کربلا۔۔۔قائدین کیلئے ایک سنہری سبق…..عابد نوربھٹی
مال و دولت ،جاہ و ثروت اورپرکشش عہدوں کے لالچ دئیے جاتے ہیں اوریوں لوگوں کو اپنے گرد مجتمع کیا جاتاہے اور ایسا اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے کہ جو ایک دفعہ ساتھ آ جائے وہ کسی صورت بھی دور نہ ہو اورچھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہ کرے
اس میں کوئی شک نہیں کہ کربلاکا واقعہ مرقعۂ مصائب ہے جو صرف دعوت آہ و نالہ اورتحریک اشک افشانی کا ہی سرمایہ نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہِ تعلیم و تربیت بھی ہے جس سے انسانی رفعت کی شاہراہیں وا ہوتی ہیں۔ عام طورپر کسی عمل کا کوئی ایک پہلو ہی قابل ذکر ہوتاہے اوراسے ہی نمایاں گردانا جاتا ہے مگر واقع کربلا اپنی مختصر مدتِ وقوع کے باوجود تمام اہم تعلیمات کا مرکزہے۔ عموماًدنیا کے سیاستدان اورقیادت پسند افراد جب کسی تحریک کے داعی ہوتے ہیں تووہ جن لوگوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں ان سے طرح طرح کے دلفریب وعدے کرکے اورطرح طرح کی خوش آئندتوقعات کے خواب دکھا کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ فتح وظفر کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں ۔مال و دولت ،جاہ و ثروت اورپرکشش عہدوں کے لالچ دئیے جاتے ہیں اوریوں لوگوں کو اپنے گرد مجتمع کیا جاتاہے اور ایسا اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے کہ جو ایک دفعہ ساتھ آ جائے وہ کسی صورت بھی دور نہ ہو اورچھوڑ کر جانے کا تصور بھی نہ کرے۔کون راہنماہو گا جو اپنی مایوسیاں ،ناامیدیاں اورصحیح صورتحال ان لوگوں پر آشکار کردے جن سے اسے کام لینا مقصود ہوں ۔تاریخِ انسانی نے ایسا قائد دیکھا ہی نہیں جوافرادی قوت کی شدید قلت کے باوجود دستیاب افراد سے خود کہے کہ تم ہماراساتھ چھوڑ دو ۔ہمارے پاس سے چلے جاؤاورہم نہیں چاہتے کہ تم ہماری وجہ سے جان دو۔مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دوسروں کو دھوکے میں مبتلا رکھنے ا ورانہیں اپنے ساتھ رکھنے کیلئے ان میں غلط توقعات پیداکرنے یاکم ازکم خاموش رہ کر انہیں غلط فہمی میں مبتلا رکھنے سے انسان کی سچائی ، ایمانداری اوردیانت پریقیناًحرف آتا ہے اسی لئے امام حسین ؑ نے شروع سے آخر تک اس بات کی کوشش کی کہ کوئی آپ کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا نہ ہواورغلط توقعات وابستہ کر لینے کی بناء پر ساتھ دینے کیلئے آمادہ نہ ہو۔آپؑ ان تمام افراد کو جو راستے میں آپ کے ساتھ ہمراہی اختیار کرتے رہے ،برابر حقیقت حال اوراپنے آخری انجام سے مطلع کرتے رہے اوراعلان فرماتے رہے کہ اس سفر میں ہمارا آخری نتیجہ موت ہے۔
جب ابھی آپ مدینہ منورہ سے روانہ بھی نہیں ہوئے تھے اورصرف آپ کے اعزّہ ہی ہمراہی پر آمادہ تھے اس وقت بھی تاریخ میں آپ سے ایسی باتیں منقول ہیں جن سے خودبخودموت کے استقبال کی تیاری کا پتہ چلتاتھا چنانچہ طبری میں ہے کہ ابوسعید مقبری ناقل ہیں کہ میں نے امام حسین ؑ کی ۶۰ھ میں مدینہ سے روانگی سے صرف دوروز قبل اس وقت دیکھاجب آپ ؑ مسجد نبوی میں تشریف لے جارہے تھے او رآپ ؑ کی زبان پر مفرغ شاعر کا یہ قول بطور تمثیل جاری تھا کہ ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ موت کے خو ف سے میں ذلت کو برداشت کروں اوراس وقت کہ جب موت میری تاک میں ہو،میں ہٹ جاؤں‘‘۔