عابد نوربھٹیکالمز

واقعہ َکربلا کی ہمہ گیری …..عابد نُوربھٹی

یوں تو اکثر انبیاء اورمقربین ابنائے زمانہ کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہوئے ،بہت سے بے گناہ افراد قتل کئے گئے،بہتوں کا مال و اسباب لوٹا گیا اوربہت سے لوگ قید ہوئے

یوں تو عالمِ آب وگل کا ہر واقعہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے کسی خاص جگہ ،کسی خاص مقام اورکسی خاص طبقہ سے متعلق ہوتاہے اوراس لحاظ سے واقعہ کربلا بھی عراق کی سرزمین ،عرب کے ملک ،ہاشم کی نسل اورمسلمانوں کی جماعت سے تعلق رکھتاتھا مگر واقعات میں ہمہ گیری اوروسعت پیدا ہوجاتی ہے ان خصوصیات اورنتاءج کے لحاظ سے جو کُل نوع ِ انسانی سے وابستہ ہوں اورجن میں مذہب و ملت کی کوئی تفریق نہ ہو ۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو واقعہَ کربلا تعدد وجوہ سے تمام نوعِ انسانی کے تعلق کا مرکز ہے ۔ ظالم سے نفرت اورمظلوم سے ہمدردی فطرتِ بشری میں شامل ہے ۔ اگر کوئی قصہ ہمارے سامنے پیش ہو جس میں ایک طرف ظلم کا مظاہرہ ہو اور دوسری طرف مظلومیت ، تو چاہے اس واقعہ سے متعلق شخصیتوں سے ہم واقف نہ بھی ہوں تب بھی ظالم سے نفرت اورمظلوم کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوجائے گی اوراس میں کسی مذہب اورخیال کا امتیاز نہ ہوگا ۔ جو مظالم کربلا میں حضرت امام حسین ;174; پرواقع ہوئے ان کی مثال تاریخ ِ عالم میں ناپید ہے ۔ یوں تو اکثر انبیاء اورمقربین ابنائے زمانہ کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہوئے ،بہت سے بے گناہ افراد قتل کئے گئے،بہتوں کا مال و اسباب لوٹا گیا اوربہت سے لوگ قید ہوئے مگر بحیثیت مجموعی وہ تمام مصائب جن کا سامنا فرداً فرداًانبیاء اوربہت سے اشخاص کو کرنا پڑا ،حضرت امام حسین ;174; کی ذات میں اکٹھا ہوگئے اوران کے بوقت ِ واحد جمع ہوجانے سے آپ ;174; کی ذات مظلومیت میں اپنی مثال آپ قرار پاگئی ۔ لہٰذاجس قدر امام حسین ;174; کی مظلومیت کا درجہ بلند اورظالم کے ظلم کا درجہ شدید ہے اسی قدروہ ہمدردی بھی جو کہ امام حسین ;174; کے ساتھ بحیثیت مظلوم ہوناچاہئے ،ہر دوسرے مظلوم سے زیادہ ہے اور وہ نفرت بھی جوکہ آپ کے دشمنوں سے بحیثیت ظالم ہونا چاہئے ،تمام دنیا کے ستمگاروں کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔

یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ حضرت امام حسین ;174; کی مظلومیت بے بسی کی مظلومیت نہ تھی ۔ آپ ;174; نے ایک مسلکِ حق کی حمایت اورایک اصول کی حفاظت کیلئے تمام مصائب برداشت کئے ۔ اسی کانام قربانی ہے ۔ یوں تو قربانی کی بہت سی اقسام ہو سکتی ہیں مگر ان میں سب سے بلند اور عظیم جان کی قربانی ہے اوراگر فرض کے عائد ہوجانے پر کوئی اس منزل پر ثابت قدم نظر آئے تووہ تمام افرادِ انسانی کے نزدیک زیادہ عزت و احترام کامستحق قرارپائے گا ۔ گویا مقصد جس قدر عزت دا ر اورشریف ہوگا ، قربانی اتنی ہی اہم اورقابل عزت سمجھی جائے گا ۔ کربلا کی سرزمین پر حضرت امام حسین ;174;ابن علی ;174;نے جو قربانی پیش کی وہ انسانی تاریخ کا ایک بے مثال کارنامہ ہے ۔ یہ وہ وقت تھا جب حق پرستی اورحق پروری کی بنیادیں متزلزل ہورہی تھیں اورغلبہ و اقتدارانسانی آزادی کا سرکچل کر اپنی غلامی کا اقرار لے رہاتھا ۔ اس نازک موقع پر حضرت امام حسین ;174;نے اپنے آپ کو اوراپنے عزیزوں حتیٰ کہ بچوں تک کو میدان جہاد میں لاکر جبرو استبدادکا پردہ چاک کردیا اورثبات و استقلال ،صبر و ضبط ،ایثارو قربانی ، حق پروری اورراست بازی و راست کرداری کا انتہائی بلند نمونہ پیش کیا ۔ اس لحاظ سے حضرت امام حسین ;174;کسی قوم اورمذہب سے مخصوص نہیں سمجھے جاسکتے ۔ امام حسین ;174; کا تعلق تمام دنیائے انسانیت سے ہے ۔ آپ ;174; نے وہ کام کیا جس نے انسانیت کے مٹتے ہوئے نقوش کو پھر سے ابھار دیا اوردم توڑتی انسانیت کو وہ پیغام دیا جو زندہ ہے اورہمیشہ زندہ رہے گا ۔ آپ ;174; نے دنیا کو بتایاکہ سچائی اوراورراست بازی کی صحیح قدروقیمت کیاہے اوراس موت کے معنی سمجھائے جس میں دوامی زندگی کی حقیقت مضمر ہے ۔ اس لئے قربانی کی عزت کرنے والی دنیا کی تمام اقوام حضرت امام حسین ;174; کو انتہائی قدرو منزلت سے دیکھنے پر مجبور ہیں ۔

