اہم خبریںبین الاقوامیتازہ ترین

لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی افغان اساتذہ کےلیے ذہنی اذیت اورمالی نقصان کاباعث

لڑکیوں کے ثانوی سکول معطل ہونے سے سینکڑوں اساتذہ کی ملازمتیں ختم، خواتین کے کئی کاموں پر پابندی

تقریباً تین سال قبل طالبان کے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دینے کے بعد نجیبہ کی بطورِ معلم زندگی گویا ایک جگہ رک گئی۔ یہ ایک متنازعہ پالیسی تھی جس نے کئی افغان اساتذہ کو سکول چھوڑنے پر بھی مجبور کر دیا۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے ایک ماہ بعد جب ستمبر 2021 میں لڑکیوں کے ثانوی سکول معطل کر دیئے گئے تھے تو اس کے نتیجے میں تقریبا 1.1 ملین لڑکیاں رسمی تعلیم تک رسائی سے اور متعدد خواتین اساتذہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہوگئیں کیونکہ نئی پالیسیوں کے تحت انہیں صرف لڑکیوں کے پرائمری سکولوں میں پڑھانے کی اجازت ملی۔
کابل میں انگریزی کی ایک استاد نجیبہ نے کو بتایا، "ہمیں اس کا خوف تو تھا لیکن معلوم نہ تھا کہ یہ اتنی جلدی ہو جائے گا۔ میرے لیے یہ جاننا مشکل ترین مرحلہ تھا کہ میں مزید پڑھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔”
نیز انہوں نے کہا، "یہ تبدیلی اتنی اچانک اور اس قدر جلد واقع ہوئی کہ میرے لیے اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ اپنی ملازمت اور پیشے سے محروم ہو جانے کے نتیجے میں مجھے تناؤ اور افسردگی کی بہت سنگین سطح کا سامنا کرنا پڑا۔”
37 سالہ خاتون جو ایک مقامی ہائی اسکول میں استاد تھیں، ان کی ذہنی صحت پر ہونے والے اثرات نہ صرف ان کے بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی "ناقابلِ تلافی” تھے کیونکہ وہ زیادہ تر وقت گھر پر رہنے پر مجبور تھیں۔
انہوں نے کہا، "مجھے لگتا ہے کہ میں ناخواندہ ہوتی جا رہی ہوں کیونکہ میں پڑھتی نہیں ہوں۔ میں ہر دن اور ہر لمحہ اپنے طلباء اور ساتھیوں کو یاد کرتی ہوں۔ میں گھر میں زیادہ تر وقت تنہا محسوس کرتی ہوں۔”
افغان وزارتِ تعلیم کے ایک اہلکار جنہیں پریس سے بات کرنے کا اختیار نہ تھا، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عرب نیوز کو بتایا کہ جب یہ پالیسی نافذ ہوئی تو ثانوی اور ہائی سکولوں کی تمام خواتین اساتذہ کا ابتدائی جماعتوں کے سکولوں میں دوبارہ تقرر کر دیا گیا "جہاں اساتذہ کی کمی تھی”۔
اہلکار نے کہا، "اس کے علاوہ ان میں سے کچھ کا مخلوط سکولوں میں لڑکیوں کی شفٹ میں پڑھانے کے لیے تقرر کیا گیا تھا جہاں لڑکے اور لڑکیاں مختلف شفٹوں میں پڑھتے ہیں۔ باقی گھر پر ہی رہ رہی ہیں۔”
"وزارت کا منصوبہ یہ ہے کہ لڑکیوں کے سکولوں میں صرف خواتین اساتذہ پڑھائیں گی اور مرد اساتذہ کو لڑکوں کے سکولوں میں منتقل کیا جائے گا۔ کابل اور دیگر صوبوں میں کامیابی سے یہ نافذ کیا گیا ہے۔”
ایس آئی جی اے آر کے نام سے معروف افغانستان کی تعمیرِ نو سے متعلق امریکی حکومت کی نگران اتھارٹی کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے اپنے قبضے کے ایک سال بعد خواتین کی 14,000 سرکاری ملازمتیں ختم کر دی تھیں جن میں سے زیادہ تر تدریسی عہدوں پر تھیں۔
افغانستان میں لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال کے باوجود نجیبہ اب بھی امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔
"میں واقعی امید اور دعا کرتی ہوں کہ کچھ اچھا ہو اور لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھلیں تاکہ ہم جماعتوں اور سکول میں واپس جا سکیں جہاں سے ہمارا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چیز ہمیں خوش اور معمول کی حالت میں واپس آنے میں ہماری مدد نہیں کرے گی۔”
مشرقی صوبہ ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد کے ایک سیکنڈری سکول کی استاد خپرائی کے لیے طالبان کی پالیسیاں ان کی ذہنی صحت اور مالی حالت کو متأثر کر رہی تھیں۔
42 سالہ خاتون نے پرائمری سکول میں منتقل ہونے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کے علاقے میں کوئی آسامیاں نہیں ہیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا، "اور میں اپنے خاندان کو نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ میری حالت میں ہونے والی تبدیلی نے نہ صرف مجھے نفسیاتی طور پر متأثر کیا ہے بلکہ معاشی چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ معاشی بحران کی وجہ سے ان کے شوہر کی ملازمت بھی چلی گئی۔
انہوں نے کہا، "میں اپنی تنخواہ سے اپنے بچوں کی تعلیم میں مدد کر رہی تھی لیکن گذشتہ چند ماہ سے ہماری تنخواہیں کم ہو گئی ہیں۔ اب ہمیں اپنے اکاؤنٹس میں صرف 5,000 افغانی (70 ڈالر) موصول ہوتے ہیں۔ یہ میری اور بچوں کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کروں گی۔”
طالبان کے تحت کام کی کئی جگہوں پر بھی خواتین پر پابندی کے باعث خپرائی کے لیے کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔
"میں کوئی اور کام نہیں کر سکتی۔ طالبان کے تحت خواتین کو کام کے بہت کم مواقع میسر ہیں جس کی وجہ سے خواتین سربراہان کے لیے اپنے خاندان کی کفالت کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔”
نیز انہوں نے کہا، "میں صرف ایک مثبت تبدیلی کی امید کر سکتی ہوں، اور کچھ نہیں۔ کوئی ہماری بات سنتا ہے نہ ہماری پرواہ کرتا ہے۔ ہمیں خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button