غیرموثر کر دیا۔‘
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی انہوں نے کی جن کی ذمہ داری ان کا تحفظ تھا۔ بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ان کے خلاف کوئی براہ راست شواہد موجود نہیں تھے۔‘
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 11 سال تک ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہو سکا، وہ تمام ججز جنہوں نے ریفرنس پر ابتدائی سماعتیں کیں وہ ریٹائرڈ ہو گئے۔ سپریم کورٹ واضح کرنا چاہتی ہے کہ نہ ہم اپیل سن رہے ہیں نہ ہی نظرثانی، آئین یا قانون ایسا میکانزم فراہم نہیں کرتا جس کے تحت سزا کو کالعدم قرار دیا جا سکے۔
’سپریم کورٹ سے نظرثانی خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا کا فیصلہ حتمی ہو چکا تھا، صدارتی ریفرنس میں حتمی ہو جانے والے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو قائم مقام گورنر بنا کر عارضی چیف جسٹس کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ چھ ماہ تک جسٹس مشتاق حسین قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ رہے حالانکہ چیف جسٹس کا عہدہ آئینی طور پر لمبے عرصے تک خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ’قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی مخصوص حالات میں ہی ہو سکتی ہے۔ جسٹس یعقوب علی نے بطور چیف جسٹس پاکستان عہدے کا چارج چھوڑ دیا تھا، آئین میں ججز کے مستعفی ہونے یا ریٹائرمنٹ کا ذکر ہے چارج چھوڑنے کا نہیں، جسٹس انوار الحق کی بطور چیف جسٹس تعیناتی جسٹس یعقوب علی کے چارج چھوڑنے پر ممکن ہوئی۔‘