بلبلیں تب چہکتی ہیں جب باغوں میں خزاں نہ ہو…..ناصف اعوان
بلبلیں تب ہی چہکتی ہیں جب باغوں میں خزاں نہیں ہوتی پھلواڑی رنگ برنگے پھولوں سے سجی ہوتی ہے جو ماحول کو معطر کر رہی ہوتی ہے ۔
چہرے بدل بدل کر بیانیے بدل بدل کر اور پینترے بدل بدل کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جا رہی ہیں ۔
بدلو اس نظام کو جس نے بیزاری و اکتاہٹ کو جنم دیا مگر ایسا اشرافیہ کے مفاد میں نہیں تو پھر عوام بھی ان کے نہیں ان کے دل کسی اور کے لئے دھڑکتے ہیں وہ اس کے لئے بھی دھڑک سکتے ہیں اگر ان کے دکھوں کا مداوا کر دیا جائے ان کی پریشانیوں کے خاتمے کے لئے راہ سہل تلاش کر لی جائے !
بلبلیں تب ہی چہکتی ہیں جب باغوں میں خزاں نہیں ہوتی پھلواڑی رنگ برنگے پھولوں سے سجی ہوتی ہے جو ماحول کو معطر کر رہی ہوتی ہے ۔
ہمیں آخر کیسے جینا ہے اس طرح کی زندگی زیادہ دیر تک تو نہیں گزرے گی پابندیاں چاہے جتنی بھی ہوں گی سب بے سود ہوں گی کیونکہ جسم و جاں بھوکے پیاسے نہیں رہ سکتے صدائیں بہر صورت بلند ہوتی ہیں اور جب یہ مجتمع ہو جاتی ہیں تو قدرت کا نظام حرکت میں آجاتا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوکھے پیڑوں پر سر سبز شگوفے نمودار ہو جاتے ہیں ہریالیاں جدھر دیکھو نظر آرہی ہوتی ہیں ۔
صرف اہل زر کو زندہ رہنا ہے محکوموں کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے کہ نہیں جن کی وجہ سے یہ ساری رونقیں ہیں ۔تخت و تاج شاہانہ زندگی بلند وبالا پر شکوہ عمارتیں کھربوں کی جائیدادیں ان ہی کے دم سے ہیں لہذا اتنا نظر انداز نہ کرو کہ وہ تم سے دور جا کھڑے ہوں اور پھر ایک طوفان بن کر کھڑے ہو جائیں مگر اس کا اندازہ ضرور ہو گا ۔آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا کوئی بھی لمحہ‘ ٹھہر نہیں سکتا آگے بڑھ جاتا ہے ۔
ہم نے چاہا کہ کوئی غمگسار آئے کہ ہماری دنیا ہی بدل جائے گی ہم سکون کی وادیوں میں سانس لیں مہکتے موسموں کی آغوش میں امن پیار کے گیت گائیں مگر ہوا اس کے بر عکس کوئی بھی ساعت چین کی نصیب نہیں ہوئی۔
ہمیں کوئی غم نہیں تھا بہت پہلے مگر حالات کی بدلتی رُتوں نے ہر خواب بکھیر کے رکھ دیا پائل کی چھنکار کو سرکاری کنگنوں کی کھنکھناہٹ میں بدل دیا خوف کی بدلیاں ہمارے سروں پر منڈلانے لگیں ۔ جینے کی راہ ہی پُرخطر دکھائی دینے لگی
ایسے میں ہمیں یاد آنے لگا ہے وہ بیتا ہوا زمانہ کہ جب راستے اور پگڈنڈیاں کس قدر دل فریب تھے ان پر کسی خوف کی پرچھائیاں نہیں تھیں کوئی خطرہ سر اٹھائے نہیں ہوتا تھا ہم سب ایک خاندان کی طرح رہتے تھے ۔بہاریں آتیں تو خون میں ایک نیا جوش پیدا ہو جاتا ۔راتیں سہانی ہوتیں میل جول تھا قہقہے تھے درد ایک دوسرے کا سانجھا تھا جسموں میں توانائی تھی بیماریاں ایسے نہیں ہوتیں جس طرح آج ہیں۔ ملاوٹ سے پاک ہر شے کھانے کو ملتی ایک تندرست سماج تھا جو محنت مشقت کرتا اور لمحوں سے محظوظ ہوتا محفلیں تھیں ایک دوسرے کے پاس بیٹھنا لازمی تھا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا فرض سمجھا جاتا مگر نجانے وہ سب کہاں چلا گیا ؟
شایدجو ہم نے تھوڑی بہت ترقی کر لی ہے جدید دور میں داخل ہو گئے ہیں پرانی ٹیکنالوجی کی جگہ نئی نے لے لی ہے جس نے اعصاب شل کر دئیے ہیں اپنوں کی پہچان باقی نہیں رہی مشینوں کو سب کچھ سمجھ لیا ہے مگر وہ زخموں پر مرہم کب رکھتی ہیں وہ تو احساس سے خالی ہوتی ہیں یہ خونی و انسانی رشتے ہوتے ہیں جو چھلنی دلوں کی رفو گری کرتے ہیں اس کا ادراک وفہم ابھی ہمیں نہیں مگر ہو گا بہت جلد ہو گا کیونکہ بندے کو بندے کے ساتھ رہ کر جینا ہے !
یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی راہ میں بیٹھا ہو اور اسے کوئی پوچھے تک نا کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو تمھارا دکھ کیا ہے ؟
تنہا سفر حیات طے ہو نہیں سکتا کوئی عقل کل ہو سکتا ہے نہ ہی وہ زندگی کے لوازمات اکیلا پورے کر سکتا ہے اسے دوسروں کا قُرب چاہیے ہوتا ہے جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم تو پیسے والے ہیں ہمیں کسی کی کیا ضرورت ‘ یہ ان کی کم عقلی ہے یا پھر ہٹ دھرمی۔ ان کے چہرے دوسروں کی وجہ سے دمکتے ہیں چمکتے ہیں ان کی خدمت انسان ہی کرتے ہیں روبوٹ نہیں ہاں وہ بھی ان کے محلوں میں آجاتے ہیں تو وہ انہیں اطمینان قلب نہیں دے سکتے کہ وہ احساسات وجذبات سے عاری ہوتے ہیں لہذا وہ کسی کو دلاسا دے سکتے ہیں نہ ہی محبت و پیار کی کوئی ایک بوند۔ہم یہاں پھر لب کشائی کریں گے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا اہل اختیار عامیوں کی صدا پر کان نہیں دھرتے وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اشرافیہ ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عقل کل کسی محدود عقل کے مالک سے متاثر ہو لہذا ہونا وہی ہے جو طاقتور چاہیں گے ۔ایسا شروع دن سے ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا ۔اس کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے اگر کوشش کی جائے مگر اجتماعی کوشش نہیں ہو رہی سبھی خود بخود ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اس وقت تک وہ یونہی شکوہ کریں گے شکایت کریں گے جبکہ مہدی حسن کہتے ہیں شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے یہاں غم کے مارے تڑپتے رہے !
کیا دور آگیا ہے کہ اب لوگ خواب دیکھنا ہی بھول گئے ہیں ایک خوف مسلط ہے بھوک کا۔
”جاوید خیالوی کہتا ہے کہ صبر کرنا سیکھو وگرنہ یہ زندگی کسی گہری کھائی میں جا گرے گی جو تمھارے پاس ہے اسی پر جینے کی مشق کرو آسائشوں کو بھول جاؤ یہ وہاں ہوتی ہیں جہاں دل ریشم کی طرح نرم و ملائم ہوں ذہنوں میں اُبال نہ ہوں وہ اذیت سے مبرا ہوں یہاں تو نفرت ہی نفرت ہے گُلوں کو وہ آنکھ کیسے دیکھے جو سکَوں کے ڈھیروں پر مرکوز ہو لہذا چپ رہو جیتے جاؤ“
ہم اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے ہم پر امید ہیں حکمرانوں سے‘ کہ ان کے دل پتھر کے نہیں ان میں خون کی گردش رہتی ہے لہذا وہ ضرور محسوس کریں گے ۔”خلیل جبران کہتا ہے کہ ہر بڑے آدمی کے دو دل ہوتے ہیں اندوہ والم محسوس کرنے والا دل اور غور فکر کرنے والا دل“
وہ جنہوں نے اب تک عیش و عشرت کی زندگی بسر کی ہے غور کریں کہ جو لوگ مصائب جھیلتے رہے ہیں ان کی خاموشی کہیں بپھری ہوئی موجوں میں تبدیل نہ ہو جائے کیونکہ خواب ‘ خواب ہی نہیں رہتے مجسم بھی ہو جاتے ہیں لہذا نسیم صبح بہر صورت چلے گی گُلوں میں رنگ بھی بھریں گے پھر یہ نظام کُہنہ بدل جائے گابس یہی اک آس ہے اور ہر آس منزل کی ہی جانب جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ قدم بڑھتے رہیں رکاوٹوں کو عبور کرتے رہیں !