حضرت امام حسین ;174;کا اپنی جان کی قربانی دینے کا مقصدایسا کوئی امر نہ تھا جو مختلف مذاہب کے نقطہَ نظر سے محلِ اختلاف ہو ۔ یقینا اگر حضرت امام حسین ;174;کا مقابلہ کسی دوسرے دین و ملت کے افراد سے ہوا ہوتا یعنی کوئی غیر مسلم جماعت آپ کے سامنے ہوتی تو چاہے آ پ کی قربانی کتنی ہی حقانیت پر مبنی ہوتی اورآپ کو کتنے ہی ظلم کے ساتھ شہید کیا گیا ہوتامگر وہ مذہبی جماعت ،جس کے مقابلے پر آپ;174; ہوتے،کسی حد تک آپ ;174; کے نام اورآپ ;174; کے کام سے بنائے مخاصمت ضرور محسوس کرتی اورواقعہَ کربلا کے ساتھ ہمدردی میں عمومیت پید انہ ہوتی ۔ لیکن حضرت امام حسین ;174; کی قربانی رسمی طور پر کسی ایک مذہب کو مٹانے اوردوسرے مذہب کو قائم کرنے کیلئے نہیں تھی بلکہ ایک ہی دین کے ظاہری ماننے والوں میں برائیوں کو مٹانے اوراچھائیوں کے قائم کرنے کیلئے تھی ۔ آپ;174; کا قیام امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے ربانی حکم کی تعمیل تھی جسے قرآن مجید میں آیت کی صورت میں ہر مومن کو پابند کردیا گیا ہے ۔ چونکہ برائی اوراچھائی کے متعلق اصولی حیثیت کے بارے میں کسی مذہب میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ،یعنی برائیاں مٹانے کے قابل اوراچھائیاں قائم کرنے کی مستحق ہیں ، اس لئے ہر مذہب کے لوگوں کو حسین ;174;کے مقصد سے اتفاق ہوگا اوروہ آپ ;174; کی قربانی سے عزت و احترام کا مستحق سمجھیں گے ۔

