کالمزناصف اعوان

نئے دور کے نئے تقاضے…..ناصف اعوان

یہ الگ بحث ہے مگر اس کے متحارب ممالک نے یہ طے کر لیا تھا کہ سویت یونین کو کمزور کرکے اس قابل نہ رہنے دیا جائے کہ وہ اپنے نظام معیشت کو آگے پھیلا سکے پھر ایسا ہی ہوا۔

جب دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی تو ہم امریکی بلاک میں شامل تھے لہذا سویت یونین کے قریب ہونے سے قاصر تھے یہاں اس کے خلاف مغرب کی طرف سے باقاعدہ مہم چلائی گئی اس کے نظام کو انسان دشمن کہا گیا ۔جب افغان جنگ کا آغاز ہوا تو یہ قیاس کیا گیا کہ اگر سویت یونین کو افغانستان سے باہر نہ نکالا گیا تو وہ گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا لہذا ساری دنیا اس کے مقابل آن کھڑی ہوئی .
کہا جاتا ہے کہ سابق یونین کو وہاں کی حکومت نے اپنے اوپر متوقع کسی حملے کے دفاع کے لئے بلوایا تھا اگر ایسا نہیں بھی تھا تو وہاں اس کی ہم نوا حکومت ہی تھی یعنی اس نے افغانستان پر چڑھائی نہیں کی تھی ۔خیر ایسا تھا یا نہیں تھا یہ الگ بحث ہے مگر اس کے متحارب ممالک نے یہ طے کر لیا تھا کہ سویت یونین کو کمزور کرکے اس قابل نہ رہنے دیا جائے کہ وہ اپنے نظام معیشت کو آگے پھیلا سکے پھر ایسا ہی ہوا۔ سویت یونین کے لئے اپنی نحیف و نزار معاشی حالت کے پیش نظر جنگی اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو گیا تھا اس کے عوام چیخ اٹھے تھے اس سے پہلے کہ کوئی انہونی ہوتی اس نے واپسی کا فیصلہ کر لیا پھر یہاں وہاں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے اور تاریخ ہے۔
کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر متعارف ہوا جس کے اثرات نئی نسل پر مرتب ہونے لگے۔ جو لوگ افغانستان سے یہاں آ بسے تھے ان کو پورے ملک میں نقل و حمل کی پوری آزادی تھی جس سے مقامی آبادی پر غیر موافق تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بہرحال اب ہمارے کانوں پر جوئیں رینگنے لگی ہیں کہ سابق سویت یونین سے نئے سرے سے تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں ۔ ”چند روز پہلے وزیر اعظم میاں نواز شریف روس کے صدر ولادیمیر سے شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ کونسل کے اجلاس کے موقع پر ملے ہیں ۔دونوں رہنماؤں نے تجارت توانائی اور دیگر شعبوں سمیت تعلقات کار کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم روس سے بارٹر تجارت کے خواہاں ہیں ۔ہمارے تعلقات کو جغرافیائی سیاسی تبدیلی یا کوئی ملک پاک روس تعلقات پر اثر انداز نہیں ہو سکتا ۔انہوں نے صدر پیوٹن کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی اور انہیں ایک بار پھر روس کے صدر منتخب ہونے پر مبارک باد بھی دی “
ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب افغان جنگ لڑی جا رہی تھی تو سویت یونین کے پاکستان میں تعینات سفیر نے فلٹیز ہوٹل کی ایک تقریب میں واضح طور سے کہا کہ ہم پاکستان کو مفت جدید ٹیکنالوجی کی پیشکش کرتے ہیں تاکہ وہ ہر شعبے میں خود کفیل ہو سکے مگر ہم چونکہ امریکی بلاک میں میں شامل تھے لہذا ہمارے لئے یہ ممکن نہیں تھا اس کے باوجود بھٹو صاحب کے دور میں سٹیل مل لگائی گئی تھی جو ملک کی بیشتر ضروریات پورا کرنے لگی مگر آہستہ آہستہ وہ سیاست کی نزر ہوتی گئی آج وہاں سناٹا ہے ۔
سویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہمیں چاہیے تھا کہ اس سے جدید مشینری حاصل کر لیتے مگر شاید ہمیں مغرب کو ناراض نہیں کرنا تھا روس تو ایک طرف ایران سے گیس پائپ لائن کی ابھی تک تکمیل نہیں ہو سکی مگر اب ہمیں مصلحتوں کے حصار سے باہر آنا ہوگا کیونکہ ملک کی معیشت شدید طور سے متاثر ہے ۔دیکھ لیجئیے ملکی نظام کو چلانے کے لئے آئی ایم ایف کی سخت سے سخت شرائط کو بھی ماننا پڑ رہا ہے ۔اس نے بجلی کی قیمت میں اب پھر سات أٹھ روپے کا اضافہ کروایا ہے لوگ سراپا احتجاج ہیں چیخ چلا رہے ہیں سوائے اہل زر کے پورا ملک تڑپ رہا ہے شدید گرمی اگر کسی کا پنکھا نہ چلے تو اس پر کیا بیتے گی مگر ہماری حکومت مجبور ہے وہ اس ہر فیصلہ وحکم من وعن تسلیم کیے جا رہی ہے افسوس یہ بھی ہے کہ اس میں بیٹھے کچھ لوگ کہتے ہوئے بتائے گئے ہیں کہ عوام کا کیا ہے ملک بھی تو چلانا ہے ۔اس بے حسی اور لاپرواہی سے عوام میں غم و غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کے مشوروں سے دور رہیں وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں
تو عوام کے مفاد میں منصوبہ بندی کرنا ہو گی اس حوالے سے وہ روس سے تجارت توانائی کی جو بات کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے ۔
بات سوچنے والی یہ بھی ہے کہ جب عمران احمد خان نیازی سستا تیل اور گندم خریدنے کے ضمن میں روس گئے تھے تو اس پر شور کیوں اٹھا تھا واشنگٹن کو شاید یہی لگا تھا کہ پاکستان کا رخ اس سے مڑ رہا ہے کیا اب بھی وہ یہ محسوس نہیں کر رہا ہو گا ؟ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق کہ پاکستان موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی پر کسی بڑی طاقت کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ اسے ڈکٹیٹ کرے ۔ہمیں اس بات کی بے حد خوشی ہے ۔ہم کب تک ڈکٹیشن لیں گے اور کب تک دوسروں کے مفادات کا خیال رکھیں گے؟ سارا ملک انگاروں پر لوٹ رہا ہے معیشت ہماری تباہ حال ہے سماجیات کی بھی یہی حالت ہے ۔عوام میں روز بروز غم وغصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ انہیں مسائل کی لہر در لہر نے ادھ موا کر دیا ہے ان کی برداشت ختم ہو چکی ہے سکت جواب دے گئی ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ وہ سڑک پرآ گئے ہیں اس صورت حال کے پیش نظر اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہم روس کے ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے زیادہ سے معاہدے کریں گیس تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی کوئی معاہدہ کریں ۔حکمرانوں کے لئے کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لیں انہیں بتائیں یقین دلائیں کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں ان کے مسائل کو بغور دیکھ رہے ہیں مگر وسائل کی کمی کے باعث انہیں تکالیف اٹھانا پڑ رہی ہیں ۔ وسائل پر قابض ممالک اور ان کے عوام کو بتانے اور سمجھانے کے حوالے سے جاوید خیالوی مشورہ دے رہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پر امن احتجاج کرنے والوں کو نہ روکے تاکہ آئی ایم ایف اور فنڈز فراہم کرنے والے ممالک کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ پاکستان کے لوگ کس قدر اذیت میں مبتلا ہیں “
حکومت ایسا نہ بھی کرے لوگ تنگ آ چکے ہیں
آنے والے دنوں میں مہنگائی کی جو کالی آندھی چلنے والی ہے وہ لوگوں کے غصے میں اور اضافہ کرے گی پھر وہ دہلیز پار کرنے پر مجبور ہوں گے مگر یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ اگر واقعی حکومت اپنے رخ پر چلنے کا ارادہ رکھتی ہے یعنی روس سے معاملات طے کرکے معیشت کو سنبھالا دینا چاہتی ہے تو اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں مگر اسے فی الفور کوئی احسن قدم اٹھانا ہو گا اس کے لئے قرضہ باہر سے نہیں اندر سے لینا ہو گا جو تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور سرمایہ دار دینے کی پوزیشن میں ہیں !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button