کالمزحیدر جاوید سید

کیادن دیکھنے اور باتیں سننا پڑ رہی ہیں ……حیدرجاویدسید

علم و فہم منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ دانش نے بن باس لے لیا۔ اب یہاں وہ اُجلے نتھرے لوگ کہاں سے آئیں گے جو کہتے تھے۔ اخلاق سے دل فتح کئے جا سکتے ہیں۔

دستیاب سیاسی جماعتوں کے درمیان فکری اختلاف فطری بات ہے مگر جس طرح کی زبان پچھلی چند دہائیوں اور بالخصوص 2011 سے سیاسی جماعتوں کے متعلقین استعمال کررہے ہیں اور خصوصاً اب سوشل میڈیا پر اچھلتے کودتے مجاہدین و مجاہدات کے لشکر اس پر رونا آتا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ سستے رومانی ناولوں اور رومانس کے تڑکوں سے بھری تاریخ پڑھے دانش کی جگالی کرنے والوں نے اَت اُٹھا رکھی ہے۔
یہ دن بھی ہماری نسل کی قسمت میں لکھے تھے کہ اب لوگ مراسمِ دنیا کے لئے بھی ذات پات کے ساتھ مسلک پوچھتے ہیں۔ کیا یہ دن بدل سکیں گے؟۔
پھر سے مخالفین کے لئے احترام و توقیر بھرے جذبات والے سیاسی کارکن اور صاحبان جُبہ ودستاراس سماج میں زندگی کے حُسن کو دوبالا کرپائیں گے؟۔ یہ سوال جب کبھی منہ اٹھائے آن کھڑا ہوتا ہے تو دُکھ سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
گو میں ہمہ وقت اور سدا کا اُمید پرست ہوں اور اس بات پر یقین کامل ہے کہ وہ دن نہیں رہے تو یہ بھی نہیں رہیں گے۔ دن بدلتے ہیں۔ دن رات میں اور رات دن میں۔ زمانہ آگے بڑھتا ہے۔
پر وائے ہو اس جہل و تعصب پر جس نے پاکستانی سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ پہلے منبروں پر بندر ناچتے تھے اب لگڑ بگڑ شکلوں والے گالیوں سے خطابت کا حُسن بڑھاتے ہیں۔ اس پر بھی واہ واہ ہو رہی ہوتی ہے۔ ماضی میں جیسے ” بیسواؤں” کی اخلاقیات کے چرچے ہوتے تھے ، ان دنوں اس سے زیادہ چرچے مذہبی رہنماؤں کی منبروں پر کی جانے والی بدزبانیوں اور نکالی گئی گالیوں کے ہیں۔
علم و فہم منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ دانش نے بن باس لے لیا۔ اب یہاں وہ اُجلے نتھرے لوگ کہاں سے آئیں گے جو کہتے تھے۔ اخلاق سے دل فتح کئے جا سکتے ہیں۔
زندگی کے کسی شعبے کو دیکھ لیجئے سب کا یہی حال ہے۔ سماجی اقدار کو روندتے چلے جانے والے معزز ٹھہرتے ہیں۔ فقیر راحموں کے بقول یہ سارے گورکھ دھندے ایک سازش کے تحت پروان چڑھائے گئے۔ میری رائے مختلف ہے۔ فصل وہی اٹھائی جاتی ہے جسکا بیج بویا جائے دھان(چاول) بو کر گندم اُگنے کا انتظار کم عقلی ہے۔
انتہاؤں میں تقسیم معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس کے مذہبی منبروں اور سیاسی سٹیجوں سے اوئے توئے، تو تکار سے بات آگے بڑھ چکی۔ دینداروں اور دنیا داروں کی پوری پوری بدتیمز نسلیں دندناتی پھرتی ہیں۔
زندگی کے دُکھ اس سے سوا بھی ہیں۔ مہنگائی کی بدترین لہر کا سامنا ہے لوگوں کو۔ ریاستی وسائل جن پر 25کروڑ لوگوں کا مساوی حق تھا مگر یہ تو چند صد خاندانوں کی ملکیئت ہوگئے بس چہرے بدلتے ہیں۔ کبھی لباس، نظام وہی ہے استحصالی نظام، لُٹیروں کا یہ نظام کب تک ہمارے گلوں کا طوق بنا رہے گا۔ کسی کو خبر نہیں۔