حضرت امام حسین ;174;اوران کے ساتھیوں نے واقعہ کربلا کے دوران مختلف اخلاق و اوصافِ کاملہ کی جو مثالیں پیش کیں و ہ عامہَ خلائق کیلئے ایک دائمی درس کی حیثیت رکھتی ہےں ۔ یہ انہی تمام وجوہ کا نتیجہ ہے کہ دنیا نے واقعہ کربلا کے ساتھ اپنے باہمی تفرقہ اورجذبات کی کشمکش کے باوجود یگانگی کا برتاوَ کیا اوراقوام عالم نے یکساں طور پر اس کی اہمیت کا اعتراف و اقرار کیا ۔ واقعہَ کربلا کو دوام کا درجہ حاصل ہے اورصدیاں گذرنے کے باوجود اقوام عالم کی وابستگی اوردلچسپی اس سانحہ سے نہ صرف قائم رہی ہے بلکہ مختلف اوقات میں اس میں اضافہ ہوتا رہا ۔ اگر کوئی سیاح محرم کے ایام میں شرق و غرب ِ عالم کی سیاحت کرے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ ہر جگہ اپنے اپنے معیار ِ زندگی اورطرزِ معاشرت کے اعتبار سے کسی نہ کسی طرح کربلا کے شہیدوں کویاد کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ انسان فطرتاً خوشی کو پسند کرتا ہے اوررنج وغم سے دور بھاگتا ہے ۔ اس لئے اگر حوادثِ زمانہ کے ماتحت غم کے اسباب پیداہو بھی جائیں تو ان کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام ِعالم کے جتنے بھی تہوار ہیں وہ سب خوشی کی یادگار ہیں ۔ غم کی یادگاریں کبھی قائم نہیں کی گئیں ۔ یہ صرف امام حسین ;174;مظلوم کی شہادت ہے جس کی یادگار غم کی صورت میں صدہا سال سے برابر قائم ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فطرت انسانی کسی بار کو عرصہ تک برداشت نہیں کرسکتی لیکن مظلوم ِ کربلا کے غم کی یادگار کا اس طرح برقرار رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ کہ واقعہ کربلا کی یاد میں انسانی زندگی کیلئے منفعت بخش عناصر مضمر ہیں جس کا ذکر احادیث میں بھی ملتاہے ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ حال کا نقش ہمیشہ نقشِ ماضی کو فراموش کرادیتا ہے یا اس کے اثر کو زائل یا مدھم کردیتا ہے لیکن اس کے برخلاف واقعہ کربلا کی یادگار کا اس شدت کے ساتھ قائم رہناکہ حال کا کوئی واقعہ ا س پر اثر انداز نہ ہو سکے،یہ ماننے پر مجبور کردیتاہے کہ تاریخ عالم اس کے بعد سے اب تک اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرسکی ۔ باوجودیکہ واقعہ کربلا کے بعد کتنے ہی انقلابات ہوئے،تمدن نے کتنی ہی کروٹیں بدلیں ، معیارِ اخلاق میں کتنے ہی تغیرات ہوئے مگرحسینی ;174;قربانی کی یاد تقریبا چودہ سو برسوں سے یکساں عزت واحترام کے ساتھ قائم ہے ۔ ماننا پڑے گاکہ میدان کربلا میں عظیم قربانی ایسے مشترک انسانی اصول کی حفاظت کیلئے دی گئی کہ جب تک دنیا میں انسانیت قائم ہے ،اس اصول کی بھی قدرو منزلت اوراس یادگار قربانی کی یاد بھی برقرار رہے گی ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موضوع جتنا اہم ہوگا اورتاریخی حیثیت سے کسی واقعہ میں جس قدر ندرت اوراس کی اہمیت زیادہ ہوگی ،اسی قدر اہل فکر وقلم طبع آزمائی کریں گے ۔ یہ اسی اصول کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کربلا کے واقعہ سے بڑھ کر کسی واقعہ سے متعلق نظم و نثرکا ذخیرہ فراہم نہیں ہوا ۔ کربلا کی زمین پرابھی خون ِشہیداں کی تری خشک نہ ہونے پائی تھی کہ شاعروں کی زبان سے اس واقعہ کے متعلق اشعار تراوش کرنے لگے ۔ کربلا سے شام اورشام سے مدینہ تک کے سفر کے دوران اسیران کربلا بالخصوص حضرت زینب ;174;بنت علی ;174; کے دربارِ یزید اور ایامِ اسیری کے دوران معرکۃ الاراء خطبوں نے عامۃ الناس کو واقعہ کربلا کی اہمیت اورحقیقت سے روشناس کیا ۔ حضرت زینب ;174; بنت علی ;174; نے جس انداز میں کربلا میں خانوادہَ رسول پر ہونے والے مظالم کو عوام میں طشت ازم بام کیا اور مصائب کی حقیقت عوام کے سامنے رکھی اس سے کربلا جیسے لق و دق صحرا ہونے والی اصل واردات اور اس کے مضمرات عوام تک پہنچے ۔ بعد میں حضرت سلیمان بن صردِ خزاعی اورامر مختار ثقفی کے خطبوں اورشہدائے کربلا کے خون کے انتقام کیلئے اٹھائے گئے عملی اقدامات نے سانحہ کربلا کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ مستقل طور پر واقعہ کربلا پر تصانیف کی ابتداء پہلی صدی ہجری کے اواخر میں ہی ہوگئی تھی اوراس کے بعد مورخین واقعہ کربلا کے دوران کے مصائب اورمظالم پر کتبِ مقاتل لکھتے رہے اورتصانیف کا سلسلہ جاری ہوگیاجو اب تک جاری ہے ۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی دوسرے موضوع پر اتنا نہیں لکھا اورکہا گیا جتنا واقعہ کربلاکے متعلق لکھا اورکہا گیا اورلکھا اورکہا جارہا ہے پھر بھی یہ موضوع تشنہ ہے اوربہت کچھ سمجھنے اورسمجھانے کی ضرورت ہے ۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button