یہ کوئی تقریر نہیں تھی اورنہ کوئی اعلانِ خاص تھا مگر سننے والے نے سمجھ لیا اوربقول ابو سعید مقبری میں نے ان اشعار کو سنتے ہی اپنے دل میں کہہ دیا کہ بخدا ان اشعار کاپڑھنا رمز سے خالی نہیں اورکوئی نہ کوئی خاص مہم امام ؑ کے پیشِ نظر ہے ۔اس کے بعد دودن نہ گذرے کہ آپ ؑ مدینہ سے روانہ ہوگئے۔مکہ میں قیام کے دوران بھی امام حسینؑ نے اپنے ارد گرد افراد مجتمع کرنے اورافرادی قوت یں اضافہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔تمام مسلمان حج کی ادائیگی کیلئے مکہ میں جمع ہورہے تھے ور امام حسین ؑ کے ایک اشارے پر ایک کثیر تعداد آپ کی ہمنوا اورساتھ دینے پر آامادہ ہو سکتی تھی لیکن امام حسینؑ کی نظر افراد کی تعداد پر تھی ہی نہیں ۔ اسی لئے جب مسلمان حج کی ادائیگی کیلئے احرام باندھ رہے ،امام حسینؑ اوران کے خاندان کے افراد اپنے اپنے احرام کھول کر مکہ سے رخصتی کیلئے سامان باندھ رہے تھے ۔جب میدان عرفات امام حسینؑ سے منسوب دعائے عرفہ سے گونج رہاتھا خود امام حسین ؑ میدان عرفات کو الوداع کہہ رہے تھے ۔حرمت کعبہ کا تقاضہ تھا کہ امام حسینؑ اور خاندانِ نبوت اپنے اپنے اس حج کو موقوف کردے جس کی ادائیگی کیلئے وہ پانچ ماہ سے مکہ میں انتظار کر رہے تھے ۔حاجیوں کے بھیس میں قاتلوں کی موجودگی کا پتہ چلنے پر امام حسین ؑ نے احرام کھول کو حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور عازمِ عراق ہوئے لیکن کعبہ کی حرمت پر حرف نہ آنے دیااورنہ ہی حج پر آئے مسلمانوں کے سامنے واویلاکرکے انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ کعبہ کی حرمت امام حسینؑ کو اتنی عزیز کیوں تھی اس پر مورخین نے اپنی آراء میں کئی جہتیں بیان کی ہیں۔بیت اللہ کی نگرانی امام حسینؑ کو نہ صرف اجداد سے وراثت میں ملی تھی بلکہ بیت اللہ ان کے والد گرامی حضرت علی ؑ کی جائے ولادت بھی تھی۔امام حسین ؑ اپنے ننھیال اور ددھیال دونوں کے طرف سے بیت اللہ کے وارث تھے اس لئے انہیں حرمت مکہ عزیز تھی اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ خانہ خدا میں کسی قسم کی بدامنی پیدا ہو اور خون کا ایک قطرہ بھی بہے کیونکہ بیت اللہ میں تو درخت کاپتہ توڑنے اور مکھی یا مچھر مارنے کی بھی اجازت نہیں ۔تواریخ کی کتب میں تحریر ہے کہ امام حسین ؑ کی مکہ سے روانگی کے وقت بعض لوگ آپ ؑ سے متعلق بہت خوش آئند توقعات قائم کرچکے تھے کیونکہ کوفہ عراق کا پائے تخت ،زرخیرز خطہ،تجارت کا بڑا مرکز اورحضرت علی ؑ کا دارالسلطنت رہ چکا تھا۔لوگوں کی غلط خیالی انہیں اس دھوکے میں مبتلا کئے ہوئے تھی کہ کوفہ علی ؑ اوراولادِ علی ؑ کے دوستوں سے بھراہواہے اوروہاں سے سینکڑوں خطوط آچکے ہیں کہ آپ ؑ آئیے اورہم آپؑ کی نصرت میں اپنا خون پسینے کی طرح بہانے کو تیار ہیں ۔ان خطوط کے بعد حضرت مسلم بن عقیل ؑ روانہ کئے جاچکے تھے اوران کاخط بھی امام ؑ کوآچکا تھا کہ اٹھارہ ہزارسے زائد آدمی ان کے ہاتھ پربیعت کرچکے ہیں ۔ان سب کے بعد امام حسین ؑ کوفہ کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو عام لوگوں کا اس متعلق یہی خیال تھا کہ آپ ؑ ایک ایسی جگہ جارہے ہیں جہاں تاج وتخت کے مالک ہوں گے اوربادشاہ تسلیم کئے جائیں گے۔اس لئے بعض افراد کا اس خیال کے تحت آپ ؑ کے ساتھ ہو جانا کہ کوفہ جاکر آپؑ کی سلطنت سے مستفید ہوں گے،ایک فطری عمل تھا۔اس صورتحال میں اگر آپؑ کوفہ تشریف لے جاتے تو یقیناایک لشکر کی حیثیت کی حامل کثیر جماعت آپ کے ساتھ ہوتی لیکن آپؑ کو قطعاًیہ منظور نہ تھا۔