موت کے سوا ہر چیز مہنگی ہے یہاں۔ ویسے اب موت بھی مہنگی پڑتی ہے مگر پیچھے رہ جانے والوں کو جنہیں کفن دفن ، سوئم دسویں اور چہلم کے ساتھ چھ ساتھ جمعراتیں بھی بھگتانا پڑتی ہیں۔ کچھ زیادہ مایوسی بھری باتیں نہیں ہوگئیں۔
لیکن کیا آدمی چار اور کے حالات سے کٹ کر جی سکتا ہے؟۔ سادہ سا جواب ہے آدمی ہوتو حالات کو بھی موسموں کی طرح محسوس کرتا ہے۔
پچھلی شب ایک دوست نے سوال کیا۔ آخر اس ملک کے عوام کے لئے کوئی کیوں نہیں سوچتا؟۔ عرض کیا بات کڑوی ہے لیکن سُن برداشت کرلیجئے۔ رعایا کو عوام تو بنائیے۔ ہر سُو غلام مارے مارے پھرتے ہیں۔
جب لوگوں میں ناک سے آگے نہ دیکھنے کا مرض پروان چڑھ جائے تو یہی ہوتا ہے۔ جو ہل چلاتے بیلوں اور پانی ڈھوتے جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تبدیلی یا انقلاب کاشت نہیں ہوتے۔ موسمی پھل ہرگز نہیں کہ بازار سے لے آئیں گے۔ آگہی کا نور اور پرعزم جدوجہد لازم ہیں دونوں کے لئے۔
بدقسمتی سے اب نہ تو آگہی کا نور پھیلانے والے ہیں اور نہ پرعزم جدوجہد کرنے والے۔ سیاسی جماعتوں کی حالت خاندانی کمپنیوں کی سی ہے۔ ملازم ملازم اور مالک مالک رہتے ہیں۔ رعایا کو عوام اور کمپنیوں کو سیاسی جماعتیں بنانا ہوگا۔
کڑوا سچ یہی ہے کہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس میں جی بھی لیں تو غنیمت ہے۔ سب اچھا تھا نہ ہے۔ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے اگر لہو سے چراغ جلانے والے فرزانے میدان عمل میں اُتریں اور تاج و تخت اچھال دیں۔
دوست نے کہا عمران خان کے بارے میں کیا رائے ہے۔ عرض کیا ایک چکر خیبر پختونخوا کا تسلی کے ساتھ لگا لیجئے پھر اس موضوع پر بات کرلیں گے۔ وہ تبدیلی لانے نکلے تھے بندے توڑتے پھرتے رہے اقتدار کے دنوں میں جنرل باجوہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اب کہتے ہیں میں مجبور تھا اور وہ چالاک و ظالم ، اپنے تئیں مروجہ سیاست کے نقاد بنتے ہیں مگر اصل میں اسی نظام زرواستحصال کے محافظ کا کردار ادا کرتے رہے
مفادات کے ٹکراو پر نکالے گئے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن بیٹھے مگر مذاکرات آج بھی سیاسی قوتوں کی بجائے جی ایچ کیو سے کرنا چاہتے ہیں
ان کے حامی کہتے ہیں طاقت جس کے پاس بات اسی سے ، اس بات کو درست مان لیتے ہیں پھر یہ بھی مان لیجے اصل تنازع ملازمت کے ختم ہونے کا ہے آج اگر بحال کر دیئے جائیں تو سب اچھا ہوگا
ان دنوں ایک اور معاملے میں دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے دوہزار گیارہ سے اپریل 2022 تک اٹھارہویں ترمیم کو وفاق کیلئے عذاب قرار دینے والے اسی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کی روح بتا رہے ہیں ہے نا عجیب بات لیکن ان کے پیروکار اس قلابازی پہ بھی واہ واہ کررہے ہیں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button