اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا۔۔۔۔ طیبہ بخاری
واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک اپنے ایمان کی حرارت کو اپنے قلم کی روشنائی سے الفاظ کی شکل میں تاریخ کے خزینوں میں محفوظ کرتے آ رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے
رسول اکرم ﷺکا فرمان مبارک ہے کہ ”شہادت ِ حسینؓ سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہو گی جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔“(مستدرک الوصیل)اس حرارت کا منہ بولتا ثبوت ان گنت علماء، ذاکرین، مدبرین، مفکرین اور شعراء ہیں جو واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک اپنے ایمان کی حرارت کو اپنے قلم کی روشنائی سے الفاظ کی شکل میں تاریخ کے خزینوں میں محفوظ کرتے آ رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔ آج اسی خزینے سے ایک نگینہ جوش ملیح آبادی کی شکل میں ہم نے چْنا ہے۔ جوش نے جس پْر جوش انداز میں امام عالی مقامؓ کی عظیم و مقدس قربانی کو لکھا، جس جوش سے پڑھاوہ اپنی مثال آپ ہے۔ جوش کا جوشیلا کلام ہر سننے، پڑھنے والے کو جوجوش دلاتا ہے اسے کوئی بھی باذوق یا دردِ دل رکھنے والا فراموش نہیں کر سکتا۔کہنے کو مرثیہ شہدائے کربلا اور واقعات کربلا کے حالات بیان کرنے کے لیے لکھا جاتا ہے، لیکن مرثیہ گو کی شان تخلیق اور قوت اظہار سے مرثیہ ایک ادبی شاہکار بن جاتا ہے۔ اس میں قصیدے کی شان و شکوہ، جلالت و بلاغت ہوتی ہے۔ مثنوی کی سادگی و سلاست اور قصہ پن، منظر نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، محاکات کے جاندار وسیع و ہمہ گیر مرقعے نظر آتے ہیں۔مرحوم انتظار حسین نے کہا تھا کہ میر انیس و مرزا دبیر اردو مرثیے کی آبرو ہیں۔ ویسے تو اردو میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مرثیوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ غزل کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی دوسری صنف اتنے بڑے ذخیرہ سے مالا مال ہو مگر محرم کے موقع پر عزاداروں کو اولاً انیس و دبیر ہی یاد آتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ میر انیس اور مرزا دبیر مرثیے کی آبرو ہیں لیکن مرثیہ نگاری میں جوش ملیح کی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جوش کی مرثیہ نگاری روشنی کا ایک مینار ہے جس کی روشنی سے اردو مرثیہ کی بہت سی شاہراہیں جگمگا اٹھی ہیں۔ انہوں نے مرثیہ کو ایک نئی ترتیب دینے کی کوشش کی اور فکری عنصر کی شمولیت سے ترتیب کو وسعت دی۔ جوش کے مرثیے مقصدِ شہادت کو بیان کرنے کی عظیم کوشش ہیں۔ انہوں نے اردو مرثیے کی تاریخ کو نئے موڑ سے آشنا کیا۔ موجودہ صدی میں جوش واحد شاعر ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اردو شاعری میں ”جدید مرثیہ“ کے باب کا اضافہ کیا۔ جوش نے پہلا مرثیہ ”آوازہ ئ حق“ 1918ء میں کہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں زوروں پر تھیں، آزادی کی جنگ میں بدیسی سامراج کیخلاف انہوں نے اپنی شاعری سے بھرپور کام کیا اور اس سلسلے میں واقعہ کربلا کے علائم اور رموز استعمال کئے۔ آزادی کی جدوجہد کو جوش نے ”تازہ کربلا“ کا نام دیا اور اس کی کامیابی کیلئے ”عزم حسین ؓ“ کی طلب کی۔ جوش کے مرثیوں میں سیرت ِ امام حسینؓ کے بیان میں عزم و ہمت، بے خوفی، شجاعت، صبر و استقلال کی تصویر سامنے آتی ہے
قربان تیرے نام کے اے میرے بہادر
تو جانِ سیاست تھا تو ایمانِ تدبر
معلوم تھا باطل کے مٹانے کا تجھے گْر
کرتا ہے تری ذات پہ اسلام تفاخر
سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ صداقت کا سبق تھا
تلوار کے نیچے بھی وہی کلمۂ حق تھا
شعلے کو سیاہی سے ملایا نہیں تْو نے
سر کفر کی چوکھٹ پہ جھکایا نہیں تو نے
وہ کون سا غم تھا جو اٹھایا نہیں تو نے
بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا نہیں تو نے
دامانِ وفا گھر کے شریروں میں نہ چھوڑا
جو راستہ سیدھا تھا وہ تیروں میں نہ چھوڑا
جوش ملیح آبادی نے قوم کو بیداری کا پیغام اس طرح سنایا
اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیرِ حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر شخص حسینؓ ابنِ علیؓ ہو
1941ء میں تحریک آزادی عالمگیر جنگ کے سبب اپنے پورے شباب پر تھی تو جوش نے”حسینؓ اور انقلاب“ کے نام سے مرثیہ لکھا، یہ مرثیہ سننے کیلئے پورا ادبی لکھنؤ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس مرثیے کی مقبولیت نے مرثیہ نگاری کے جدید رحجان سے عوام و خواص کو روشناس کرایا۔ اس کے بعض بند آج بھی زبان زد ِ عام ہیں
تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دم بدم
دشتِ ثبات و عزم ہے، دشت بلا و غم
صبرِ مسیحؑ و جرأتِ سقراط کی قسم
اس راہ میں ہے صرف اک انسان کا قدم
جس کی رگوں میں آتشِ بدر و حنین ہے
جس سورما کا اسم ِ گرامی حسینؓ ہے
جوش ملیح آبادی اپنے اصول مرثیہ گوئی کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ
جو کاروانِ عزم کا رہبر تھا وہ حسینؓ
خود اپنے خون کا جو شناور تھا وہ حسینؓ
اک دینِ تازہ کا جو پیمبر تھا وہ حسینؓ
جو کربلا کا داورِ محشر تھا وہ حسینؓ
جس کی نظر پہ شیوۂ حق کا مدار تھا
جو روح انقلاب کا پروردگار تھا
جوش کے کلام میں ایک خاص بات ہر خاص و عام آسانی سے تلاش کر سکتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنایا
ہر چند اہلِ جور نے چاہا یہ بارھا
ہو جائے محو، یادِ شہیدانِ کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسینؓ کا
لیکن کسی کا زور عزیز و نہ چل سکا
عباسؓ نامور کے لہو سے دْھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
جوش ملیح آبادی نے فکری موضوعات اور جدید فنی تقاضوں کو سامنے رکھ کر مرثیے کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔
کربلا ایک تزلزل ہے محیطِ دوراں
کربلا خرمنِ سرمایہ پہ ہے برقِ تپاں
کربلا طبل پہ ہے غربتِ آوازِ اذاں
کربلا جرأت انکار ہے پیشِ سلطاں
فکر حق سوز یہاں کاشت نہیں کر سکتی
کربلا تاج کو برداشت نہیں کر سکتی
جوش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تلخ گو اور بے باک شاعر ہیں، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جو کچھ کہا گرج کر برس کر کہا۔
جب تک اس خاک پہ باقی ہے وجودِ اشرار
دوش انسان پہ ہے جب تک حشم تخت کا بار
جب تک اقدار سے اغراض ہیں گرم پیکار
کربلا ہاتھ سے پھینکے گی نہ ہرگز تلوار
کوئی کہہ دے یہ حکومت کے نگہبانوں سے
کربلا اک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے
شبِ عاشور کے ایک منظر کی منظر کشی جوش ملیح آبادی اپنے کلام میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ
وہ اہلِ حق کی تشنہ دہاں، مختصر سپاہ
باطل کا وہ ہجوم کہ اللہ کی پناہ
وہ ظلمتوں کے دام میں زہراؓ کے مہر و ماہ
تارے وہ فرطِ غم سے جھکائے ہوئے نگاہ
وہ دل بجھے ہوئے وہ ہوائیں تھمی ہوئیں
وہ اک بہن کی، بھائی پہ نظریں جمی ہوئیں
لبریز زہر جور سے وہ دشت کا ایاغ
دکھتے ہوئے وہ دل وہ تپکتے ہوئے دماغ
آنکھوں کی پتلیوں سے عیاں وہ دلوں کے داغ
پْر ہول ظلمتوں میں وہ سہمے ہوئے چراغ
بکھرے ہوئے ہوا میں وہ گیسو رسولؐ کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتولؓ کے
وہ رات وہ فرات وہ موجوں کا خلفشار
عابدؓ کی کروٹوں پہ وہ بے چارگی کا بار
وہ زلزلوں کی زد پہ خواتین کا وقار
اصغر کا پیچ و تاب وہ جھولے میں بار بار
اصغر میں پیچ و تاب نہ تھا اضطراب کا
وہ دل دھڑک رہا تھا رسالت مآبؐ کا
جوش ملیح آبادی کی علمی ادبی کاوشوں کو ہمارا سلام ۔۔۔اور ایسے تمام اذہان اور ارواح کو ہمارا سلام جو قیامت تک امام حسینؓ کی شہادت سے ”حرارت“ پاتے رہے ہیں اور پاتے رہیں گے۔