آپؑ نے عام لوگوں کے سامنے حقیقت کو واضح کرنے اورسب پر یہ آشکار کرنے کیلئے کہ ان کی خوش آئند توقعات سراب سے زیادہ نہیں ،مکہ معظمہ سے روانگی سے ایک دن قبل ایک تاریخی خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’موت اولادِ آدم ؑ کے گلے کا ہار ہے ۔ میں اپنے اسلاف سے ملاقات کا اتنا ہی مشتاق ہوں جتنا یعقوب، ؑ یوسف ؑ کی ملاقات کے مشتاق تھے۔میرے لئے بہتر وہ جگہ ہے جہاں میں قتل کرکے گرایا جاؤں گا۔ وہ منظر میرے پیش نظرہے جب میرے جوڑ بند وحشی درندے قطع کررہے ہوں گے،میرے خون سے اپنی پیاس بجھارہے ہوں گے ۔کوئی چارۂ کار نہیں ،کوئی مفر نہیں اس دن سے جو تقدیر کے قلم نے لکھ دیا ہے۔جو خداکی مرضی ہو اسی میں ہم اہلِ بیتؑ کی مرضی ہے ۔ہم اس کی آزمائش پر صبر کرتے ہیں اورجو صابرین کا اجر ہے اس کو پورا پوراحاصل کرتے ہیں ۔ رسول خدا ﷺ سے ان کے جگر کے ٹکڑے دور نہیں ہو سکتے بلکہ وہ بارگاہِ اقدس میں جنتِ اعلیٰ میں ان کے پاس جمع ہونے والے ہیں جن سے ان کی آنکھیں خنک ہوں گی اوران کا وعدہ پورا ہوگا۔جو اپنی جان میرے ساتھ فدا کرنا چاہتا ہواورموت پر کمر باندھے ہو وہ میرے ساتھ چلے ۔میں صبح کو انشاء اللہ روانہ ہوجاؤں گا‘‘۔غورفرمائیں کہ امام حسین ؑ کن الفاظ میں لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔کیااس سے بڑھ کر دینا میں حقانیت اورسچائی کا کوئی ثبوت ہوسکتاہے؟کیا اس سے صاف گوئی اورپاکبازی کا مظاہرہ ہوسکتاہے؟یہ تقریر مکہ معظمہ میں کی گئی جس نے ہر قسم کی غلط فہمی کے پردے کو چاک کردیا اورمسلمانوں پر حقیقت حال واضح کردی۔
مکہ سے روانگی کے بعد دوران سفر راستے کے اعراب ،بادہ نشین قبائل اوردوسرے بے خبر اشخاص امام کو دیکھتے ہیں کہ ایک جمیعت کے ساتھ قافلے کی صورت جارہے ہیں ۔دریافت کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ عراق کا ارادہ ہے اوروہاں کے لوگوں نے امام ؑ کو دعوت دی ہے۔جو بھی یہ سنتاہے امام حسین ؑ کے ساتھ چل پڑتا ہے ۔نتیجتاً مکہ سے چلنے والی مختصر جماعت کے ساتھ راستے میں طرح طرح کے لوگ شریک ہوتے جاتے ہیں اورقافلہ کی حیثیت رکھنے والی مختصر سی جمعیت ایک لشکر کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔کوئی اورہوتا تو اس ناخواندہ اژدہام کو غنیمت سمجھتااوراس کے اپنے ساتھ ہوجانے کو بہترین اتفاق خیال کرتا۔انہیں گرویدہ بنائے رکھنے اوراپنی گرفت سے نکلنے نہ دینے کیلئے وعدے وعید کرتالیکن امام حسین ؑ نے اس صورتحال کو برداشت نہ کیا بلکہ حضرت مسلم بن عقیل ؑ ،ہانی بن عروہ اپنے قاصد عبداللہ بن یقطر کی کوفہ میں شہادت کی خبر ملنے پر منزل زبالہ پر قیام فرمایا اورایک تحریر جسے سرکاری بیان کہنا چاہئے ،اہل قافلہ کے مجمع میں پڑھ کر سنائی کہ ’’ہمیں یہ دردناک خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ؑ ،ہانی بن عروہ اورعبداللہ بن یقطر شہید کردیئے گئے اورہماری دوستی کا دعویٰ کرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ۔اس صورتحال کے بعد جو شخص تم میں سے واپس جانا چاہے ،وہ واپس چلا جائے ۔ہماری طرف سے اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔‘‘
