عابد نوربھٹیکالمز

درسِ عاشور…..عابد نوربھٹی

باطل طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر جس طرح نواسہَ رسول اور فاطمہ;174; کے لخت جگر امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف جام شہادت نوش کیا،

تاریخ انسانی کے پہلے قتل حضرت آدم ;174;کے بیٹے قابیل کا اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اتارنے سے لیکر موجودہ صدی کے امریکی اوراسرائیلی سامراج کے ذریعہ افغانستان ، عراق ، شام اور فلسطین کی بھیانک تباہی تک تاریخ کی آنکھوں نے بے شمار خونی واقعات کا نظارہ کیا ہے ۔ روئے زمین نے اپنے سینے پر بہت سے واقعات کے نقوش کندہ کر رکھے ہیں ۔ اس عالم آب وگل میں قتل و خون، سفاکیت ، درندگی، بہیمیت اور خون ریزی سے آمیز کتنے ہلاکت خیز مناظر اسٹیج کئے جاچکے ہیں لیکن باطل طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر جس طرح نواسہَ رسول اور فاطمہ;174; کے لخت جگر امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف جام شہادت نوش کیا، بلکہ غیر اسلامی عناصر کا غرور خاک میں ملا کر حق و باطل، خیر و شر، نیکی اور بدی کے مابین واضح حد فاصل بھی قائم کردی،وہ آج بھی ہر ذی عقل کے قلب پر اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اسی طرح نقش ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف فرزندان توحیدہر سال محرم کی دسویں تاریخ کو اس واقعہ کے نقوش کو اپنے قلب کے نہاں خانوں میں تازہ کرتے اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے فلسفے کو سلام و احترام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔ بلکہ اس قافلہَ حق کے ہر فرد کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنے کو اپنا دینی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ بھی تصور کرتے ہیں ۔ کتب تاریخ میں یہ دن یوم عاشور یا عاشورہ کے نام سے بھی سے مذکور ہے ۔

یوم عاشور 61ہجری کو رونما ہونے والا یہ لرزہ خیز واقعہ صرف ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جنگ نہ تھی، طاقتور اور کمزوروں کے درمیان خون ریزی سے بھی اس کو تعبیر کرنا قرین انصاف نہیں ، بلکہ اس میں آزادی کی تڑپ اور غلامی کے خلاف نفرت کا عالمی اعلان تھا اور یہ حق و باطل کے درمیان اسلامی تاریخ کی وہ فیصلہ کن جنگ تھی جس کی معنویت اور معتبریت میں ماہ وسال کی گردش کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ ہر طرح کے سامان حرب و ضرب سے مسلح یزیدی لشکر کے سامنے گنتی کے نہتے اور بے سروسامان قافلہَ حسینی کی جنگ دراصل خیر و شر کے درمیان ایسی معرکہ آرائی تھی کہ جس کی مقدار و معیار دونوں اعتبار سے آج کے ترقی یافتہ دور میں اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی کہ 61ہجری کے اس جاہلانہ دور میں تھی ۔ یوم عاشور گواہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے اندر دراصل وہ دینی جذبہ اور ایمانی جوش و ولولہ موجود تھا، جس نے انہیں باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے کی توانائی بخشی ۔ ان کی ایمانی کیفیت پر حق و صداقت کی سان چڑھائی اور ان کے رگ و ریشے میں اسلامی حقیقت کی وہ برقی لہر دوڑادی کہ انہوں نے راہ حق میں اپنا سر تن سے جدا کرانے کے مشکل ترین عمل کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ مکمل کرلیا ۔ امام حسین علیہ السلام اگرچاہتے تو وہ کربلا کا سفر کبھی اختیارنہ کرتے، دنیاوی عہدے اور مناصب سمیت ہر قسم کی آرائش ان کے قدموں میں رہتی لیکن آپ نے وقتی مفادات کی قربان گاہ پر اسلام کے آفاقی اور دائمی پیغام کوترجیح دی ۔ آپ ;174;نے جس نبوی گود میں پرورش پائی تھی اور آپ کی بچپن اور جوانی کی تربیت جس پیغمبرانہ ماحول میں ہوئی تھی،اس میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ باطل کسی طور بھی حق کے خلاف سازشوں کا تانا بانا بننے میں مصروف عمل رہے اور توحیدی قافلہ ایمانی گنبد میں بیٹھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے غیبی مدد کی راہ تکتا رہے ۔

امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے روز و شب ایسے پاکیزہ اور صالح اسلامی ماحول میں گزرے تھے جہاں آرام طلبی اورمفاد پرستی کے قافلوں کو پرمارنے کی بھی ہمت نہ تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے لئے رخت سفر باندھ لیا تو پھر لاکھ فہمائش اور ہزار دنیاوی جاہ و جلال کی پیش کش کے باوجود ان کے قدموں میں لغزش نہ آئی، مصلحتوں کودامن گیر ہونے کی جرات نہ ہوئی ۔ ایوان باطل میں حق گوئی و حق پرستی کا نعرہ بلند کرنے کا وہ قابل رشک نشہ دماغ میں سمایا ہوا تھا کہ تمام تر ظاہری بے سر و سامانی اور حالات کی ناسازگاری کے باوجودامام حسین اور حسینی قافلہ راہ حق پر رواں دواں رہا ۔ عاشورہ اپنے جلو میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کا خزینہ رکھتا ہے اورہ میں یہ یاد دلاتا ہے کہ باطل کے خلاف کس طرح ایک سچے مجاہد کا رول ادا کیا جاتا ہے ۔ جب انسانیت ظلم کی چکی میں پس رہی ہو اور آدم و حوا کی اولاد کو سر عام رسوا کیا جارہا ہو، اس وقت ہر صاحب ایمان کا کیا فرض بنتا ہے;238;کیا وہ ذلت کی زندگی گزارتا اورچند روزہ زندگی کے راحت و آرام کی قیمت پر اپنی عزت کا سودا کرتا رہے یا اس چندوزہ زندگی کو عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارنے کے لئے اپنی قیمتی متاع کو بھی داؤ پر لگا دے;238;امام حسین علیہ السلام کی زندگی اوریوم عاشور تک کے ان کے سفر کربلا سے ہ میں یہی درس ملتا ہے کہ چندروزہ زندگی کو عزت و سربلندی اور تمام تر اسلامی فتح مندی کے ساتھ بسر کیا جائے ورنہ اس ذلت سے عبارت زندگی کو خیر باد کہہ کر جام شہادت نوش کر لینا چاہئے ۔

یہ حقیقت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے باطل کے خلاف مزاحمت اور جد و جہد کا یہ سفر کسی دنیاوی غرض، جاہ و منصب کے حصول یا خون ریزی کے مقصد سے نہیں کیا تھا بلکہ وہ دین اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کے قافلے کو ہمیشہ کے لئے پابہ سلاسل کردینا چاہتے تھے ۔ انہیں ہرگز یہ پسند نہیں تھا کہ اسلام اور مذہبی شعائر پر باطل طاقتیں خم ٹھونک کر میدان میں آرہی ہوں ، شیطان و ابلیس کے کارندے روئے زمین پر دندناتے پھر رہے ہوں اور ایک سچا مسلمان ان کے خلاف مزاحمت کا صور پھونکنے کے بجائے اپنی مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ جائے ۔ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ روانگی سے پہلے ہی صاف لفظوں میں یہ واضح کردیا تھا کہ میرا یہ سفر صرف نانا کے دین کے آفاقی پیغام کو عام کرنے اور بھٹکے ہوئے ہوؤں کو پھر سے سوئے حرم لے چلنے کے لئے ہے ۔ انھوں نے کہا تھا ’’ میں مدینہ طیبہ سے اس لئے رخت سفر باندھ رہا ہوں کہ میرے نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر جو ظلم ہورہا ہے اور جو لوگ اللہ کے معصوم بندوں کو دام تزویر میں پھانس رہے ہیں ، ان کی اصلاح کر سکوں ‘‘ ۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کی معیت میں مختصر سا قافلہ حسینی کربلا کے بے آب و گیاہ میدان میں فروکش ہوا تو ان کے رفقائے کار نے حوصلہ اور عزم و ہمت اور جواں مردی و جراَت مندی کا ایک ایساعظیم مظاہرہ کیا کہ چشم فلک بھی حیران اور انگشت بدنداں تھی ۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے جگر گوشوں کی درد ناک موت کے دلدوز مناظر کوخوداپنی آنکھوں سے دیکھا، قلب و نظر کی خوشی کا سامان فراہم کرنے والے جس جس نور نظر نے کبھی ان کی گود میں بیٹھ کر کلکاریاں کی تھیں ، آج ان سب کی خاک و خون میں لت پت لاشیں ان کے بے بس کاندھوں پر تھیں ۔ آسمان سے دھوپ نہیں آگ کے شعلے برس رہے تھے، زمین کے سینے سے گرم بگولے بلند ہورہے تھے، کئی دنوں کی پیاس کی وجہ سے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے، مگر کیا مجال کہ امام حسین علیہ السلام کے پائے استقامت میں ذرہ برابر لغزش آئی ہو اورآخر میں جب اپنا سر تن سے جدا کرانے کا وقت آیا، توایسا نہیں ہوا کہ کسی خوف اور ڈر یا لالچ مکے سبب انہوں نے اس دنیا کی چند روزہ متاع کے بدلے اپنے اصولوں ، آدرشوں ، اپنے عقائد اور مسلمات کا سودا کرلیا ہو;238; یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ آج دنیا کا ہر فرد ان کی شہادت کے غم میں برابر کا شریک ہے اور انسانی آنکھیں گریہ و زاری کا جاں گسل منظر پیش کر رہی ہیں ۔ روز ازل سے قافلوں کی طرح انسان کی اس عارضی دنیا میں آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے اور ہر آنے والا دن کسی نہ کسی کی موت کی اندوہناک خبر لے کر آتا ہے لیکن کیا کوئی ایسی شخصیت ہے جس کی موت کے جانکاہ حادثے پر ایک دو سال نہیں ، بلکہ چودہ سو سال سے بلا تعطل ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمناک ہو;238;گردش ماہ و سال اور انقلابات زمانہ کے بے رحم ہاتھوں میں بھی یہ طاقت پیدا نہ ہوسکی کہ وہ روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے واقعے پر نسیان کا پردہ ڈال سکے بلکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے جذبے میں عالمی پیمانے پر اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔ جب جب عاشور کا دن قریب آتا جاتا ہے ،امام حسین علیہ السلام ،ان کے خاندان اوران کے اصحاب کی شہادت کا واقعہ روشنی کا مینارہ بن کر ہ میں دعوت فکر و عمل دیتا ہے اور ہ میں اس شہادت کے عظیم فلسفے کو اپنے قلب و ذہن میں جاگزیں کرنے کا عظیم درس دیتا ہے ۔