امام حسین ؑ کے اس تحریری بیان کے بعد لوگ متفرق ہونے لگے اوردنیاوی جاہ وجلال اورمفاد کیلئے ساتھ ساتھ چلنے والوں نے اپنی راہ لی یہاں تک کہ بس وہی منتخب جماعت باقی رہ گئی جو آپ کے ساتھ مدینہ منورہ سے آئی تھی۔گویامجمع چھٹ جانے کے بعد وہی چنیدہ اورمخصوص لوگ رہ گئے جو مکہ معظمہ میں آپ کی تقریر سن چکے تھے اورحقیقتاً دنیاوی مفادات کی بجائے موت پر آمادہ تھے۔کربلا پہنچ کر دسویں محرم کی شب جبکہ صلح کی تمام راہیں بھی مسدود ہوچکی تھیں ،ایک رات کی مہلت بمشکل مانگے سے ملی تھی ،امام ؑ کے ساتھ گنتی کے چند منتخب افرادرہ گئے تھے جو موت کے یقینی ہونے کا ذکر کئی بار سن بھی چکے تھے مگر امام حسین ؑ نے چاہا کہ خطرہ کے سامنے آنے کے بعد بھی اپنے ساتھیوں کو موقع دے دیاجائے۔چنانچہ آپ ؑ نے ایک مبسوط اوریادگار خطبہ ارشاد فرمایا اوراس میں صاف طور پر کہہ دیا کہ کل کا دن ہمارادشمنوں کے ساتھ تاریخی دن ہوگا۔آپ نے چراغ گل کردئیے اور اپنے اصحاب اوراعزہ سے فرمایاکہ ’’میں نے تمھارے متعلق غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تم سب اس وقت چلے جاؤاورمیر ی اجازت سے میرا ساتھ چھوڑ دو۔تم پر میری طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔دیکھو رات کا پردہ پڑگیا ہے اسے تم اپنے لئے غنیمت جانو اوراس سے فائدہ اٹھاؤ۔تم خود بھی جاؤ اوراتنا بھی کرو کہ تم میں سے ہر ایک میرے ایک ایک عزیز کا ہاتھ پکڑ لے اوراسے ساتھ لیتا جائے۔اس کے بعد اپنے اپنے دیہات اورشہروں میں متفرق ہو جاؤتاوقتیکہ تمہیں کشائش ہو اوربنی امیہ کی سلطنت سے نجات حاصل ہو۔یہ لوگ تو صرف اورصرف میرے طالب ہیں ۔میں انہیں مل جاؤں گا ،وہ مجھے قتل کرڈالیں گے تو پھر انہیں کسی دوسرے کی فکر نہ ہوگی۔‘‘
یہ آخری اتمامِ حجت تھا لیکن ایک ایسی جماعت کے سامنے جس میں کوئی فرد حقیقت حال سے بے خبر ہوکر یا کسی طمع اورحرص کی وجہ سے ساتھ نہیں آیا تھا۔لہٰذاایک طرف اعزہ کھڑے ہوگئے اوردوسری طرف اصحاب اورسب نے مل کر امام ؑ کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا۔امام حسین ؑ نے اپنے اس طرزِعمل سے سیاست،سماج یا کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے ان تمام افراد کو جو قیادت اورراہنمائی کا جذبہ لے کر میدان عمل میں نکلنے کے خواہاں ہیں یا عملی طور پر کسی جماعت،تنظیم اورتحریک کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں،ایک سنہری سبق دیا ہے کہ دنیا میں حقانیت ،ضمیر کی پاکیزگی اورامانت کا ہر لمحہ لحاظ رکھنا چاہئے۔قائدین عوام الناس کی کسی غلط فہمی
یاان کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر اپنا مقصد نہ نکالیں اورکبھی غلط توقعات قائم کرکے اپنی کاربراری نہ کریں ۔امام حسینؑ کی ہر مقام پر حقیقت حال اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھنے اورانہیں اپناساتھ دینے پر مجبور نہ کرنے کا عمل ہمارے لیڈروں کیلئے ایک سنہری اصول فراہم کرتا ہے اوروہ یہ کہ اگر ہمارے قائدین اپنے کارکنوں ،پیروکاروں اورساتھیوں کو حقیقت حال سے کلی طور پر آگاہ رکھیں اورذاتی مفادات کی خاطر حقائق کی پردہ پوشی نہ کریں تو ان کے کارکن ،پیروکار اورساتھی ان پر جان نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔کسی بھی معرکے میں اگر حقیقی فتح سے ہمکنا رہونا ہو تو صاف گوئی کو اپناہتھیار بنائیں اورمفاد پرستوں کی غلط اندیشی اورفریب خوردگی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے صرف اورصرف حقیقی جانثاروں کی ہی ہمدردی قبول کریں ۔کربلا کی ابدیت کے دیگررموز کے ساتھ ساتھ ایک رمز جانثاری ، اخلاص اوروفاپرستی کایہ سرمدی اصول بھی ہے۔