عاشور کے روش ہونے والے خانوادہ َ رسول اعظم ﷺ کی شہادتیں اومخدرات پر ہونے والے مظالم محض ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ یہ ہم انسانوں کی زندگی کا منشور اور ہماری عملی راہوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ اس میں زندگی گزارنے اور موت و حیات کے درمیانی عرصے کے لئے دستور اورہمارے لئے فکر و عمل کا بیش قیمت سرمایہ پنہاں ہے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ، بلکہ ساری اقوام و ملل کے لئے درس اور پیغام حیات موجود ہے ۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے صحیح کہا تھا: ’’حسین علیہ السلام کی قربانی ہر فرقے و قوم کے لئے مشعل راہ ہے‘‘ ۔ یہ تصور بالکل غلط اور عامیانہ ہے کہ موت سے زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ بلکہ اصل زندگی تو موت کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد ہی ملتی ہے ۔ ایک عظمیم مفکرکے ان جملوں میں یہی صداقت پوشیدہ ہے کہ: ’’وہ امت جو جینے کا عزم کر لے، اس کے مٹنے کا کیا سوال;238; اس سے تو موت دور بھاگتی ہے ۔ ‘‘ اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر نے جو یہ کہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اس کا صاف مطلب ہے کہ روزِ عاشورکربلا کے ریگ زار میں امام حسین علیہ السلام کا قتل دراصل اس وقت کے یزید کا قتل تھا ۔ امام حسین علیہ السلام تو شہادت کے بعد بھی زندہ جاویدہیں اور ان کے کارناموں کے روشن نقوش تاریخ کے اوراق میں ہی نہیں بلکہ ہر فرد بشر کے ذہنوں پر ثبت ہیں ۔ اصل قتل تو اس یزید اور یزیدی روش کا ہوا تھا جو نوع انسانی کو اپنی سرکشی کے سامنے سر بسجود کرنے کی پالیسی کو روبہ عمل لانے پر بضد تھی ۔ امام حسین علیہ السلام خدائی نصرت پر ایمان ضرور رکھتے تھے لیکن انھوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس وقت کا انتظار کرنے کا راستہ نہیں اپنایا کہ جب آسمان سے پتھروں کی بارش ہواور یزیدی قافلہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے یا پھر تیز ہواؤں کا آتشیں بگولہ آئے اور پوری یزیدی مملکت تہہ و بالا ہوجائے یا انہیں قوم نوح کی طرح سمندر کی گہرائیوں میں دفن کردیا جائے بلکہ وہ خدا کی مدد پر یقین رکھتے ہوئے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ خود باطل طاقتوں سے میدان کارزار میں دو بدو مقابلہ کیلئے اترے اور حق کی سر بلندی و فتح مندی کا علم دنیا کے نقشے پر اس انداز میں لہرا دیاکہ کوئی طاغوتی طاقت اسے آج تک سرنگوں نہیں کر سکی ۔ ۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button